میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جسٹس حمودالرحمن اور ان کی رپورٹ

جسٹس حمودالرحمن اور ان کی رپورٹ

ویب ڈیسک
منگل, ۴ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر
ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکومت اور اس حکومت کے لانے والوں کے ذہنوں پر عمران خان سوار ہے کمرہ عدالت سے اسکی ایک تصویر باہر کیا نکلتی ہے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور اگلے ہی دن اس رنگ کی شرٹس مارکیٹ میں نایاب ہو جاتی ہے۔ عمران خان کی طرف سے حمودالرحمن کمیشن کے بارے میں اس سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ ہوتی ہے جو پاکستان میں بند ہے لیکن اسکے باوجود پورے ملک سمیت دنیا بھر میں تھرتھلی مچ جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی نئی بات نہیں وہی باتیں ہیں جسے میاں نواز شریف ٹیلی وژن پر بار بار دھراتے رہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی لیکن قیدی نمبر 804 نے وہی بات کہہ دی تو پوری حکومتی مشینری پریس کانفرنسز میں مصروف ہوگئی کہ عمران خان جیل میں مٹن کھاتا ہے ،ورزش کرتا ہے اور کئی کمروں پر مشتمل بلاک اسکے حوالے کیا ہوا ہے۔ پوچھنا صرف یہ ہے کہ کیا عمران خان خیبر پختون خواہ میں قید ہے جہاں اس کی حکومت ہے اور و ہ یہ ساری موجیں کررہا ہے بالکل نہیں وہ تو پنجاب کے ڈویژن راولپنڈی کے علاقے اڈیالہ میںسینٹرل جیل کے اندر قید ہے جہاں سابق وزیر اعظم میاں نواز شیرف کی بیٹی مریم نواز شریف صوبہ کی وزیر اعلیٰ ہے اور مرکز میں میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف وزیراعظم ہیں اور اس کے باوجود وزراء کا رونا دھونا سمجھ سے باہر ہے۔ کیاجیل حکام ان کی مانتے نہیں یا پھر ان کے اختیار میں نہیں۔
خیر یہ باتیں تو چلتی رہیں گی اصل بات ہے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی جو سرکاری طور پر تو پبلک نہیں ہوسکی لیکن ویسے ہر جگہ موجود ہے۔ انٹرنیٹ پر پوری کی پوری کہانی پڑھی جاسکتی ہے ۔یہ رپورٹ جس شخص نے تیار کی اسکا نام جسٹس(ر) حمودالرحمن تھا اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کی حب الوطنی ،خلوص،ایمانداری اور قابلیت پر ایک فیصد بھی شک کیا جاسکے۔ ان میں حمود الرحمن سر فہرست ہیں جبکہ اس طرح کے لوگ اب بھی موجود ہیں جو پاکستان اور پاکستان کی عوام کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارا یہ نظام ان کو چلنے نہیں دیتا۔قیام پاکستان کے بعد جو پہلا تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا وہ حمود الرحمن کمیشن تھا جس نے تقسیم بنگال کے اسباب ،وجوہات اور حقائق تلاش کرنے تھے۔ حمود الرحمن کمیشن ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن تھا جس نے 1947 سے 1971 تک مشرقی پاکستان میں پاکستان کی سیاسی،فوجی مداخلت کا جائزہ لیا کمیشن کو حکومت پاکستان نے چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں 26 دسمبر 1971 کو قائم کیا تھا حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ایک قیمتی دستاویز ہے جسے ایک واضح مقصد کے ساتھ تیار کیا گیا تھا کہ جنرل یحییٰ خان اور زیڈ اے بھٹو کی جانب سے کی گئی مختلف غلطیوں کوآئندہ نہ دہرایا جائے جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہوئی۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی اصل میں 12 کاپیاں تھیں جنہیں زیڈ اے بھٹو کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کو بھٹو اور نہ ہی 1977 میں اقتدار سنبھالنے والی فوج نے عام کیا۔ اس رپورٹ کو پوری ایمانداری اور خلوص نیت سے تیار کرنے والے حمود الرحمن ایک پاکستانی بنگالی ماہر قانون اور ماہر تعلیم تھے جنہوں نے 18 نومبر 1968 سے 31 اکتوبر 1975 تک پاکستان کے چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔ حمود الرحمان نے کراچی یونیورسٹی کی فیکلٹی میں قانون کے پروفیسر اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک بھر میں خواندگی کے فروغ کے لیے سرگرم رہے۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد حمود الرحمان کے خاندان نے پاکستان کی شہریت برقرار رکھی اور ان کا بیٹا اقبال حمیدالرحمن بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت میںمصروف ہے جو پہلے لاہور ہائیکورٹ بار کے سیکریٹری رہے پھر لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے ۔اس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے پھر سپریم کورٹ کے جج بنے اور آجکل فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔ انہوں نے 2007 میں صدر پرویز مشرف کی جانب سے نومبر 2007 میں ایمرجنسی نافذ کرنے والے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیاتھا جبکہ انکے والد جسٹس حمود الرحمن پاکستان کی عدلیہ میں ایک قابل احترام شخصیت رہے ۔ان کی دیانتداری اور حب الوطنی کے لیے آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں جبکہ ماہر قانون اور سیاسی درویش سید منظور علی گیلانی کا حمود الرحمان کے بارے میں یہی کہنا ہے کہ "ان کا کمیشن سب سے معزز کمیشن تھا ” ۔ حمود الرحمن 1 نومبر 1910 کو پٹنہ، بہار برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔بہار میں پیدا ہونے کے باوجودحمود الرحمان کا تعلق بنگالی مسلمان گھرانے سے تھا۔حمود الرحمن کا خاندان تقسیم ہند سے پہلے ماہر قانون تھا۔ ان کے بھائی مودود الرحمان بھی ایک بیرسٹر تھے جو کلکتہ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائزرہے ۔ان کے والد خان بہادر ڈاکٹر داؤد الرحمان غیر منقسم ہندوستان میں پہلے مسلمان سول سرجن تھے جنہوں نے رائل کالج لندن سے FRCS کیا وہ امیر کویت کے ذاتی سرجن بھی رہے۔ ان کے سسرچوہدری اشرف علی خان بھی بیرسٹر تھے جو کلکتہ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے والے ایک قابل وکیل تھے اشرف علی نے بعد میں 1930 میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیا اور بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے جبکہ تقسیم ہند سے قبل بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے طور پر خدمات بھی سر انجام دیں۔ حمود الرحمن کی تعلیم کلکتہ میں ہوئی اور کلکتہ یونیورسٹی کے سینٹ زیویئر کالج میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے گریجویشن کی اسکے بعد لندن یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے لیے برطانیہ گئے جہاں انھوں نے ایل ایل بی کی ڈگری گرے ان لندن سے حاصل کی انہیں 1937 میں لندن میں بار میں بھی بلایا گیا۔ حمود الرحمن نے 1938 میں کلکتہ ہائی کورٹ میں قانون کی پریکٹس شروع کی اور 1940 میں کلکتہ کارپوریشن کے قانونی کونسلر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1943 سے 1947 تک مشرقی بنگال کے جونیئر اسٹینڈنگ کونسل اور پاکستان کی آزادی کے بعد انہوں نے مشرقی پاکستان کا انتخاب کیا اور 1948 میں ڈھاکہ میں سکونت اختیار کی وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے قانونی مشیربھی رہے ۔انہوں نے ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تمام قوانین اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے قوانین کا مسودہ تیار کیا 1953 میں انہیں مشرقی پاکستان کا ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا گیا ۔1954 تک اس عہدے پر فائز رہے ۔جسٹس حمود الرحمن نے 1954 سے 1960 تک ڈھاکہ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس کے بعدانہیں صدر پاکستان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کا سینئر جسٹس مقرر کردیا۔ حمود الرحمن نے11 مئی 1958 سے 14 دسمبر 1960 تک ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیں جبکہ کراچی یونیورسٹی میں قانون کے وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے ۔سپریم کورٹ میں سینئر جسٹس کے طور پر اپنے کیریئر کے دوران حمود الرحمن مختلف باوقار عہدوں پر فائز رہے اور ملک بھر میں خواندگی کو فروغ دینے میں مصروف رہے ۔1959 سے 1960 تک وہ بین الاقوامی عدالت برائے ثالثی کے رکن رہے جو ہیگ نیدرلینڈز میں مقیم ہے ۔1964 میں حمود الرحمن نے وزارت تعلیم (MoEd) کی درخواست پر "کمیشن آن اسٹوڈنٹس پرابلمس
اینڈ ویلفیئر” کی سربراہی کی جس کے چیئرمین کے طور پر انہوں نے رپورٹ کی تصنیف کی اور کیس اسٹڈی کی سفارشات 1966 میں حکومت پاکستان کو پیش کیں 1967 میں وہ "قانونی اصلاحات کمیشن” کے رکن تھے جس نے وزارت قانون (ایم او ایل) کی جانب سے پاکستان میں زمینی اصلاحات پر مختلف کیس اسٹڈیز کیں جس کی رپورٹ 1970 میں صدر پاکستان کو پیش کی گئی تھی۔
1968 میں سینئر جسٹس حمود الرحمان کو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس نے چیف جسٹس نامزد کیا تھا۔ ان کی بطور چیف جسٹس تقرری صدر ایوب خان نے منظور کی تھی چیف جسٹس جسٹس حمود الرحمان 1975 میں سرکاری اعزاز کے ساتھ ریٹائر ہوئے۔ ان کی رپورٹ میں پی اے ایف کے ایئر مارشل انعام الحق (پاکستان ایئر فورس کی ایسٹرن ایئر کمانڈ کے اے او سی)، وائس ایڈمرل محمد شریف (مشرقی بحریہ کے فلیٹ کمانڈر) سمیت اعلیٰ فوجی افسران لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان (پاکستان آرمی کی ایسٹرن آرمی کمانڈ کے جی او سی) اور سابق جرنیل امیر خان نیازی اور راؤ فرمان علی کے خلاف کورٹ مارشل اور فوجی ٹرائل کی سفارش کی گئی تھی۔ کمیشن کی جانب سے فیلڈ کورٹ مارشل کی سفارش کرنے کے باوجوداس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو یا اس کے بعد آنے والی حکومتوں کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس رپورٹ میںتقریباً 300 افراد کے انٹرویوز کیے گئے اور پھر حتمی جامع رپورٹ 23 اکتوبر 1974 کو چیف جسٹس حمود الرحمن نے وزیراعظم سیکرٹریٹ کو پیش کی جب یہ رپورٹ اس وقت کے وزیراعظم بھٹو کو پیش کی گئی تو وزیراعظم نے چیئرمین و انکوائری کمیشن چیف جسٹس حمود الرحمان کو خط لکھا کہ کمیشن نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے کمیشن کو فوجی "شکست کے پہلو” پر غور کرنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا ۔سیاسی ناکامی کے پہلو پر نہیں جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے کمیشن کی اشاعتوں کی درجہ بندی کی اور اس کی رپورٹ کو "ٹاپ سیکرٹ” لکھ کر کھوہ کھاتے میں ڈال دیا۔جب تک اس رپورٹ کو سرکاری طور پر عوام کے لیے کھولا نہیں جاتا تب تک یہ ایک سیاسی ایشو بنتا رہے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں