میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قتل کے بڑھتے واقعات اورلاپتہ پولیس

قتل کے بڑھتے واقعات اورلاپتہ پولیس

ویب ڈیسک
منگل, ۴ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی
ایک بار پھرگجرات میں قتل کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہاہے جس کی اہم وجہ بے جا سیاسی مداخلت اورپولیس کا پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے منافی مصروفیات ہیں ۔آئے روز بے گناہ بے موت مارے جا رہے لیکن پولیس کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا ویر اورغیرت کے نام پر مارے جانے والوں کے علاوہ چوریوں اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوچکاہے ۔ حالات اِس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اکثر واقعات میں مرنے والے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُسے کون اورکیوں ماررہا ہے جبکہ مارنے والے کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیوں ماررہا ہے ۔بدامنی کی اِس لہر میں شدت گزشتہ کئی ماہ سے ہے۔ خوف وہراس کی فضا سے لوگ اِس حد تک عدمِ تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں جیسے گجرات کوئی علاقہ غیر ہو کیونکہ یہاں قانون نام کو نہیں۔ شہر کی کچہری جہاں انصاف کے لیے عدالتیں اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے دفاتر ہیں یہاں بھی چوریاں معمول ہیں، لیکن کیا امن وامان یقینی بنانے کے لیے پولیس متحرک ہے؟ جب اِس طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تومایوسی ہوتی ہے۔ ایسے لگتاہے پولیس ہی لاپتہ ہے۔ خطہ یونان کہلانے والے ضلع گجرات میں جنگل کا قانون رائج ہے۔ گجرات کے شہری افراتفری ،بے یقینی اور خوف ہراس کی فضا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ماضی میںیسے ابتر حالات کبھی نہیں دیکھے گئے۔
عید سے قبل ایک سترہ سالہ نوجوان معاذ قاتل ڈور کا نشانہ بن کر اُس وقت جان سے ہاتھ دھو بیٹھا جب وہ اپنی ہمشیرہ کوموٹر سائکل پر کالج چھوڑنے جا رہا تھا۔ اِس واقعہ کی خاص بات یہ کہ مقتول چاربہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ۔چاہیے تو یہ تھا کہ پولیس پیشہ وارانہ صاحیتوں سے کام لیکرتفتیش کرتی اوروالدین کوواحد سہارے سے محروم کرنے کے ذمہ داران کا کھوج لگا کراُنھیں کیفرِ کردار تک پہنچاتی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔بلکہ روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس نے وقوعہ کو روزمرہ کا معمول جان کر داخلِ دفتر کردیا ہے حالانکہ میاں شہباز شریف جب وزیرِ اعلیٰ پنجاب تھے تو انھوں نے یہ اصول بنارکھاتھاکہ جس تھانے کی حدود میں ڈورپھرنے کا واقعہ ہو اُس تھانہ انچارج کو نہ صرف معطل کیا جائے بلکہ اُس پر ایف آئی آر بھی درج ہو۔ اب جبکہ وہ وزیرِ اعظم جیسے منصب پر فائز ہیں پنجاب میں انھی کے بنائے اصول کو پامال کیاجانے لگا ہے۔ ایسے لگتا ہے پولیس کسی کے ماتحت نہیں بلکہ مادرپدر آزاد ہے۔ کاش وزیرِ اعظم اِس طرف دھیان دیں کہ کیسے عام اور بے گناہ لوگ سرِ راہ مارے جا رہے ہیں اور پولیس کارروائی کرنے کے بجائے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتی دیگر غیر ضروری کا موں میں مصروف ہے ۔
چاربہنوں کا ا کلوتا بھائی اور والدین کا واحد سہارادن دیہاڑے بے موت مارا گیا ہے۔ عیدجیسے خوشی کے تہوارپر بہنیں اور والدین کا رو رو کر بُراحال ر ہا۔ لیکن قانون نافذ کرنے والا اِدارہ ایسے خاموش ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔ایس ایچ او سمیت تمام افسران نے شاید اِس لیے وقوعہ فراموش کردیا ہے کہ مرنے میں مقتول کا اپنا قصورہے۔ اگر سڑک پر نہ آتا تو ہر گز جان سے نہ جاتا۔ منصف نے قاتل کی یہ دلیل مان لی مقتول خود گراتھاخنجر کی دھار پر۔مگر یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیاوی عدالتوں سے کوئی گناہگار اگر اثرورسوخ سے بچ بھی جائے تو ایک عدالت روزِ محشر لگے گی جہاں فرائض سے کوتاہی کے مرتکب کسی صورت سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ اللہ تو بہترین انصاف کرنے والا ہے۔ قاتلوں سے چشم پوشی کرنے والوں سے جب حساب کتا ب ہوگا تو کوئی دنیاوی طاقت طرفداری نہ کر سکے گی۔ یہ سنگدل اور سفاک لوگ اب تو فرائض کی دائیگی کی بجائے جی حضوری و چاپلوسی سے سب اچھا ہے کی رپورٹس لکھو اکر عہدے بچا لیتے ہیں مگر کیا قیامت کے روز بھی یہ ایسا کوئی بندوبست کر سکیں گے؟ ہر گز نہیںوہاں تو مظلوم کی فریاد کی مکمل داد رسی ہو گی کاش عہدوں اور دولت کی ہوس میں مبتلا یہ لوگ اِس بارے کبھی سوچیں اگر ایسا ہوجائے توآئے روز لاقانونیت کا ایسا مظاہرہ ہر گز نہ ہو۔
عید کے ایام میں ہی ایک نوجون کو اسی تھانے کی حدود میں گولیوں سے بھون دیا گیا مگر پویس سے کارروائی کے متعلق کوئی دریافت کرنے کی کوشش کرے تو ایک روایتی سا جواب ملتاہے کہ ہم کیا کریں؟ لوگ اپنی دشمنیوں کی وجہ سے قتل ہو رہے ہیں۔ ارے بھائی آپ بھاری بھرکم تنخواہ لیتے ہیں ،کیا گشت آپ کی ذمہ داری نہیں ؟ اگرہے تو کیا یہ ذمہ داری پوری کی جارہی ہے؟ایسا بالکل نہیں بلکہ یاتو تھانہ جات میں کوئی اہلکار ہوتا ہی نہیں، اگر کسی سائل کو خوش قسمتی سے کوئی اہلکارمل جائے تووہ رسمی کارروائی اوراپنی بے اختیاری کا رونا روکر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟وجہ صاف ظاہر ہے کہ نااہل اور نالائق اہم عہدوں پر فائز ہیں جن کا معمول فرائض کی ادائیگی نہیں بلکہ حاکمانِ وقت کی چاکری ہے، جہاں ایسا طرزِ عمل ہو کیا وہاں قانون کی عمل داری ممکن ہے؟ َ ظاہر ہے ایسا کسی صورت ممکن نہیں مگر گجرات میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ روزانہ بے گناہوں کاناحق خون بہایا جارہا ہے۔ بڑھتے خونی واقعات کے باوجودپولیس ایسے لاپتہ ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
بڑھتے خونریز واقعات کا تقاضا ہے کہ پولیس معمول کے گشت میں اضافہ کرے تاکہ عام لوگوں میں پیداہونے والے عدمِ تحفظ کے احساس کا خاتمہ ہو مگر گجرات شہر کے ایسے اہم ترین پولیس اسٹیشن(جس کی حدود میں کچہری اور عدالتیں بھی آتی ہیں) میں تعینات ایس ایچ او جو حاکمانِ وقت کی چاکری میں اپنے عہدہ کے فرائض بھی یکسر فراموش کربیٹھے ہیں نے ایک تاجررہنما کو یہ بتا کر حیران کردیا کہ میں تو بظاہر ایس ایچ او ہوں مگر ایس ایچ او کے اصل اختیارات میرے پاس نہیں بلکہ فلاں ایک سویلین کے پاس ہیں اور وہی تھانہ چلا رہے ہیں۔ وہ ایک ایسا سویلین ہے جس کے متعلق گجرات شہرمیں کرپشن کی ایسی ایسی ہوش رُبا داستانیں گردش کررہی ہیں جس کے سامنے اچھے اچھے پولیس آفیسر ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ وہ ایس ایچ او لگوانے سے قبل باقاعدہ وصولی کرتا ہے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ ڈی پی او دفتر سے کسی کو گناہگار یا بے گناہ لکھوانے سے قبل وصولی ڈی پی او دفتر میں بنی مسجد میں کرتا ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے جہاں حالات اِس حد تک خراب اور ایس ایچ او بے بس ہوں ،وہاں امن و امان کی امید کی جا سکتی ہے ؟اِس میں شبہ نہیں کہ پنجاب میں ایک سیاسی جماعت کے خلاف کاروائیاں عروج پر ہیں مگرڈی پی اور دفتر میں بیٹھ کر مذکورہ بالا سویلین حکومت کے حامی سیاسی کارکنوں کی نشاندہی اور پھر اُنھیں گرفتارکرنے کی ہدایات دیتا ہے۔ شاید اسی لیے پولیس لاپتہ ہے اور قتل کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں مگریادرکھنے والی بات یہ ہے کہ بدامنی سے کسی جماعت کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ مقبولیت کم ہوتی ہے ۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ پولیس سیاسی ڈیروں پر حاضریاں لگانے ،سیاستدانوں کی ایما پر بے گناہ کی پکڑ دھکڑ چھوڑ کر اپنے اصل فرائض امن و امان بحال کرنے پر توجہ دے تاکہ ضلع گجرات دوبارہ امن کا گہوارہ بنے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں