محکمہ اینٹی کرپشن میں سسٹم مافیاکا راج ،صوبائی وزیر اور چیئرمین کا مقابلہ
شیئر کریں
( رپورٹ جوہر مجید شاہ) سندھ حکومت کے زیر انتظام چلنے والا ادارہ ‘ اینٹی کرپشن ‘ سیاسی بادشاہ و بازیگرو ‘ کے سامنے گھٹنے ٹیک گیا ‘ سسٹم کا راج ‘ اینٹی کرپشن میں چھا گیا ‘ سپریم کورٹ کے احکامات سمیت قانون کا نفاذ خواب بن گیا اینٹی کرپشن میں سسٹم افسر کے لئے بڑا معرکہ و میدان سج گیا وزیر اینٹی کرپشن اور چیئرمین کے درمیان جاری رسہ کشی نے شدت اختیار کر لی صوبائی وزیر محمد بخش مہر اور چیئرمین اینٹی کرپشن ذولفقار شاہ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع اختلافات کا مرکز ‘ سسٹم افسر امتیاز ابڑو ہیں ذرائع کا دعویٰ کہا جارہا ہے کہ انھیں فری ھینڈ دینے پر چیئرمین چراغ پا ہیں واضح رہے کہ وزیر اینٹی کرپشن نے اس سے قبل بھی چیئرمین فرحت جونیجو کیساتھ ایسا ہی سلوک رواں رکھا تھا یاد رہے کہ فرحت جونیجو نے ہی کرپشن سمیت دیگر ہیرا پھیریوں کا بھانڈہ پھوڑا تھا جن باپردہ و نقاب پوشوں کے چہرے بینقاب کئے تھے ان میں شہریار مہر سیکریٹری صوبائی وزیر سر فہرست تھے جن پر سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے جس میں ‘ کرپشن، بھتہ وصولی و بھاری رشوت کے عوض غیرقانونی تعیناتیوں سمیت دیگر دیگر امور سے بھی پردہ اٹھایا گیا تھا جبکہ موصولہ اطلاعات کے مطابق فرحت جونیجو نے اینٹی کرپشن کے معاملات سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ادارے نیب کو بھی خط لکھا تھا جس پر نیب نے اینٹی کرپشن سے مختلف نوعیت کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے جس پر خوب لے دی ہوئی ذرائع کا دعویٰ ادھر بتایا جارہا ہے کہ اینٹی کرپشن کے تمام معاملات پی ایس ہمایوں اور ڈائریکٹر امتیاز ابڑو دیکھ رہیں ہیں وہ سیاہ و سفید کے مالک ہیں کہا جارہا ہے کہ تمام تقرریوں و تبادلوں کا انکے پاس کلی اختیار ہے سسٹم افسران نے حالیہ دنوں میں کی جانے والی ترقیوں کے عوض بھاری رقوم بزریعہ انسپکٹرز وصول کیں نیز نئے انسپکٹرز بھی سسٹم کے تحت تعینات کئے گئے ہیں۔ چیئرمین اینٹی کرپشن کا دفتر مفلوج ہوگیا ہے جو کہ انصاف و صارفین کے حقوق کے متصادم عمل ہے ‘ بدر جمیل میندھرو، عثمان غنی سمیت کئی چیئرمین تعیناتی کے باوجود موجودہ سسٹم میں خرابیوں اور حالات کی بنیاد پر چارج نہیں لینا چاہتے۔ موجودہ چیئرمین بھی چھٹیاں لے کر چلے گئے تھے۔ کئی ڈائریکٹرز چارج چھوڑ کر چلے گئے ہیں جونیئر افسران کو ڈائریکٹر بنا کر لگایا گیا ہے ضلع اور ڈویڑن اور سرکل افسران پرائیوٹ سیکریٹری کو رپورٹ کر رہے ہیں۔ جبکہ اینٹی کرپشن میں اکھاڑ پچھاڑ بھی جاری ہے۔ سسٹم میں نہ آنے والے افسران کو کراچی بدر کرتے ہوئے ٹف ٹائم بھی دیا گیا ہے انھیں شدید مشکلات کا سامنا ہے پرسنل سیکریٹری شہریار مہر اب بھی سسٹم چلا رہے ہیں بعض محکمہ جاتی افسران نے نام نا ظاہر کرنے پر بتایا کہ میڈیا کی خبروں کی آڑ میں بھی خوب دھندے چلائے جارہیں ہیں جبکہ انکوئریز کی صورت میں گورکھ دھندے کا پورا بازار سجا رکھا ہے غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کہہ کر دبایا جارہا ہے یوں لگتا ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن قانون و آئین سے متصادم و ماوراء ادارہ ہے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر چلنے والے اس غیرقانونی و غیر آئینی گورکھ دھندے کے خلاف مختلف افسران حکمران جماعت کی اعلی عہدوں پر فائز شخصیات سے بھی ملے مگر بے سود کہا جارہا ہے کہ جلد عدالتوں میں اس حوالے سے اہم پیش رفت متوقع ہے جس میں نا صرف قد آور شخصیات کو بے نقاب کیا جائگا بلکہ سسٹم کے پس پردہ عناصر کو بھی بینقاب کیا جائے گا۔