امریکہ بھارت گٹھ جوڑ
شیئر کریں
رنگ بدلتا ہے آسماں کیسے کیسے !احمد آباد گجرات کے فسادات کے بعد امریکہ نے اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے امریکہ میں داخلے سے روک دیا تھا لیکن حالات نے پلٹا کھایا اور نریندر مودی بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔ وہ نریندرمودی جس کو امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے امریکہ میں داخلے سے روک دیا تھا وہی نریندر مودی گزشتہ دنوں وائٹ ہائوس کا مہمان بنا اور اس طرح سے مہمان بنا کہ میزبان نے اس کی کوئی فرمائش رد کرنے کا حوصلہ نہ پایا۔
آج کی دنیا کا اصل حکمران نہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے نہ نریندرمودی یا ولادی میرپوٹن بلکہ اصل حکمران کارپوریٹ سیکٹر ہے جو اپنی ان کٹھ پتلیوں کے ساتھ کھیلتا ہے جہاں جس کٹھ پتلی کو جو رقص کرانا ہو کرا دیتا ہے۔ صہ ” رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے”
یہ سارے حکمران جو بظاہر دنیا کی قسمت کے فیصلے کرنے کے مجاز اور مختار ہیں ان کی اصل حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں۔بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور کارپوریٹ سیکٹر کے حساب سے سب سے بڑا ملک۔ چین میں چینی کارپوریٹ سیکٹر کو تو عملداری کی اجازت ہے غیر ملکی کارپوریٹ سیکٹر چین میں داخل نہیں ہو پا رہا ہے اگرچہ ایک عرصہ سے اس سیکٹر کی کوشش ہے کہ چین کی معیشت پر قابو پایا جائے لیکن چینی پالیسیوں اور قوانین نے ابھی تک انہیں اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔
اب ہم اس کارپوریٹ سیکٹر کی عملداری کو دیکھتے ہیں کہ یہ کس طرح سے دنیا کے ہر ادارے پر اثرانداز ہوتا ہے سب سے پہلے ہم ایک سماجی معاملے کو لیتے ہیں مس ورلڈ اور مس یونیورس کا انتخاب ہر سال ہوتا ہے یہ دنیا کی خوبصورت ترین خواتین کے انتخاب کا ایک مقابلہ ہے لیکن اس مقابلے کے نتائج پر بھی کارپوریٹ سیکٹر بھرپور انداز میں اثرانداز ہوتا ہے چین کی خواتین اس مقابلے میں شریک نہیں ہوتیں یوں اس مقابلے میں شریک ممالک میں بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک رہ جاتا ہے۔بھارت کی آبادی کم وبیش 1 ارب35 کروڑ ہے جس کا55فیصد خواتین پر مشتمل ہے اور ان خواتین میں سے 60 فی صدکی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان ہیں جو مس ورلڈ اور مس یونیورس کے مقابلے میں حصہ لینے کی عمر ہے اس طرح سے بھارت کی تقریبا ً35 سے 40 کروڑ خواتین عمر کے اس زمرے میں آتی ہیں اور کسی بھارتی ناری کے مس ورلڈ یا مس یونیورس بننے کے بعد خود کو خوابوں میں اس مقام پر پاتی ہیں اور نتیجتاً ان خواتین میں کاسمیٹکس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔کاسمیٹکس کا استعمال بڑھتا ہے تو کاسمیٹکس سے وابستہ کارپوریٹ سیکٹر کا بزنس بڑھتا ہے یوں ہر تین ،چار سال بعدکوئی بھارتی ناری اپنے سر پر مس ورلڈ یا مس یونیورس کا تاج سجا کر 40 کروڑ خواتین میں اس تاج کے حصول کی ہوس بڑھا دیتی ہیں اگر یہ سیکٹر ان مقابلوں کو فکس کرتا ہے تو اس فکسنگ میں لگنے والی رقم اضافی منافع کا عشرعشیر بھی نہیں ہوتی اور یہی کیا دنیا کا تقریباً ہر معاملہ ہی فکسنگ پر چل رہا ہے۔ کھیل ہو یا فلم حکومتوں کا قیام ہو یا تختہ اْلٹنا ہر معاملے میں کارپوریٹ سیکٹر پس پردہ رہ کر کردار ادا کرتا ہے۔
چین مغرب کی معیشت اور کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ایک ابھرتا ہوا خطرہ ہے چین نے گزشتہ 20 سال میں جس رفتار سے ترقی کی ہے اس نے مغرب کے کارپوریٹ سیکٹر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی دوران چین نے مغرب تک آسان اور جلد رسائی کے لیے گوادر کا انتخاب کیا اور گوادر پر بندرگاہ تیار ہو گئی۔آج گوادر اور سی پیک کا کریڈٹ کوئی بھی لے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں جنرل ایوب خان کے کردار کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔گوادر قیام پاکستان کے وقت سلطنت اومان کا حصہ تھا جسے 60 کی دہائی میں ایوب خان نے سلطان اومان سے حاصل کیا تھا۔
گزشتہ دنوں نریندر مودی نے وائٹ ہائوس کی یاترا کی اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ حزب المجاہدین نے کشمیر میں بھارتی فوجوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں خصوصاً برہان الدین وانی نے جس طرح سے مجاہدین کو سوشل میڈیا کے استعمال کی افادیت سے آگاہ کیا اس کے نتیجہ میں آج بھارتی مظالم دنیا کے سامنے آشکار ہو رہے ہیں حزب المجاہدین کا کمانڈر سید صلاح الدین اس طرح سے کمانڈ کر رہا ہے کہ اس کے مجاہدین کی جانب سے اسلامی حصول جہاد کی خلاف ورزی بالکل نہیں ہوتی یوں اسے دہشت گردی قرار دینا ممکن نہیں ہے مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد حقوق انسانی کے بین الاقوامی قوانین کے بھی مطابق ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے بھی بھارت گزشتہ 70 سال سے اقوام عالم سے کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ وعدہ خلافی کرتے ہوئے بھارتی آئین میں ایک ناجائز ترمیم (آرٹیکل 370 ) کے ذریعہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادو ں کے مطابق کشمیر آج بھی ایک حل طلب مسئلہ ہے۔بھارت کے کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ کشمیر اس پورے خطہ (پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش)میں پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا مرکز ہے پاکستان ،بھارت اور بنگلہ دیش میں بہنے والے اکثر دریا کشمیر سے ہی نکلتے ہیں اور عالمی دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق تیسری عالمی جنگ کی بنیادی وجہ پانی کے وسائل پر قبضہ ہو گی۔ نریندر مودی کی واشنگٹن یاترا کے دوران ڈونلڈٹرمپ نے میزبان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیدیا ہے اور ان کے امریکہ میں موجود مبینہ اثاثہ منجمد کر دیئے ہیں جبکہ سید صلاح الدین کے امریکہ تو کیا کشمیر اور پاکستان میں بھی کوئی اثاثہ نہیں ہیں امریکہ کے اس اقدام کا اصل مقصد چائنا پاکستان اکنامک کورویڈور کو ناکام بنانا ہے کہ اس کورویڈور کی تکمیل سے چین کی معیشت جس کی ترقی کی رفتار اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے، اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور سستی چینی اشیاء کی موجودگی میں مغرب کے کارپوریٹ سیکٹر کی مونوپلی ٹوٹ جائے گی اسی طرح بھارت کو بھی چین کی اس ترقی سے خطرات لاحق ہیں خصوصاً چین سے ملحقہ ریاستوں میں جاری علیحدگی کی تحریکوں پر مزید پروان چڑھنے کا خطرہ ہے یوں چین اور پاکستان کی بیک وقت ناکہ بندی کے لیے سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے تاکہ اگر پاکستان حزب المجاہدین کی حمایت جاری رکھے تو پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے پابندیاں عائد کر دی جائیں یوں گوادر کی بندرگاہ غیرفعال ہو جائے یا پھر کشمیر کو اقوام متحدہ کے کنٹرول میں دے کر شاہراہ ریشم اور سی پیک سے نکلنے والی سڑکوں کو پاکستان تک محدود کر دیا جائے کہ پاکستان کا براہ راست کوئی بھی حصہ چین کی سرحدوں سے منسلک نہیں ہے۔
صورتحال بہت گھمبیر ہے خصوصاً سید صلاح الدین کے معاملے پر امریکی ردعمل نے ظاہر کر دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً تین سو ارب ڈالر کے معاشی نقصان اور کم وبیش 60 ہزار انسانی جانوں کی قربانی کے باوجود امریکہ پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہے جارج ڈبلیو بش کے دورصدارت میں پاکستان کو جو غیرنیٹو اتحادی کا درجہ دیا گیا تھا اب اس کے خاتمہ کی بھی بات ہو رہی ہے یوں پاکستان کو قربانیوں کے باوجود ماسوائے مطالبات کے کچھ نہیں ملا ہے ہر قربانی کے بعد امریکہ کی جانب سے ڈومور کا مطالبہ ہوتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ خارجہ پالیسی پر غور کیا جائے۔ سی پیک منصوبے کو صرف چین تک محدود نہ رکھاجائے بلکہ وسط ایشیائی ممالک کو بھی اس میں شامل کر کے دنیا کے بڑے حصے اور بڑی آبادی کے مفادات اس سے وابستہ کئے جائیں تاکہ آبادی کی بنیادپر کارپوریٹ سیکٹر کے فیصلے اس آبادی کو نظر انداز نہ کر سکیں باقی فیصلہ تو حکمرانوں نے ہی کرنا ہے کہ کوئی متحرک ، حالات حاضرہ اور بین الاقوامی امور پر مہارت رکھنے والا شخص امور خارجہ کا ذمہ دار بنایا جائے یابزرگ لیکن منظور نظر سرتاج عزیز کو ہی مشیر خارجہ برقرار رکھا جائے۔
٭٭…٭٭