میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میکسیکو میں چرس فیسٹیول کا انعقاد،کراچی ولاہور کی سڑکوں اور بازاروں میں منشیات کی فروخت

میکسیکو میں چرس فیسٹیول کا انعقاد،کراچی ولاہور کی سڑکوں اور بازاروں میں منشیات کی فروخت

ویب ڈیسک
منگل, ۴ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

میلے میں شرکت کرنے والے ہر ایک شخص کو 28 گرام یا اس سے کم مقدار میں چرس خریدنے کی قانونی اجازت تھی
نیواڈا میں یکم جولائی کو سجنے والے سالانہ چرس کی فروخت کے میلے میں گزشتہ برس 4 کروڑ افراد نے شرکت کی تھی
لاہور میںمنشیات کے کاروبار کا آغاز لوئر مال سے ہوتا پورے صوبے میں پھیل گیا،داتا دربار کے زائرین خصوصی نشانا
لاہور پولیس کی جانب سے شیشہ پارلرز کے خلاف کارروائی کی وجہ سے حشیش کی مانگ میں پھر اضافہ ہو گیا
2 ہزار سے 3 ہزار روپے فی بیس گرام کے مارکیٹ ریٹ پر 10 گرام، 20 گرام، آدھا کلو اور ایک کلو کے پیکٹ فروخت کرتے ہیں
شہلا حیات نقوی
ویسے تو امریکی حکومت میکسیکو کو منشیات کا مرکز قرار دے کر اس کی سرحد کے ساتھ دیوار بنانے کا اعلان کر چکی ہے، لیکن دیکھا جائے تو اس وقت منشیات کا سب سے زیادہ استعمال امریکا میں ہی ہوتا ہے۔امریکی حکومت کی منشیات کے خلاف کوششوں کے دعوے اپنی جگہ لیکن امریکی ریاست نیواڈا میں قانونی طور پر یکم جولائی کو چرس کی فروخت کا میلہ سجایا گیا، یہ ریاست آبادی کے لحاظ سے امریکا کی 34 ویں بڑی جب کہ وسعت کے لحاظ سے ساتویں بڑی ریاست ہے۔
اس میلے میں چرس کو تفریحی بنیادوں پر فروخت کے لیے پیش کیاگیا، ایک روزہ میلے کا اہتمام دارالحکومت لاس ویگاس میں کیا گیا، جو ہوٹلوں اور جوا خانوں کے حوالے سے منفرد اہمیت رکھتا ہے۔نشریاتی ادارے ’دی کینابسٹ‘ نے اپنی خبر میں بتایا کہ لاس ویگاس کے کمشنر نے چرس کی فروخت کے لیے سجائے جانے والے ایک روزہ میلے کے لیے خصوصی طور پر ہنگامی قواعد و ضوابط کا اعلان کرتے ہوئے اسے قانونی قرار دیا۔ضلعی انتظامیہ کے مطابق چرس کی فروخت کے اس قانونی میلے میں 21 سال یا اس سے زائد عمر کا کوئی بھی شخص جو شناختی کارڈ کا حامل ہو،شرکت کرسکتا تھا۔انتظامیہ کے مطابق میلے میں شرکت کرنے والے ہر ایک شخص کو 28 گرام یا اس سے کم مقدار میں چرس خریدنے کی قانونی اجازت تھی۔
لاس وگاس ریویوجرنل نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ریاستی حکومت نے 29 جون کو اس میلے میں چرس کی فروخت کرنے والے 37 ریٹیلرز اسٹالز لگانے والوں کواجازت نامے جاری کر دیے تھے۔شہری انتظامیہ کو امید تھی کہ چرس سے لطف اندوز ہونے اورخریداری کے لیے اس میلے میں لاکھوں افراد آئیں گے۔لاس ویگاس کے شہریوں نے انتظامیہ کو اس حوالے سے ناامید نہیں کیا۔خیال رہے کہ ریاست نواڈا میں مخصوص مواقع یا کچھ اہم دنوں پر چرس یا دیگر منشیات کی فروخت کو قانونی درجہ حاصل ہے۔نیواڈا میں سال نو کے موقع پر یکم جنوری اور سال کے وسط پر یکم جولائی سمیت دیگر مواقع پر بھی منشیات کی فروخت قانونی ہوتی ہے۔نیواڈا میں ہر سال یکم جولائی کو چرس کی فروخت کا میلہ سجایا جاتا ہے، جس میں کروڑوں لوگ شرکت کرتے ہیں، گزشتہ برس میلے میں 4 کروڑ افراد نے شرکت کی تھی۔ریاست نیواڈا کے علاوہ امریکا کی دیگر ریاستوں کولاراڈو، واشنگٹن، کولمبیا، الاسکا، اوریگن، کیلیفورنیا، میساچوسٹس اور میئن میں بھی کچھ مواقع پر منشیات کی قانونی اجازت ہوتی ہے ،تاہم ہر کسی کو منشیات کی محدود مقدار فروخت کی جاتی ہے اور منشیات لینے والا شخص اسے عوامی مقامات کے بجائے گھر پر استعمال کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
یہ تو تھی امریکا کی بات لیکن چرس کے استعمال کے حوالے سے پاکستان امریکا سے کسی طورپر پیچھے نہیں ہے اگر امریکی ریاست میں منشیات کا قانونی بازار لگتاہے توپاکستان میں اس طرح کے کسی قانونی بازار یامیلہ لگائے جانے کا کوئی تصور تو نہیںلیکن پاکستان کا کوئی شہر کوئی قصبہ یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی چرس ،ہیروئن اور دوسری ہر طرح کی منشیات عام دستیاب ہیں۔ا ین جی او یوتھ کونسل فار اینٹی نارکوٹکس( یوتھ کونسل برائے انسدادِ منشیات) کے مطابق لاہور میں تقریباً 40 لاکھ افراد مختلف اقسام کی منشیات استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں کراچی کے بعد لاہور میں سب سے زیادہ منشیات استعمال کی جاتی ہے حشیش ،ہیروئن، بھنگ، ٹرینکولائزر، کوکین اور افیون شہرمیں ہر جگہ دستیاب ہے اور نجی اور عوامی شعبے میں منشیات کے استعمال کی روک تھام کا پروگرام نہ ہونے کے باعث یہ دھنداخوب پھل پھول رہا ہے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق لاہور میں 7ہزار سے زائد منشیات کے اڈے چل رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ لاہور کے 15 علاقوں میں پشاور سے منشیات سپلائی کی جاتی ہے، ان علاقوں میں شاہدرہ، شفیع آباد، بھٹی چوک، تبی سٹی، لاری اڈہ، ریلوے اسٹیشن، لوئر مال، ہنجروال، ڈیفنس، باغبان پورہ، شالیمار، ہربنس پورہ، نارتھ کنٹونمنٹ، کہنا، نشتر کالونی اور رائیونڈ شہر شامل ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق بے گھر اور بے روزگار منشیات کے عادی افراد روزانہ 100 روپے کی چرس استعمال کرتے ہیں جبکہ طالب علم اور اونچے طبقے کی خواتین ہفتے میں 1500 روپے مالیت کی اعلیٰ کوالٹی کی منشیات خریدتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میںمنشیات کے کاروبار کا آغاز لوئر مال سے ہوا تھا اور پھر یہاں سے پورے صوبے میں پھیل گیا۔ داتا دربار اور اس کے اطراف کا علاقہ زائرین کو نشانا بنانے کے لیے منشیات فروشوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق داتادربار کے اطراف کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے منشیات فرشوں نے چھوٹے پیمانے پر اس کاروبار کا آغاز کیا تھا اور جلد وہ بزنس ٹائیکون بن گئے۔ان بزنس ٹائیوکنز میں مبینہ طورپر گدی سائیں، شہزاد بٹ، ڈاکٹر صدیقی، پرندہ مارکیٹ کا غلام نبی، شیش محل روڈ کے فاروقی بھیا، پیر مکی کے چاند ، نیکو میراثی اور بھاٹی گٹ کے نوید شاہ کے نام شامل بتائے جاتے ہیں۔
لوئر مال پولیس اسٹیشن کے ایک سابق ایس ایچ او نے بھنگ کے اہم سپلائرنیکو مراثی سے میٹنگ طے کی تھی تاہم وہ اپنے گھر نما منشیات کے اڈے پر ملنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے اور ان کا اصرار تھا کہ ٹیلیفون پر ہی بات کی جائے۔نیکو نے بتایا کہ وہ 2 ہزار سے 3 ہزار روپے فی بیس گرام کے مارکیٹ ریٹ پر 10 گرام، 20 گرام، آدھا کلو اور ایک کلو کے پیکٹ فروخت کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گردا جو چرس کی بہتر قسم ہے، کی خواتین اور طالبعلموں میں خاصی مانگ ہے اور یہ اسی منشیات کی ہلکی کوالٹی کے مقابلے میں نسبتاً مہنگا ہوتا ہے۔ انھوںنے یہ بھی انکشاف کیا کہ منشیات کا ہرڈیلر اپنے کاروبار کے تحفظ اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے عام طور پر ماہانہ 10 سے 15 ہزار علاقے کے ایس ایچ او کو دیتا ہے۔نیکو میراثی کے مطابق چرس قوت خرید میں ہونے کے باعث کافی مقبول ہے اور اس کے ساتھ اس کی مقبولیت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہیروئن اور دیگر نشہ آور چیزوں کی نسبت اس کے صحت پر زیادہ منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔نیکو نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے ہیروئن کے زیادہ استعمال نہ کرنے کی وجہ صرف مہنگا ہونا ہی نہیں بلکہ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہیروئن کا عادی فرد معاشرے میں بھی صحت اور دماغی اعتبار سے پسماندہ شخص کے طور پر جانا جاتا ہے۔
میراثی کے مطابق منشیات کا کاروبار انتہائی منافع بخش ہے تاہم کبھی کبھار یہ پرخطر بھی ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب ایک نیا ایس ایچ پولیس اسٹیشن کا چارج لیتا ہے اور اپنی ‘ڈیمانڈ’ میں اضافہ کر دیتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک منشیات کا ڈیلر اپنے کاروبار کے تحفظ اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے عام طور پرماہانہ 10 سے 15 ہزار علاقے کے ایس ایچ او کو دیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے کاروبار کو چلانے کیلئے منشیات کے عادی 3 افراد کو روزانہ کی دیہاڑی پر بطور ‘‘سیلز مین’’ رکھا ہوا ہے، میں انہیں دیہاڑی کے طور پر نقد رقم نہیں دیتا بلکہ اس کی جگہ انہیں روزانہ ان کے کام کے عوض نشہ پورا کرنے کے لیے 5 گرام چرس دے دیتا ہوں۔نیکو کا کہنا تھا کہ گاہکوں سے عام طور پر یہی لوگ معاملات طے کرتے ہیں، طالب علم اور خواتین اپنے آرڈر ٹیلی فون پر دیتی ہیں جبکہ کم آمدنی والے منشیات کے عادی افراد براہ راست ان سیلز مینوں سے رابطہ کرتے ہیں جو عام طور پر اپنے شکار کی تلاش میں داتا دربار اور بھاٹی چوک کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔انہوں نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ میری ماہانہ آمدنی ڈھائی لاکھ سے چار لاکھ روپے کے درمیان ہے، ہماری زیادہ تر کمائی خواتین اور طالب علموں سے ہوتی ہے ۔ عرس کے موقع پر ہمارا پیک سیزن ہوتا ہے اور اس دوران میں ہماری آمدنی میں دو لاکھ روپے ہفتے کے حساب سے اضافہ ہو جاتا ہے۔نیکو میراثی نے بتایا کہ میری روزانہ کی کمائی(انکم) مین بولیوارڈ، گلبرگ یا ڈیفنس جیسے اہم تجارتی علاقوں میں واقع کسی چھوٹے شاپنگ سینٹر کے مالک سے کم نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شیشہ کے کاروبار سے بھنگ کے کاروبار کو کسی حد تک نقصان پہنچا تھا کیونکہ نوجوانوں میں یہ ایک نیا رجحان بن گیا تھا تاہم حال ہی میں لاہور پولیس کی جانب سے شیشہ پارلرز کے خلاف کارروائی کی وجہ سے حشیش کی مانگ میں پھر اضافہ ہو گیا ہے۔باغبان پورہ سے تعلق رکھنے والے منشیات کے ایک اور ڈیلر غلام سرور الیاس بدھو نے بتایا کہ میں ابتدا میں انتہا سے زیادہ نشہ کرنے والے افراد اور نوجوانوں کو نشے کے انجیکشن بیچا کرتا تھا لیکن بعد میں شہر میں شیشہ پارلرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر میں نے بھی اپنی بزنس اسٹریٹیجی تبدیل کر لی۔’’اب میں شیشہ کیفے کو براہ راست چرس اور ہیروئن فروخت کرتا ہوں اور میرا ماننا ہے کہ یہ کافی محفوظ کام ہے کیونکہ اس دھندے سے وابستہ تمام افراد انتہائی اثر و رسوخ رکھتے ہیں‘‘۔بدھو نے بتایا کہ شہر میں 300 سے زائد شیشہ بار کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پوش علاقوں میں واقع ہیں اور ان میں سے اکثر بارز میں پرائیویٹ کمرے ہیں جہاں نوجوانوں کو ہر طرح کا نشہ فراہم کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں بہت سے منشیات فروش شیشہ کیفے کو براہ راست منشیات سپلائی کر رہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان شیشہ گھروں کے مالکان کی مانگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شیشہ پینے والے آگ میں چلم کا استعمال کرتے ہوئے چرس اور ہیروئن ملاتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں