میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کمشنر کراچی نے دودھ گراں فروشوں کے خلاف کمر کس لی

کمشنر کراچی نے دودھ گراں فروشوں کے خلاف کمر کس لی

ویب ڈیسک
منگل, ۴ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

( رپورٹ: جوہر مجید شاہ) کمشنر کراچی ڈویژن نے دودھ گراںفروشوں کے خلاف کمر کس لی، دوسری جانب ڈیری فارمز نے سپریم کورٹ اور شہری حکومت کی رٹ کو ہوا میں اڑا دیا، ایک جانب چھاپے گرفتاریاں چالان دوسری جانب من مانی قیمتوں پر دودھ کی فروخت دھڑلے سے جاری، اطلاع کے مطابق180 / 210 روپے فی لیٹر فروخت ہونے والا دودھ مکمل طور پر ملاوٹ شدہ اور انسانی صحت کیلئے مضر حفظان صحت کے اصولوں کے برخلاف ہے، حکومت سندھ کا محکمہ فوڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول بھی وصولیوں کے راستے پر گامزن، شہری مافیا کے ہاتھوں یرغمال بن گئے، شہرقائد میں مرغی گوشت مافیا کے بعد اب دودھ مافیا بھی بے لگام برائلر مرغیوں کے گوشت کو بھی پَر لگ گئے، عید سے قبل برائیلر مرغی کا گوشت 7 تا 8 سو روپے فی کلو فروخت ہوا، جبکہ اب بھی مرغی کی پرواز اترنے کا نام نہیں لے رہی۔ دوسری جانبجنہیں اختیار ہے کہ وہ گراںفروشوں کو قابو کریں اور انھیں لگام دیں وہ اپنے فرائض منصبی میں تاحال کامیاب نہ ہو سکے، ادھر ہوشرباء مہنگائی نے شہریوںکمر توڑ کر رکھ دی۔ لگتا ہے کہ دودھ اور گوشت مافیا پر کچھ پرائیویٹ اور کچھ سرکاری، سماجی،سیاسی لوگوں کی غیرقانونی حکمرانی و اشتراک ہے جس میں سندھ حکومت کا محکمہ بیورو سپلائز اور کمشنریٹ سسٹم کا کلیدی کردار ہے اور وہ اس من مانی گراںفروشی کی مد میں شہریوںکی جیبوں سے روزانہ غیرقانونی طور پر کروڑوں ،اربوں روپے کی لوٹ مار ڈاکہ زنی کے مرتکب ہو رہے ہیں، جبکہ حکومت اور حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ ڈیری فارمرز نے شہری حکومت و رٹ کے متوازی اپنی حکومت قائم کر لی ہے۔ ستم بالائے ستم عید کےدوسرے روز دودھ فروشوں نے تمام حدیں پار کرتے ہوئے دودھ کی فی لیٹر قیمت 230 روپے لیٹر کردی۔ ادھر کمشنر کراچی ڈویژن سمیت مقامی ضلعی انتظامیہ اپنی رٹ کا نفاذ تاحال نہ کرسکی۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے ایک انتہائی اہم اجلاس عید سے محض ایک ہفتہ قبل صدر ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن حاجی اختر کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں حیرت انگیز طور پر ضلعی انتظامیہ نے ڈیری فارمرز کی سرپرستی میں دودھ کی پیداواری قیمت 245 روپے ظاہر کی جسے لائسنس و جواز بنا کر اس اجلاس میں دودھ کی قیمت میں از خود غیر قانونی طور پر 20 روپے فی لیٹر تک کا اضافہ کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ اجلاس سے ایک روز قبل حاجی اختر نے میڈیا نمائندگان سے غیر رسمی گفتگو میں بتا دیا تھا کہ وہ دودھ کی قیمت امسال 40 روپے اضافے کا تہیہکرچکے ہیں اور ابھی فی الحال 20 روپے فی لیٹر اضافہ کر سکتے ہیں، جبکہ نومبر میں دوبارہ 20 روپے اضافہ کردیں گے۔ اس سوال پر کہ کیا دودھ کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار کمشنر کراچی کے پاس نہیں تو حاجی اختر نے کہا کہ اختیار تو ان کا ہے، مگر وہ قیمت بڑھانے کو تیار نہیں اس لیے ہمیں از خود اضافہ کرنا پڑا، اس سوال پر کہ کیا کمشنر کراچی اور ضلعی انتظامیہ کی مشاورت اور بنا اجازت یہ کام غیرقانونی اور کار سرکار میں مداخلت سمیت اختیارات کے منافی عمل نہیں تو انہوں نے کہا ہم اپنا نقصان کیوں کریں۔ ان سے پوچھا گیا آپ کے باڑے بھی تو غیرقانونی ہیں ان سے مزید استفسار کیا گیا کہ بازگشت ہے کہ بھاری وصولیاں لین دین نے آپ کو آزاد ویزا دے رکھا ہے اس پر حاجی اختر نے برجستہ کہا کہ یہ باتیں کرنے کی نہیں ہوتیں۔ پھر کہا کہ آپ بلا وجہ الزام لگا رہے ہیں آپ دفتر میں آکر ملیں سب تفصیل بتائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صارفین پر غیرقانونی طور پر اضافی بوجھ ڈالتے ہوئے پہلے ضلعی انتظامیہ خود پیداواری لاگت زائد ظاہر کرتی ہے اور پھر ڈیری فارمرز کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے اور وہ کھلے عام مہنگا دودھ فروخت کرتے ہیں اور انھیں کوئی قانون کا خوف و پاس نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ دودھ بنیادی ضروریات زندگی کا انتہائی اہم جز ہے، جبکہ دودھ بچوں اور بڑوں دونوں کی اہم ضرورت ہے۔ کمشنریٹ سسٹم جس میں ہیڈ آف دی کراچی کمشنر کراچی ڈپٹی کمشنرز اسسٹنٹ کمشنرز مختیار کار ٹپہ دار تاحال گوشت و دودھ مافیا کو لگام ڈالنے میں ناکام ہیں۔ ادھرذرائع نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ اگر حکومتی سطح پر ایمانداری سے مختلف تحقیقاتی اداروں سے ڈیری فارمرز کی آمدنی و اثاثہ جات کی تحقیقات کی جائیں تو حکومت سمیت شہریوں کے ہوش اڑ جائینگے کوئی بھی ارب پتی سے کم نہیں، کیوں کہ ڈیری فارمرز نے اسی کاروبار سے کما کر دوسرے کاروبار شروع کر رکھے ہیںکوئی بلڈنگ کنسٹرکشن و کنٹریکٹر کا اضافی کاروبار جمائے بیٹھا ہے تو کوئی ٹریول ایجنسی بنا کر تو کوئی زمینوں و اسٹیٹ کے میدان کا فاتح ہے، مزکورہ عناصر مختلف میدانوںمیں جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ اسکے ساتھ کچھ ڈیری فارمرز ریسٹورنٹ کے کاروبار بھی مارکیٹ کر چکے ہیں، مزکورہ عناصر نے شہریوں کا کامیاب شکار کرکے ایک سے 2 اور دو سے 4 کاروبار سجا لیے ہیں نقطہ جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس قدر نقصان ہورہا ہے جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اخراجات ناقابل بوجھ و برداشت ہیں تو پھر ہر شعبہ میں یہ کاریگری کیسے چل گئی اسکا جواب دینا اور لینا اداروں کے بنیادی فرائض منصبی میں ہے۔ مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر بلدیات سندھ سمیت تمام وفاقی و صوبائی تحقیقاتی اداروں سے اپنے فرائض منصبی اور اٹھائے گئے حلف کے عین مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں