اسرائیل ایران جنگ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ؟؟
شیئر کریں
جاوید محمود
تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایران نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ 2017میں ہنیہ کو خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ اسماعیل ہنیہ 29جنوری 1963کو غزہ کے الشتی کیمپ میں پیدا ہوئے تھے ان کے والدین کو 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ 1997میں ہنیہ کو حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کا معاون مقرر کیا گیا تھا۔ 2006میں فلسطین کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے انہیں بعد میں برطرف کر دیا گیا تھا۔ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے ہنیہ کی شہادت پر رد عمل دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی ارضی سا لمیت قومی اقتدار اعلیٰ ،عزت اور اپنے اعتبار کی پاسداری میں کوتاہی نہیں کرے گا اور صیہونی حکومت اپنی بزدلانہ دہشت گردی کے نتائج بہت جلد دیکھے گی۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی نے کہا ہے کہ ا سماعیل ہنیہ کی موت کا بدلہ لینا ایران پر فرض ہے۔
موجودہ صورتحال میں مشرقی وسطیٰ میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ یہ بادل کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں، اس کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران اسرائیل سے بہت زیادہ بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی اسرائیل سے 10 گنا زیادہ ہے لیکن اس فرق سے یہ اندازہ لگانا قطعی درست نہیں ہوگا کہ ایران فوجی حساب سے اسرائیل سے زیادہ طاقتور ملک ہے۔ اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنے دفاعی بجٹ کی مد میں خرچ کرتا ہے اور اس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے۔ اگر ایران کا دفاعی بجٹ 10ارب ڈالر کے قریب ہے تو اس کے مقابلے میں اسرائیل کا بجٹ 24ارب ڈالر سے زیادہ ہے جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح اس کی حاضر سروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریبا چھ گنا زیادہ ہیں۔ ایران کے ایکٹوفعال فوجیوں کی تعداد 6لاکھ 10ہزار جبکہ اسرائیل کی ایکٹو فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔ اسرائیل کے پاس جس چیز کی برتری ہے وہ اس کے ایڈوانس ٹیکنالوجی اور بہترین جدید طیاروں سے لیس ایئر پاور ہے۔ اس کے پاس 241لڑاکا طیارے اور 48تیز حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹرز ہیں جبکہ ایران کے پاس فائٹر جیٹس کی تعداد 186اور صرف 13اٹیک ہیلی کاپٹر ہیں ۔دونوں ممالک نے ابھی تک بحری افواج کی صلاحیتوں کا مظاہرہ تو نہیں کیا لیکن اگرچہ وہ جدید بنیادوں پر نہ بھی ہو پھر بھی ایران کی بحری فوج کے پاس 101جہاز جبکہ اسرائیل کے پاس 67ہیں ۔
گلوبل فائر پاور کی درجہ بندی کے مطابق ایران دنیا کی 14ویں بڑی فوجی قوت جبکہ اسرائیل اس جنگی میدان میں سترویں نمبر پر ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان آٹھ عوامل کی بنیاد پر ایک سرسری جائزہ لیا گیا ہے۔ ان عوامل میں افرادی فضائی زمینی اور بحری قوت قدرتی وسائل معیشت لاجسٹک اور جغرافیائی حیثیت شامل ہیں۔ اس جائزے کے مطابق ایران کو چھ شعبوں میں برتری حاصل ہے جبکہ اسرائیل صرف دو شعبوں میں ایران سے آگے ہے جن میں فضائی قوت اور جغرافیائی حیثیت شامل ہے۔ اسرائیل معاشی لحاظ سے طاقتور ملک ہے جس کا سالانہ دفاعی بجٹ 24 ارب ڈالر ہے جبکہ ایران کا سالانہ دفاعی بجٹ تقریبا 10ارب ڈالر ہے۔ دفاعی بجٹ کے لحاظ سے اسرائیل دنیا کے 145ممالک میں سے 19نمبرپر جبکہ ایران 33نمبر پر ہے۔ تاہم اسرائیل کا کل بیرونی قرض 135ارب ڈالر جبکہ ایران کا 80 ارب ڈالر ہے۔ اسرائیل کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 212ارب ڈالرز سے زائد ہیں جبکہ ایران کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 127 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ ایران رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے۔ اس کے حاضر سروس فوجیوں کی تعداد 6لاکھ 10ہزار جبکہ اسرائیلی حاضر سروس فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ 70ہزار ہے۔ اسرائیل کے ریزرو فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ 65ہزار جبکہ ایران کے ریزرو فوجیوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ ہے۔ ایران کی پیرا ملٹری فورس کے جوانوں کی تعداد 2لاکھ 20ہزار جبکہ اسرائیل کی پیرا ملٹری فورس 35ہزار فوجیوں پر مشتمل ہے۔ فضائی طاقت کے لحاظ سے بھی اسرائیل کو ایران پر برتری حاصل ہے ۔اسرائیل کا فضائی بیڑا کل 612 چھوٹے بڑے طیاروں اور ہیلی کاپٹرز وغیرہ پر مشتمل ہے ۔جبکہ ایران کے پاس 551طیارے اور ہیلی کاپٹرز ہیں۔ اسرائیل کے جنگی طیاروں کی تعداد 241اور ایران کے جنگی طیاروں کی تعداد 186ہے ۔اسرائیل کے پاس 39گراؤنڈ اٹیک ایئر کرافٹ 146 ہیلی کاپٹرز اور 48ٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں جبکہ ایران کے پاس یہ بالترتیب 23٫ 149اور 13کی تعداد میں ہیں۔ ایران بری طاقت میں اسرائیل سے آگے ہے۔ ایران کے پاس 1996ٹینک ہیں جبکہ اسرائیلی آرمی کو صرف 1370ٹینک میسر ہیں۔ آرمر وہیکلز کی تعداد میں بھی ایران کا پلڑا بھاری ہے۔ ایران کے پاس 65,768جبکہ اسرائیل کے پاس43,407آرمر وہیکلز اسرائیلی سیلف پرو پیڈ ارٹنری کی تعداد 650 جبکہ ایران کے پاس اس کی مجموعی تعداد 580 ہے ۔ایرانی آرمی کے پاس ٹوڈ آر ٹلری کی تعداد 2050جبکہ اسرائیل کے پاس ان کی کل تعداد 300ہے۔ ایران کے موبائل راکٹ لانچر کی تعداد 775جبکہ اسرائیل کے پاس یہ صرف 150ہیں۔
ایران دنیا کی 37 وی بحری قوت جبکہ اسرائیل اس میدان میں 46 وی نمبر پر ہے ۔ایرانی بحریہ کے پاس 101چھوٹے بڑے جنگی جہاز اور کشتیاں ہیں جبکہ اسرائیل کے پاس صرف 101ہیں ۔ایران کے پاس 19جبکہ اسرائیل بحریہ کے پاس صرف پانچ آبددوزیں ہیں۔ اسرائیل کے پاس پانچ فری گیٹس بڑی کشتیاں ہیں جبکہ ایرانی بحریہ کے پاس کوئی فریگیٹ موجود نہیں اسرائیل کے چھوٹے جنگی جہازوں کی تعداد سات جبکہ ایران کے پاس یہ صرف تین ہیں ۔ایران کے پاس سمندر کی تہہ میں بارودی سرنگیں بچھانے والی صرف ایک مشین ہے جبکہ اسرائیل کے پاس ایسی و ہیکل موجود نہیں ۔ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ صرف دو ملکوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہولناک ثابت ہو سکتی ہے جس کے اثرات کئی دہائیوں تک موجود رہیں گے۔ اسرائیل کو دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے ۔اگر خدانخواستہ ایران اسرائیل جنگ ہوئی تو امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی اور دیگر یورپی ممالک اسرائیل کا اعلانیہ یا غیر اعلانیہ ساتھ دیں گے ۔ایران سفارتی سطح پر بظاہرتنہا نظر آتا ہے لیکن جنگ میں امریکہ اور دیگر ممالک کے کودنے کی صورت میں چین اورروس بھی پیچھے نہیں رہیں گے اور وہ کھل کر ایران کی حمایت کریں گے ۔ایسی صورت میں صرف خطے کے ممالک ہی نہیں بلکہ دنیا کی دیگر چھوٹی بڑی قوتیں بھی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہیں جس کے بعد دو ملکوں کی یہ لڑائی ایک خطے سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل سکتی ہے۔ اور تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔