حسن نصر اللہ، اسرائیلی ہٹ دھرمی، غزہ اور اب بیروت
شیئر کریں
افتخار گیلانی
ستائیس ستمبر جمعہ، رات گئے جب لبنان کے دارالحکومت بیروت سے خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ اسرائیلی جہاز شہر کے جنوبی علاقہ داحیہ پر بموں کی بارش کر رہے ہیں، تو مشرق وسطیٰ میں اس رات جیسے سانسیں تھم گئی تھیں۔ تل ابیب سے خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ ایک اہم شخص کو ٹارگٹ کیا گیا ہے ۔ اس علاقہ میں اسرائیلی جیٹ طیاروں نے 900 سے 1800 کلو گرام تک کے 85 بم گراکر چھ بلڈنگوں کو زمیں بوس کر دیا۔
سنیچر کی صبح، جب اسرائیلی فوج نے حز ب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی ہلاکت کا دعویٰ کیا، تو شاید ہی کسی کو یقین آیا۔ اس سے قبل 2006میں بھی اسرائیل نے ان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا، مگر تین دن بعد ٹی وی پر آکر انہوں نے اس کی ہوا نکال دی۔ اس لیے اس بار سبھی خبر رساں ادارے حزب اللہ کی طرف سے اس خبر کی توثیق کا انتظار کر رہے تھے ۔
مشرق وسطیٰ میں موجود سب ہی صحافی حز ب اللہ کے عہدیداران سے اس خبر کی توثیق کے لیے رابطہ کرنے کی کوششیں کر رہے تھے ۔ مگر چونکہ پیچر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے بعد حز ب اللہ کا مواصلاتی نظام بالکل تہس نہس ہو گیا تھا، اس لیے کسی سے رابطہ ہو نہیں پا رہا تھا۔ حزب اللہ کے رکن پارلیمنٹ امین محمد شیری سے جب میں نے بات کی، تو بس اتنا معلوم ہوا کہ جمعہ کی شام سے ان کا رہنما سے رابطہ منقطع ہے ۔خیر دوپہر کو حز ب اللہ کے ترجمان کی طرف سے عربی زبان میں ایک پیغام موصول ہوا۔ھذاالطریق سنکملہ، لواستشھدناجمیعا، لودمرت بیوتنا علی رووسنا۔ لن نتخلی عن خیارالمقاومتہ الاسلامیہ۔ الشہید القائدحجتہ الاسلام سید حسن نصراللہ۔جس کا مطلب ہے کہ ہم اس راستے کو مکمل کریں گے ، خواہ ہم سب شہید ہو جائیں، چاہے ہمارے گھر، ہمارے سروں سے اجڑ جائیں ہم اسلامی مزاحمت کی راہ نہیں چھوڑیں گے ۔ شہید قائد حجتہ الاسلام سید حسن نصرااللہ۔اس پیغام کے فوراً بعد خبر رساں اداروں نے حز ب اللہ کے سربراہ کی ہلاکت کی خبریں نشر کرنا شروع کردیں۔
جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے کالم میں ایک اسرائیلی ماہر کے حوالے سے تحریر کیا تھا کہ پیجر دھماکوں کے بعد اسرائیل کے پاس حزب اللہ کو ختم کرنے یا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ایک مناسب موقع ہے ۔ کیونکہ مواصلاتی نظام کی عدم موجودگی میں جدید سے جدید ہتھیار بھی بیکار ہوجاتا ہے ۔
اسرائیل کی خواہش ہے کہ اس سے قبل ایران اس مواصلاتی رابطہ کو بحال کرنے میں حزب اللہ کی مدد کرتا ہے ، اس تنظیم کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے ۔ اس لیے وہ فی الحال جنگ بندی کے بارے میں کچھ بھی سننا نہیں چاہتا ہے ۔بیروت کے جنوبی مضافات میں رہنے والے 45 سالہ حمود عبیر بتا رہے تھے کہ،’بمباری کی شدت اس قدر تھی کہ مجھے ایسا لگا جیسے عمارت میرے اوپر گرنے والی ہے’ ۔دھماکے کی جگہ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر رہنے والے وکیل علی محمد الجواد کہہ رہے تھے کہ دھماکے کئی منٹ تک جاری رہے ۔ بموں نے پہلے عمارت میں سوراخ کیا اور پھر بالکل زمیں میں گھس کر پھٹ گئے ۔اس طرح کے بم گرانا، جنگ کے زمانے میں بھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے ۔ جواد کا کہنا ہے کہ ان کا گھرلرز گیا، جیسے کوئی بہت ہی طاقتور زلزلہ آگیا ہو۔ جنوبی علاقہ سے لوگ گھروں سے باہر دیگر علاقوں کی طرف بھاگ رہے تھے ۔ تقریباً سبھی نے محسوس کیا تھا کہ یہ کوئی عام بمباری نہیں تھی، بلکہ کسی اہم ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حسن نصراللہ کوئی عام رہنما نہیں تھے ۔ 1992 سے ، وہ ایران کے حمایت یافتہ شیعہ مسلم گروپ کی رہنمائی کر رہے ہیں جو اسرائیل کے لیے کانٹے کی حیثیت رکھتا ہے اور لبنان اور وسیع عرب دنیا میں بہت سے لوگوں کے لیے مزاحمت کی علامت ہے ۔ مشرقی بیروت میں بورج حمود کے محنت کش طبقے کے محلے میں 1960 میں پیدا ہوکر ان کے ابتدائی سال لبنان کی خانہ جنگی کے ہنگاموں کی نذر ہوگئے ۔1982 میں جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا، نصراللہ ایک نوجوان عالم دین تھے ، جو ایران کے انقلابی نظریے سے بہت متاثر تھے ۔ انہوں نے نوزائیدہ حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی، جسے ایران کے پاسداران انقلاب کی مدد سے تشکیل دیا گیا تھا۔ 1992 میں اسرائیل نے اس وقت کے رہنما سید عباس موسوی کو قتل کیا، تو، نصر اللہ کو گروپ کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا۔ان کی قیادت کا کمال ہے کہ حزب اللہ ایک چھوٹے سے عسکری دھڑے سے ایک مضبوط سیاسی اور عسکری قوت میں تبدیل ہو گئی۔ فی الوقت 128 رکنی لبنانی پارلیامنٹ میں حز ب اللہ کے 13 اراکین پارلیامنٹ ہیں۔ وزیر اعظم نجیب مکاتی کی حکومت میں ان کے دو وزیر علی حمیہ اور مصطفیٰ بیرم بھی ہیں۔ 2006 میں اسرائیل کے ساتھ 34 روزہ جنگ کے دوران ایک ماسٹر اسٹریٹجسٹ کے طور پر ان کی ساکھ مزید مستحکم ہوئی۔
اسی طرح گوریلا جنگ کے ذریعے انہوں نے جنوبی لبنان کو اسرائیلی قبضے سے خالی کرواکے لوہا منوالیا۔اس کے باوجود ان کی قیادت بھی متنازع رہی ہے ۔ ناقدین کا استدلال ہے کہ نصر اللہ کی شام کی خانہ جنگی میں شمولیت نے لبنان کو ایسے تنازعات میں گھسیٹا ہے جن کا ملک کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت کے لیے حزب اللہ کے جنگجوؤں کو بھیجنے کے ان کے فیصلے سے لبنان میں خاصا اضطراب تھا۔گرچہ حزب اللہ کے ایک تجربہ کار کارکن ہاشم صفی الدین کو برسوں سے ان کے جانشین کے طور پر دیکھاجاتا ہے ۔ لیکن کسی کے لیے بھی نصراللہ کے سیاسی قد کی برابری کرنا مشکل ہوگا۔60 سالہ صفی الدین اس وقت حزب اللہ کے چند باقی رہ جانے والے اعلیٰ سطحی کمانڈروں میں سے ایک ہیں۔ جنوبی لبنان کے ایک قصبے دیر قانون النحر میں پیدا ہوئے ، صفی الدین نے 1982 میں حزب اللہ کے قیام کے بعد شمولیت اختیار کی۔وہ حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کی سربراہی کر رہے ہیں اور مالی، انتظامی اور تعلیمی کارروائیوں کے انچارج ہیں۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں عراق کے نجف اور ایران کے قم میں دینی تعلیم حاصل کی۔ان کے برادر عبداللہ صفی الدین ایران میں حزب اللہ کے نمائندہ ہے ۔ 2020 میں، ان کے بیٹے رضا صفی الدین نے قدس فورس کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی کی بیٹی زینب سلیمانی سے شادی کی جو اسی سال جنوری میں بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے ۔وہ نصراللہ کے ماموں زاد بھائی بھی ہیں۔ انہوں نے 1983 میں لبنان کی سپریم اسلامی شیعہ کونسل کے شریعہ بورڈ کے رکن محمد علی الامین کی بیٹی سے شادی کی۔2017 میں، امریکی محکمہ خارجہ نے صفی الدین کو خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا۔سعودی عرب نے بھی اسی سال صفی الدین پر پابندیاں عائد کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے لیے نصراللہ کی موت کی خبر ایک ایسے وقت میں ایک بڑا مورال بوسٹر ہے جب ان کی قیادت پر سوالات کیے جا رہے تھے ۔ اس نے اسرائیل میں فتح کا احساس دلایا ہے جو نیتن ہاہو کو ا اقتدار میں برقرار رہنے کا موقع فراہم کرے گا۔مگر مشرق وسطیٰ کے ہر شہر میں اس وقت لو گ جب ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے غزہ اور بیروت کی مسمار شدہ عمارتیں، گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنتے ہوئے ، لوگوں کو پناہ کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، تو وہ بس انتظار کر رہے ہیں کہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی، مغربی اور اسلامی ممالک کی بے بسی کی وجہ سے جنگ کا دائرہ جس طرح وسیع ہوتا جا رہا ہے ، اگلا نمبر ان کے شہر کا ہوگا اور وہ بھی ان بدقسمت بے گھر لوگوں میں شامل ہو جائیں گے ۔