قوم پرستی کی آگ پر حب الوطنی کا پانی
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ‘اس لیے حزب اختلاف نے یہ طے کیا ہے کہ قومی جمہوری محاذ (این ڈی اے )کی قوم پرستی کو حب الوطن جمہوری محاذ(پی ڈی اے ) سے کاٹا جائے گا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے منفی قوم پرستانہ نظریہ کے مقابلے حب الوطنی ایک مثبت جذبہ ہے ۔9 اگست 2022کو جب نتیش کمار نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر آر جے ڈی کے ساتھ حکومت سازی کی تھی تو کون کہہ سکتا تھا کہ 9 ماہ بعد وہ ایک ایسا کارنامہ کر گزریں گے جو اہل اقتدار کی نیند اڑا دے گا۔ اس وقت لوگ صرف یہ قیاس آرائی کررہے تھے کہ نتیش کمار ملک کا وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ‘باہو بلی ‘ بی جے پی سے پنگا لیا ہے . یہ کارنامہ دراصل ان کی سو دنوں کی محنت کا ثمر ہے ۔ 12 اپریل کو انہوں نے دہلی میں نہ صرف ملک ارجن کھڑگے اور راہل گاندھی سے ملاقات کی بلکہ کانگریس کے کٹرّ مخالف دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال سے بھی ملے اس طرح گویااپوزیشن اتحاد کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ اس کے بعد 24 اپریل کو اکھلیش یادو کے ساتھ ممتا بنرجی سے ملاقات کرکے انہیں راضی کرنے کی کوشش کی گئی۔ 7 مئی کو مغرب کا رخ کیا اور ممبئی آکر شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے سے مل کر انہیں اعتماد میں لیا۔ 9 مئی کو اڑیشہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک اور جھارکھنڈ کے ہیمنت سورین سے مل کر ان کو سمجھانے بجھانے کی سعی کی گئی ۔
نتیش کمار کی ان کوششوں کا نتیجہ 28 مئی کو ہونے ایوان پارلیمان کی نئی عمارت کے افتتاحی تقریب پر سامنے آیا جب کانگریس، عآپ، جے ڈی یو ، ترنمول کانگریس اور سماجوادی پارٹی سمیت 19 سیاسی جماعتوں نے اس کا بائیکاٹ کردیا۔ اس کے بعد جاکر پٹنہ میں یہ کامیاب نشست کا انعقاد ہوسکا ۔ حزب اختلاف کے اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیر اعظم کے امیدوار کی تھی ۔ اس لیے ممتا بنرجی اور اروند کیجریوال جیسے آرزومند رہنما کانگریس کے بغیر محاذ بنانا چاہتے تھے لیکن نتیش کمار نے اس رکاوٹ کو عبور کرکے کانگریس کو شامل کرلیا ۔ اس نشست کے اعلان پر اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ کانگریس اس میں شامل نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو معمولی رہنما کو بھیج دیا جائے گا لیکن پارٹی کے صدر ملک ارجن کھڑگے سمیت راہل گاندھی نے شرکت کر سارے شکوک و شبہات پر پانی پھیر دیا۔ میٹنگ تو بند کمرے میں ہوئی اس لیے اندر کیا ہوا یہ کوئی نہیں جانتالیکن بعد جو پریس کانفرنس ہوئی اس کے ذریعہ نشست کے موڈ کا پتہ چل گیا ۔نتیش کمار نے نامہ نگاروں سے شرکاء کا تعارف کروانے کے بعد کھڑگے کو ابتداء کرنے کی دعوت دی۔ وہ شاید اس کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے کچھ رسمی باتیں کرکے آئندہ ماہ کے وسط میں شملہ کے اندر آگے کی حکمت عملی بنانے کا اعلان کرنے پر اکتفاء کیا۔ اب اس میٹنگ کو ہماچل پردیش سے کرناٹک منتقل کردیا گیا ہے اور اس انعقاد بنگلورو میں ہوگا ۔ وہاں پر صدارت بھی نتیش کمار کے بجائے کانگریس یعنی ملک ارجن کھڑگے کی ہوگی۔ افتتاحیہ کے بعد راہل گاندھی کو موقع دیا گیا ۔ انہوں نے اسے نظریات کی جنگ قرار دیا اور آئینی اداروں کی بربادی کا دُکھڑا سنایا ۔ راہل نے آپسی اختلافات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں لچک کے ساتھ حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھا تے ہوئے ممتا بنرجی نے ساتھ رہنے اور ساتھ لڑنے کا اعلان کیا اور گورنر ہاوس سے کی جانے والی مرکزی حکومت کی ریشہ دوانیاں بیان کیں ۔ انہوں دہلی کے بجائے پٹنہ میں اجلاس کے اہتمام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہاں سے آزادی سمیت کئی تحریکات اٹھی ہیں اور یہ بھی عوامی تحریک ہوگی ۔
عمر عبداللہ نے آئین کے تحفظ اور حقوق انسانی کی پامالی کو اپنا موضوع بنایا ۔ کمیونسٹ پارٹی کی تینوں دھڑوں نے یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے مہنگائی اور بیروزگاری جیسے عوامی مسائل پر ملک گیر تحریک چلانے کی تجویز پیش کی ۔ جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے ملک کے اندر پائی جانے والی ‘کثرت میں وحدت ‘ کے ماحول کو لاحق خطرات کا ذکر کیا اور دلت پسماندہ و اقلیت سماج کو درپیش مسائل بیان کرکے ان کی ترقی کے لیے کام کرنے کی بات کی۔ اکھلیش یادو نے ملک کو بچانے اور مل جل کر آگے بڑھانے کے عزم کا اعلان کیا اور پھر آخر میں لالو یادو نے ایک دلپذیر تقریر کرکے گزرے زمانے کی یاد تازہ کردی ۔ لالو پرشاد یادو کی بزلہ سنجی نے محفل کو لالہ زار کردیا ۔ حزب اختلاف کی میٹنگ کے اختتام پر منعقدہ پریس کانفرنس میں آر جے ڈی کے قومی صدر لالو یادوپرانے انداز میں کہا کہ علاج کے بعد اب وہ بالکل فِٹ ہوگئے ہیں اور بی جے پی کو فِٹ کردیں گے ۔
بی جے پی اور وزیر اعظم کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا نریندر مودی اُڑ اُڑ کر چندن کی لکڑیاں بانٹتے پھر رہے ہیں جبکہ ملک ٹوٹنے کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ مہنگائی کا ذکرکرنے کے بعد وہ بولے اس ملک میں لوگ ہنومان جی کا نام لے کراور ہندو مسلم کا نعرہ لگا کر الیکشن لڑتے ہیں۔ کرناٹک میں ہنومان جی نے ان کی پیٹھ پر ایسے گدا مارا کہ راہل کی پارٹی جیت گئی۔ ہنومان جی ہمارے ساتھ شامل ہوگئے ۔ ہم سب کو جمع کر رہے ہیں اس لیے اس بار طے ہے کہ بی جے پی والے گئے یعنی ان کا اقتدار ختم۔ راہل گاندھی کا تذکرہ کرتے ہوئے لالو پرشاد یادو نے کہا کہ راہل گاندھی نے ہندوستان کا دورہ کیا، اچھا کام کیا۔ اڈانی کے معاملے میں بھی انہوں نے لوک سبھا میں اچھا کردار ادا کیا ۔ اس کے بعد اپنے روایتی ظریفانہ پرانے انداز میں وہ راہل گاندھی کو مخاطب کرکے بولے مہاتما جی شادی تو کریئے ۔ داڑھی بڑھا کر کہاں گھوم رہے ہیں؟ ہماری بات مانئے ، شادی کریئے ۔ آپ کی ممی کہتی تھیں، میری بات نہیں مانتا ہے ، آپ لوگ شادی کر وایئے ۔ابھی وقت نہیں گزراہے ۔ شادی کریئے ہم بارات میں آئیں گے ۔ اس پر راہل نے کہا کہ آپ نے کہہ دیا اب ہوجائے گی ۔ لالو بولے پکا کرنا پڑے گا۔ آپ کی عمر کہاں بیتی ہے ؟ داڑھی بڑھالئے ہیں، اب کٹوالیجئے ۔ یہ نتیش جی کی بھی رائے ہے ، داڑھی چھوٹی کرا لیجئے ۔پریس کانفرنس کے اختتامی خطاب میں لالو یادو نے راہل کو اس مجلس کا دولہا اور باقی لوگوں کو باراتی بنا کرایک لطیف سیاسی اشارہ کردیا یعنی انتخاب کے بعد اگر بی جے پی اقتدار سے بے دخل ہوگئی تونوشہ راہل اور دیگر جماعتیں باراتی ہوں گی۔ پہلے زمانے میں دولہا ناچتا گاتا نہیں تھا لیکن آج کل وہ سب بھی ہونے لگا ہے ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ لالو کا نامزد کردہ ‘دولہا راجہ بی جے پی کا باجا بجا ئے گا’۔ پریس کا نفرنس کے آخر میں اخبارنویسوں کا راہل سے سوال کرنے پر اصرار بھی یہ بتارہا تھا کہ اس محفل کے دولہے راجہ وہی تھے لیکن گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر کسی کو سوال کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔راہل کی اس حیثیت کا اعتراف دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں نے بھی کرنا شروع کردیا۔ اس نشست سے ایک دن قبل چھتیس گڑھ کے شہر درگ کے اندر بی جے پی اقتدار کے نوسالہ تقریبات میں شرکت کرنے والے وزیر داخلہ امیت شاہ نے راہل گاندھی کو نریندر مودی کے مقابلے وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنا دیا۔امیت شاہ نے کہا کہ کانگریس راہل گاندھی کو 2024 میں وزیر اعظم بنانے کی کوشش کررہی ہے ۔ویسے اس میں کیا غلط ہے ؟ بی جے پی اگر نریندر مودی کو74سال کی کبر سنی میں تیسری بار وزیر اعظم بنانے کی سعی کر سکتی ہے تو کانگریس کو بھی حق ہے کہ ان سے بیس سال چھوٹے راہل کو وزیر اعظم کا امیدوار بنائے حالانکہ گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا گیا مگر امیت شاہ نے اس کا اعتراف کرلیا۔ وہ آگے بولے لوگوں کو اب نریندر مودی اور راہل گاندھی کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے ۔ اس کے بعد وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کہ 2024 میں وزیر اعظم کون ہوگا ، راہل بابا یا نریندر مودی ؟ ظاہر ہے بی جے پی کے پیسے سے جٹائی گئی بھیڑ راہل گاندھی کا نام تو لینے سے رہی ۔ وہ نریندر مودی کے نعرے لگانے لگی۔ وطن عزیز میں سیاسی رہنما نمک حرام ضرورہیں لیکن عوام حتی الامکان حق نمک ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کم از کم اس برتن میں سوراخ کرنے کی کوشش نہیں کرتی جس میں کھایا ہوا کھانا ابھی ہضم بھی نہیں ہوا ہو۔ ایسا تو صرف سیاستداں ہی کرسکتا ہے ۔
ملک میں فی الحال سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے لیے یہ نعمتِ غیر مرتقبہ ہے ۔ وہ لوگ ان کروڑوں بیروزگار وں اپنے سیاسی جلسے کامیاب کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عوام کی خاطر بھی یہ سیاسی تقریبات ایک روزگار کی طرح ہیں ۔ اس میں پیٹ بھرنے کے لیے دوپیسے مل جاتے نیز خاطر مدارات کے ساتھ سیر و تفریح بھی ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بلاتفریق ساری سیاسی جماعتوں کی تقریبات میں شریک ہوکر حسبِ ضرورت نعرے بازی کرتے ہیں۔ اس طرح اصول و نظریات سے عاری سیاستدانوں کو اپنی جعلی طاقت دکھانے کا موقع مل جاتا ہے ۔ ان پروگراموں کی ویڈیو بناکر میڈیا کے ذریعہ پھیلایا جاتاہے اور ایسی ماحول سازی کی جاتی ہے گویا سارا ملک ان کے ساتھ ہے ۔ درگ میں یہ لوگ مودی مودی کررہے تھے لیکن اگر کل کو چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل رائے پور میں کسی جلسۂ عام کا انعقاد کریں تو یہی لوگ وہاں پر راہل راہل کے نعرے لگائیں گے ۔ ساری سیاست جب خالص اقتدار کے حصول کا ذریعہ بن کر رہ جائے تو اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے ؟ این ڈی اے کے بجائے پی ڈی اے کے آجانے سے تھوڑا بہت فرق تو پڑے گا لیکن کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آسکے گی۔
٭٭٭