میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ریکارڈ قانون سازی اور پی ٹی ڈی سی

ریکارڈ قانون سازی اور پی ٹی ڈی سی

ویب ڈیسک
جمعه, ۴ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت اپنے آخری دن پورے کررہی ہے لیکن جاتے جاتے انہوں نے ملکی پارلیمانی تاریخ میں تیز ترین قانون سازی کا ریکارڈ بھی قائم کرکے پارلیمانی تاریخ میں قانون سازی کی تیز ترین نصف سنچری بھی مکمل کرلی۔ صرف چار روز میں پارلیمان سے 54بل منظور کروا لیے جن میںسے 35نجی یونیورسٹیوں کے قیام سے متعلق ہیں ۔ اس میں پاکستان میں سیاحت کے حوالہ سے بھی کوئی بل پاس ہوجاتا تو اس مردہ گھوڑے میں بھی جان پڑ جاتی۔ فی الحال تو رانا ثنا ء اللہ خان نے پاکستان سے باہر جانے والے سیاحوں کے لیے ایک اچھا کام کردکھایاہے کہ اپنے دورہ عراق میں عراقی صدر ڈاکٹر عبدالطیف رشید سے ملاقات میں پاکستانیوں کی عراق سے محبت کا بتایااور زائرین کی سہولیات پر بات کی تو عراقی صدر نے رانا ثناء اللہ کی درخواست پر پاکستانیوں کے لیے دو بڑے کام کردیے۔ ایک تو پاکستانی زائرین کا کوٹہ 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی زائرین کو گروپ ویزہ کے علاوہ پاکستان میں عراقی سفارتخانے سے انفرادی ویزہ جاری کرنے کی منظوری بھی دی ۔ جبکہ دوسرا بڑا کام یہ ہوا ہے کہ عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی نے پاکستانی زائرین کے لیے ویزا فیس ختم کردی ۔دنیا میں سیاحت کا شعبہ عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور ہمارے ہاں یہ شعبہ دن بدن تنزلی کا شکار ہورہا ہے۔ سیاحوں کے لیے حکومتی سطح پر کوئی پروگرام نہیں۔ اس وقت وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹورازم کے محکمے اپنی روایتی سستی اور کاہلی سے کچھوے کی چال چل رہے ہیں۔ پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کو عون چوہدری اور آفتاب الرحمن کے سپرد کیا ہوا ہے جنہوں نے ادارے کے اندر اپنی سیاست شروع کررکھی ہے۔ اسی ادارے کے کسی دور میں چودھری عبدالغفور میو بھی سربراہ رہ چکے ہیں جنہوں نے اس شعبہ میں اتنا کام کیاجتنا اس کی تاریخ میںکسی نے نہیں کیا ہوگا ۔پاکستان میں سیاحت کا شعبہ اس لیے بھی پروان نہیں چڑھ رہا کہ ٹورازم کے اندر بیٹھے ہوئے افراد کی اس حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ آپ ان کے ہوٹل دیکھ لیں بہترین لوکیشن پر ہیں، جہاں خوبصورتی چھلک چھلک کر دروازوں پر دستک دیتی ہے لیکن ان ہوٹلوں کا ماحول بالکل ہمارے سرکاری اداروں کی طرح کا ہے۔ ان ہوٹلوں میں ویٹر سے منیجر تک اپنے آپ کو ایم ڈی سمجھتا ہے۔ یہی صورتحال صوبوں میں ہے۔ سفارشی تعینات ہونے والے صرف موج مستی کرنے آتے ہیں اور پھر کوئی جاتے جاتے اپنے بندے رکھ کر جاتا ہے تو کوئی کسی اور کے رکھے ہوئوں کو نکال کر چلا جاتا ہے۔
پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن یا پی ٹی ڈی سی کی بات کریں تو یہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والا واحد ایسا ادارہ ہے جس کا کام ملک میں سیاحت کو پروان چڑھانا ہے۔ پی ٹی ڈی سی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے زیر انتظام ہے اور مختلف علاقوں میں نقل و حمل فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں متعدد موٹلز کا مالک بھی ہے۔جن میںاستق،خلتی،ایوبیہ،بونی،بیشام،چترال،کریم آباد،ہنزہ، خضدار بلوچستان، میاندام،سوات،سیدشریف پنکوٹ،ستپارہ،سوست،طورخم،واہگہ لاہورزیارت،ناران،شوگران،سکردو،خپلو اور گھانچے شامل ہیں۔ پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کو 30 مارچ 1970 کوحکومتی بیڑے میں شامل کیا گیا تھا۔ 2018 میں برٹش بیک پیکر سوسائٹی نے پاکستان کو ایڈونچر سیاحت کے لیے سرفہرست ملک قرار دیا۔ سیاحت نے پاکستان کی معیشت میں تقریباً 19.4 بلین ڈالر کا حصہ ڈالا۔ پاکستان میں سیاحت ایک بڑھتی ہوئی صنعت ہے۔ پاکستان جغرافیائی اور نسلی اعتبار سے ایک تاریخی ملک جہاں ثقافتی ورثے کے متعدد مقامات ہیں۔ اکثر ممالک نے پاکستان کو 2020 کے لیے بہترین تعطیلات کی منزل قرار دیاتھا اور پھردو سالوں میں اس میں 300 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی حکومت نے 175 ممالک کے لیے آن لائن ویزا سروسز کا آغاز کررکھا ہے اور 50 ممالک کے شہریوں کو آمد پر ویزا کی پیشکش لگا دیا جاتا ہے۔ فوربس نے بھی پاکستان کو 2019 میں دیکھنے کے لیے بہترین مقامات میں سے ایک قرار دیا۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ٹریول اینڈ ٹورازم مسابقتی رپورٹ نے پاکستان کو عالمی ثقافتی ورثہ کی جگہوں کے لیے دنیا کے 25 فیصد سرفہرست مقامات میں رکھاہوا ہے جو انڈس ڈیلٹا میں مینگرووز سے لے کر وادی سندھ کے تہذیبی مقامات بشمول موہنجو داڑو اور ہڑپہ تک ہیں۔ 2015 میں پاکستان کے جی ڈی پی میں سفر اور سیاحت کا براہ راست حصہ 328.3 ملین امریکی ڈالر تھا جو کل جی ڈی پی کا 2.8 فیصد بنتا ہے۔ اکتوبر 2006 میں دی گارڈین نے 2005 کے کشمیر کے زلزلے کے ایک سال بعد ملک کی سیاحت کی صنعت کو مدد دینے کے لیے "پاکستان کے ٹاپ پانچ سیاحتی مقامات” کی فہرست جاری کی تھی۔ ان مقامات میں لاہور، شاہراہ قراقرم، کریم آباد اور جھیل سیف الملوک شامل ہیں۔ ملک کے ثقافتی ورثے کو فروغ دینے کے لیے 2007 میں پاکستان نے "وزٹ پاکستان” مہم کا آغاز کیا جس میں میلوں، مذہبی تہواروں، علاقائی کھیلوں کی تقریبات، آرٹس اینڈ کرافٹ شوز، لوک تہواروں اور تاریخی عجائب گھروں کے افتتاح سمیت تقریبات شامل تھیں۔ 2013 میں نصف ملین سے زیادہ سیاحوں نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں 298 ملین ڈالر کا حصہ تھا۔ ان اعداد و شمار کے بعد سے 2018 میں 6.6 ملین سیاحوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی گھریلو سیاحت کی صنعت کا تخمینہ 50 ملین سیاحوں پر ہے جو عام طور پر مئی اور اگست کے درمیان مختصر دوروں پر ملک کا سفر کرتے ہیں۔ سیاحوں کی سب سے زیادہ آمد برطانیہ سے ہے۔ اس کے بعد امریکہ، بھارت اور چین آتے ہیں۔ اب بھی ہم اس انڈسٹری سے بے شمار فوائد اٹھا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں چودھری عبدالغفور میو ، بشیر اے شیخ اورفاروق آزاد جیسے افراد چاہیے جو سیاحت کوایک مشن کے طور پر لیکر آگے چلیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں