میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تشدد بڑھنے کے واقعات میں کیوںاضافہ ہورہا ہے ؟

تشدد بڑھنے کے واقعات میں کیوںاضافہ ہورہا ہے ؟

ویب ڈیسک
بدھ, ۴ جون ۲۰۲۵

شیئر کریں

عطا محمد تبسم

پاکستانی معاشرہ میں تشدد بڑھنے کے واقعات میں کیوںاضافہ ہورہا ہے ؟ ابھی ایک مدرسہ اسکول میں ایک خاندان کی عورتوں اور مرد کی ایک خاتون ٹیچر پر تشدد کی واردات کی ویڈیو کی بازگشت تازہ تھی کہ ایک فرعون صفت نو دولتئے کی ایک ویڈیو بھی سامنے آگئی ۔ جس میں وہ اپنے گارڈز سے ایک موٹر سائیکل سوار کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے ۔گو اس شہر میں تشدد کے واقعات کی کمی نہیں ہے ، ہر روز ایسے واقعات سڑکوں گلیوں محلے اور گھروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔تو کیا اس شہر کے لوگ پاگل ہوتے جارہے ہیں۔ماہرین نفسیات سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کی کئی گہری وجوہات ہیں جو سماجی، معاشی، سیاسی اور نفسیاتی سطح پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بجلی کے بے تحاشا بل ، لوڈ شیڈنگ کا عذاب ، پانی سے محرومی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،بے روزگاری اور غربت نے عام لوگوں کو شدید ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیا ہے ۔مالی مشکلات میں گھرا شخص جلد غصے اور جارحیت کی طرف مائل ہوتا ہے ، جو گھریلو اور سماجی تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔تعلیم کی کمی کو بھی اس کا ایک سبب بتایا جاتا ہے ۔عدم برداشت، گفتگو، اور تنازعات کے پرامن حل جیسے سماجی رویوں کی کمی کو بھی ایک سبب قرار دیا جارہا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہالت کی وجہ سے لوگ مذہبی، لسانی یا فرقہ وارانہ معاملات میں جلد مشتعل ہو جاتے ہیں۔لیکن سب سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی، سیاسی مداخلت اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر نے لوگوں کا نظامِ عدل سے اعتماد اٹھا دیا ہے ۔جب مجرم کو سزا نہیں ملتی تو لوگ خود ہی ”انصاف” کرنے پر اتر آتے ہیں، جو پرتشدد رویوں کو فروغ دیتا ہے ۔ ایک سبب یہ بھی گردانا جاتا ہے کہ مساجد، مدرسوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت انگیز بیانیہ عام کیا جا رہا ہے ۔لیکن اس میں سب سے اہم میڈیا اور سوشل میڈیا کا منفی کردار ہے ۔ اس کی وجہ سے بہت سی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے ۔پرتشدد مواد، ڈراموں اور فلموں میں تشدد کو”ہیروازم”کے طور پر دکھانا تشدد کو معمول بنا رہا ہے ۔
سوشل میڈیا پر افواہیں، جذباتی ویڈیوز اور نفرت آمیز پوسٹس عام لوگوں کو اشتعال دلاتی ہیں۔ ہمارا فخر مشترکہ خاندانی نظام زوال پذیر ہے ، والدین کی بچوں پر کم توجہ، اور تربیت میں کمی، نوجوانوں میں عدم برداشت اور غصے کے رویے پیدا کررہی ہے ۔ لیکن اس کی ایک بڑی وجہ اور بھی ہے ، جسے نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ وہ ہے سیاسی عدم استحکام اور قیادت کی ناکامی۔جب ملک کی سیاسی قیادت خود اشتعال انگیز زبان استعمال کرے اور مسئلے حل کرنے کے بجائے ٹکراؤ کا راستہ اپنائے ، تو عوامی رویے بھی پرتشدد بن جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں 9 مئی کے واقعات میں دو سال گذرنے کے بعد جو سزائیں سنائی گئی ہیں۔ وہ مبنی بر انصاف نہیں ہیں۔ پاکستانی سیاست میں تشدد کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے ،ماضی میں ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی، پیپلز پارٹی کی ایم آرڈی تحریک، اور بے نظیر بھٹو کی شہادت پر سندھ میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے واقعات،الذوالفقار کی تحریک، لیکن کبھی ان واقعات پر ریاست کی جانب سے ایسی سخت کارروائی نہیں ہوئی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، نو مئی کے واقعات کے بعد ملک بھر میں 8,031 افراد کو گرفتار کیا گیا،ان گرفتاریوں کے تحت 493 ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ فوجی عدالتوں نے اب تک 85 افراد کو مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ ان میں سے 25 افراد کو دسمبر 2024میں 2سے 10سال تک کی قید کی سزائیں دی گئیں، جن میں 14افراد کو 10سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ مارچ 2024 میں، گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 51 افراد کو 5 سال قید کی سزا سنائی۔ جنوری 2025 میں، آئی ایس پی آر کے مطابق، 67مجرمان نے رحم کی اپیلیں دائر کیں، جن میں سے 19 افراد کی سزائیں معاف کر دی گئیں۔ باقی 48 افراد کے کیسز کورٹ آف اپیل میں زیرِ سماعت ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان، جن کی گرفتاری کے بعد یہ واقعات پیش آئے تھے ، اب تک جیل میں ہیں۔سول عدالتوں کی موجودگی میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کو سزائیں دی گئی ہیں۔ جن کی شفافیت اور منصفانہ ٹرائل کے حوالے سے بہت کچھ کہا جاتا ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں تشدد کے واقعات میں غربت، جہالت، کم تعلیم یافتہ، افراد کے پہلو بہ پہلو امیر افراد باثر افراد، قانون کے محافظ، سیاست دان ایسے واقعات میں ملوث ہیں۔ ریاست کو ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے ، اس مسئلہ کے کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں