میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جیت کے بعدکامرحلہ

جیت کے بعدکامرحلہ

ویب ڈیسک
بدھ, ۴ جون ۲۰۲۵

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

مارک کارنی ایک حقیقت پسند شخصیت ہے وہ دوبینکوں میں طویل عرصہ خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ لہٰذا بھائو تائو اور تعلقات بنانے کے اسرار و رموزبخوبی جانتے ہوں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُن کا اقتدار کئی حوالوں سے غیر متوقع ہے ۔جسٹن ٹروڈو کی غیر معقول پالیسیوں نے لبرل پارٹی کو غیر مقبول بنادیاتھا پھررواں برس کے آغازپرٹرمپ نے صدر بن کر کینیڈا سے اپنے ملک کی 51ویں ریاست بننے کامطالبہ کردیا ۔اوول آفس میں ٹروڈوکوساتھ بٹھا کرٹرمپ کاانھیں گورنر کہنا اورپھر بار بار انضمام کی پیشکش دُہراناایک سربراہ مملکت کی واضح توہین تھی۔ ٹرمپ کے اِس انداز سے بظاہر ڈٹ جانے والے ٹروڈو اندرسے خوفزدہ ہوگئے کیونکہ امریکہ اور کینیڈا میں دفاعی حوالے سے زمین آسمان کا فرق ہے ٹرمپ کی سمجھ نہ آنے والی طبیعت کہیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بن جائے، ایسے ہی خدشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے استعفیٰ دیکر مارک کارنی کے لیے اقتدارکی راہ ہموار کردی۔ اِس طرح وزیرِ اعظم کامنصب مارک کارنی کے حصے میں آ گیا جس کے بعد حالات یکدم پلٹاکھانے لگے اور مقبولیت سے محروم ہوتی لبرل پارٹی دوبارہ عوام میں مقبول ہونے کے زینے طے کرنے لگی۔
رواں برس اپریل میں جب ملک میں عام انتخابات کی مُہم کا آغازہوا تو ابتدائی جائزوں کے مطابق لبرل پارٹی کی مقبولیت محض سولہ فیصد رہ گئی تھی۔ اپنے اقتدار کے آخری ایام میں کوئی اور چارہ نہ پاتے ہوئے گزشتہ دس برس سے وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز جسٹن ٹروڈو نے داخلی مسائل سے ہٹ کر خارجی مسائل کوجب موضوع گفتگو بنانا شروع کردیااور کینیڈا کے ادغام کی ٹرمپ پیشکش کو ناقابلِ قبول اورگورنر کہنے کے عمل پر ناپسندیدگی ظاہر کرنے لگے تواُن کا یہ عمل کینیڈین شہریوں کو بھلا لگا جس سے لبرل پارٹی کی طرف لوگ دوبارہ متوجہ ہونے لگے مگر جیت کے لیے یہ مقبولیت پھر بھی ناکافی تھی مگر جب جسٹن ٹرودو نے اقتدار اور جماعت کی سربراہی چھوڑنے کا فیصلہ کیاتاکہ نئی قیادت آگے آکر نئے حالات کے مطابق پالیسیاںبنا سکے تویہ فیصلہ ملک کے سیاسی حالات کا دھاراموڑ نے کاسبب بن گیااور پیشگی جائزے بھی تیزی سے بہتر ہونے لگے۔ آخر کار اٹھائیس اپریل کو ملک میں قومی انتخابات ہوئے تو صرف چارماہ قبل عدم مقبولیت کا شکار جماعت 43فیصد ووٹ لیکرپارلیمان کی سب سے بڑی جماعت کی حثیت سے سامنے آئی اور اقتدار کی تاک میں بیٹھی اپوزیشن ایسی حالت سے دوچارہے کہ اپوزیشن رہنما پولیور اپنی ذاتی نشست پر بھی شکست کھا چکے ہیں ۔در اصل جب کوئی ملک بیرونی خطرے سے دوچار ہوتا ہے تو سیاسی حوالے سے منقسم عوام داخلی مسائل کوغیر اہم جان کر پس پشت ڈالتے ہوئے قومی یکجہتی کے تقاضوں کوپوراکرنے کی کوشش کرتی ہے یہی کچھ کینیڈا میں ہوا ۔
لبرل پارٹی کے دورِ اقتدارکو اگر کینیڈا میں سماجی بہبود کے حوالے سے دیکھا جائے تو کسی طوربہتر یا درست نہیں کہا جا سکتا۔ بدترین داخلی مسائل نے عوام کو تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ماضی کے خوشحال کینیڈا کواب معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ صحت و تعلیم کے مسائل بڑھے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ حکومت نے محصولات کی بڑھوتری سے شہریوں پر مزید بوجھ ڈالتی گئی جن ممالک میں جمہوریت رائج ہے وہاں کے انتخابی نتائج پر داخلی مسائل اثر انداز ہوتے ہیں لیکن ایسا کینیڈا میں کیوں نہیں ہوا،یہ جاننے کے لیے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت نہیں۔ ٹرمپ کی جارحانہ سوچ اور دھمکیوں نے لبرل پارٹی کے بے جان ہوتے وجود میں زندگی کی نئی روح پھونکی اور عوام کی اکثریت نے لبرل پارٹی کے اقتدار میں معاشی اور سماجی بہبود کے نمو پاتے مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لبرل پارٹی کا ڈٹ جانے کا سیاسی بیانیہ پسند کرلیا ۔ٹرمپ کب کیا کربیٹھیں اِس بارے وثوق سے کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔سچ تو یہ ہے کہ اُن سے دنیا خوفزدہ ہے مگر کبھی کبھی شر سے خیر بھی سامنے آجاتا ہے جس کی نظیر کینیڈا کے قومی انتخابات ہیں ۔اِس حقیقت سے کوئی صرفِ نظر نہیں کر سکتاکہ دراصل ٹرمپ کے خیالات کو عوام کی اکثریت نے رَد کردیا اور ڈٹ جانے کا بیانیہ لبرل پارٹی کے لیے سود مند ثابت ہوا ہے۔
ماضی کے بینکارمارک کارنی نقصان کو نفع میں بدلنے پر قادر ہیں یا نہیں ،یہ جاننے کے لیے لوگ بے چین ہیں ۔اِس وقت کینیڈا کو کئی ایک داخلی و خارجی مسائل کا سامنا ہے ۔ایک طرف ٹرمپ کو یقین دلانا ہے کہ کینیڈا جیساایک آزاد وخود مختار ملک امریکہ کا اتحادی اور شراکت دار تو ہو سکتا ہے ضم نہیں ہو سکتااور اگر انضمام پر زیادہ مجبور کیا جا تا ہے تو باہمی تعلقات متاثر ہونا یقینی ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو دفاعی تیاریوں کے لیے خطیر رقم مختص کرنا پڑے گی۔ یوں لامحالہ ملک کے اندر جاری سماجی بہبود کے منصوبے متاثر ہوں گے۔ یہ ماضی سے ایک بالکل مختلف نوعیت کی صورتحال ہوگی۔ علاوہ ازیں ملک کے اندر امن و امان کی فضا برقراررکھنے کے لیے بھی کینیڈا کو نئے سرے سے ایک ایسی جامع حکمتِ عملی درکارہے جو بھارت کی طرف سے قومی سلامتی کے نام پر سکھوں کونشانہ بنانے کے حوالے سے لاحق خطرات کا توڑثابت ہو ۔کیونکہ موجودہ صورتحال میں ملک میں آبادہر شہری کو آزاد ماحول میں زندگی بسر کرنے کا حق حاصل نہیں۔ سکھ رہنما خوف کا شکارہیں ۔کینیڈامیں آباد سکھوں کوبھارتی حکومت کی ایما پر نشانہ بنایا جارہاہے جس میں بھارت کی خفیہ ایجنسی راملوث ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مارک کارنی درپیش اندرونی اور بیرونی محاذپر کس حدتک کامیاب ہوتے ہیں؟اُن کا دورہ امریکہ زیادہ خوشگوار نہیں رہا۔ بدھ کے روز سات مئی کو پاس بٹھا کر ٹرمپ نے جب اُنھیں انضمام کی اپنی خواہش سے آگاہ کیااور عوضانے میں دفاعی نظام مفت دینے کی پیشکش کی تو بظاہر مارک کارنی نے کینیڈا بیچنے کے لیے نہیں رکھا، جیساطنزیہ جواب دے کر مغرورٹرمپ کوراہ راست پر لانے کی کوشش کی جس کا کچھ اثر بھی دیکھنے میں آیا۔اِس غیر متوقع جواب پر دوستی اور پیار جیسی باتیں کی گئیں مگر اِس دبائو سے مستقل کیسے چھٹکاراحاصل کرنا ہے؟ یہ مارک کارنی کی صلاحیتوں کا متحان ہے۔ اسی طرح بھارت سے بھی مارک کارنی کو محتاط رہنا ہوگا۔ انھوں نے کینیڈا میں ہونے والے جی سیون اجلاس میں شرکت کا تادم تحریر مودی کو دعوت نامہ نہیں بھجوایا جس سے امکان ہے کہ شاید چھ برس کے بعد پہلی بار مودی ممکنہ طور پر سربراہی اجلاس میں شریک نہ ہوسکیں۔ یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بڑھتے تنائو کی طرف اِشارہ ہے۔ ٹرمپ اور مودی کی طرف سے کینیڈا کو درپیش خطرات کاتوڑکرنے کے ساتھ مارک کارنی نے اپنے ملک کی عوام کااعتمادبھی بحال رکھنا ہے۔ وہ کوئی نو عمریاناتجربہ کار نہیں بلکہ ایک جہاندیدہ شخص ہیں۔ وہ امریکی اور بھارتی ریشہ دوانیوں کے تناظر میں عالمی سطح پر ہم خیال نئے اتحادیوں کی تلاش کابخوبی ادراک رکھتے ہوں گے۔ اِس میں وہ کامیاب ہوں گے یا لبرل پارٹی کودوبارہ غیر مقبول بنانے کاسبب بنیں گے ؟ کا درست جواب بطوروزیرِ اعظم اُن کی کارکردگی دیکھ کر ہی دیا جا سکے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں