مہنگائی میں کمی کے دعوے مگر زمینی حقیقت مختلف ہے!
شیئر کریں
وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کے حوالے سے جاری کردہ اعداد و شمار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے،ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2024 میں مہنگائی کی شرح 20.7 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ اپریل 2024 میں یہ شرح 3.4 فیصد کمی کے بعد 17.3 فیصد ریکارڈ کی گئی۔شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح میں 0.1 فیصد کمی کے بعد 19.4 فیصد ریکارڈ ہوئی جبکہ دیہی علاقوں میں 0.9 فیصد کمی دیکھی گئی، جس کے نتیجے میں شرح 14.5 فیصد ہوگئی۔ اپریل 2023 میں مہنگائی کی شرح 36.4 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جب کہ رواں مالی سال2023-24کے پہلے10 ماہ جولائی تا اپریل یہ شرح اوسطاً 25.97 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مہنگائی میں کمی عوام کیلئے اچھی خبر ہے، پیٹرول کی قیمتوں میں کمی سے بھی عوام کو ریلیف ملے گا۔ ایک بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ مہنگائی میں کمی اولین ہدف ہے، معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے عوام کو مزید ریلیف ملے گا، صوبائی حکومتوں کو اشیائے خور و نوش کی سرکاری نرخوں پر فروخت یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ 2 سال میں مہنگائی کا کم ترین سطح پر آنا معاشی بہتری کے آثار ہیں، انھوں نے دعویٰ کیا کہ 16 ماہ میں جو محنت کی اور پھر اسے نگراں حکومت نے جاری رکھا جس کے ثمرات اب سامنے آرہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہنگائی میں کمی اولین ہدف ہے، اللہ تعالی کے فضل وکرم سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے عوام کو مزید ریلیف ملے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی سے بھی عوام کو ریلیف ملے گا کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں نیچے آئی ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ صوبائی حکومتیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور اشیائے خورد و نوش کے سرکاری نرخوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے اقدامات کریں۔وزیراعظم نے کہا کہ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے اسی سمت میں چلتے رہنے سے عوام کی زندگیوں میں مزید بہتری ہوگی، سرتوڑ کوشش کررہے ہیں تاکہ عوام کو جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ ریلیف مل سکے۔ وزیراعظم نے مہنگائی کی شرح میں معمولی کمی پر جس خوشی کا اظہار کیاہے اسے اس ملک کے غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا اور کیاکہاجاسکتاہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی میں یہ معمولی کمی آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کی تیسری قسط ملنے اور گندم سمیت بعض اجناس کے مارکیٹ میں آنے کی وجہ سے ہوئی ہے اور یہ قطعی عارضی ہے،جس پر شادیانے بجانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو اس کمی پر بغلیں بجانے اور اسے اپنی حکومت کی بڑی کامیابی قرار دینے کی کوشش کرنے کے بجائے اس حقیقت کو برملا تسلیم کرنا چاہئے کہ ہماری قومی معیشت کی کشتی بدستور بیچ بھنور میں ہچکولے کھا رہی ہے اور زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ آیندہ چند برسوں میں قومی معیشت کو مزید جھٹکے لگیں گے۔ مہنگائی کا گراف بلند ہوگا، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، قرضوں کا بوجھ بڑھتا جائے گا، آئی ایم ایف کا قرض پروگرام کڑی شرائط میں جکڑا ہوا تھا اور حکومت جس نئے پروگرام کیلئے مذاکرات کرنے کی تیاری کررہی ہے وہ اس بھی زیادہ کڑی شرائط پر مبنی ہوگا، قرضوں پر سود کی ادائیگی کا گراف مزید بلند ہوگا۔وزیر اعظم کو خود اپنی کابینہ کے وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کے اس بیان کو نظر انداز نہیں کرناچاہئے کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام اخراجات قرض لے کر پورے کر رہی ہے،جبکہ ملک کو اگلے3 برس میں 70 ارب ڈالر قرض چکانا ہے۔ انھوں نے یہ بھی انتباہ بھی دیاہے کہ امن وامان میں بہتری نہ آئی اور ملک میں سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل قائم نہ ہوا تو ہم اسی طرح دائروں میں گھومتے رہیں گے۔ گویا ملکی معیشت حکومت کے ہاتھوں سے ریت کی طرح مٹھی سے نکلتی چلی جائے گی۔ہم 7 دہائیوں سے دائروں میں ہی گھوم رہے ہیں۔ ہمارا اب تک کا تمام سفر ترقی معکوس کی مثال ہے۔ نتیجتاً اندرونی اور بیرونی ہر دو محاذوں پر ہمارا سفر لرزہ براندام ہے۔ وزیراعظم ملک کے ایک زیرک کاروباری شخصیت کے چشم وچراغ ہیں انھیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ معاشی استحکام کے لیے لازم ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو اور امن و امان قائم ہو۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد بننے والی (ن) لیگ اور پی پی پی کی مخلوط حکومت میں اب عملاً مسلم لیگ ن ہی کی حکومت قائم ہے اور شہباز شریف کے منہہ سے نکلی ہوئی بات ہی حرف آخر ہوتی ہے، لیکن شہباز شریف کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اب سولو فلائٹ کازمانہ نہیں ہے اورملک کے سیاسی و معاشی استحکام کے لیے بڑے اور مشکل فیصلوں کے ساتھ باہمی اتفاق رائے بھی ضروری ہے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔گزشتہ ہفتے جب وزیر اعظم شہباز شریف کراچی کے دورے پر آئے تو یہاں کے بزنس گروپ نے ان سے ملاقاتوں میں اشارے اور کنائے میں نہیں کھل کر کہاتھا کہ اقتصادی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ کراچی کے تاجروں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھاکہ جب مسلم لیگ (ن) اپنی مخالف جماعت پی پی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکتی ہے تو اسے بانی پی ٹی آئی کی طرف بھی ازخود دست تعاون بڑھانا چاہیے۔ وزیر اعظم اور ان کا خانوادہ تو خود تجارت کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔بڑے میاں صاحب تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں، خود شہباز شریف کا یہ دوسرا دور حکومت ہے، لیکن وہ ملک کو معاشی استحکام سے دوچار نہیں کر سکے اور نواز شریف اور شہباز شریف دونوں میں سے کوئی بھی اس حقیقت سے لاعلم نہیں ہے کہ ان کی طویل دور حکمرانی میں معاشی استحکام پیدا نہ ہوسکنے کی بنیادی وجہ کرپشن تھی،دنیا بھر کے مبصرین و تجزیہ نگاراس امر پر متفق ہیں کہ اعلیٰ سطح پر کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے، احتساب کے کڑے نظام تمام طبقوں کے اتفاق و اتحاد کے بغیر دنیا کے کسی بھی ملک میں خواہ وہ کتنا ہی باوسیلہ نہ ہوسیاسی استحکام آ سکتا ہے اور نہ ہی اس کو معاشی و اقتصادی بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے۔یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت آرمی چیف کے بھرپور تعاون سے برادر اسلامی ملک سعودی عرب اور ایران کے ساتھ سرمایہ کاری کے فروغ اور معاشی تعاون کے لیے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں اعلیٰ سطح کے وفد نے دورہ پاکستان کے دوران اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں کی یادداشت پر دستخط بھی کردئے ہیں اور سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم پاکستان کے دو طرفہ ممکنہ دوروں سے معاشی بہتری کی امیدیں روشن ہو چکی ہیں۔اسی طرح ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا طویل عرصے بعد پاکستان کا دورہ اور پاک ایران تجارتی معاہدوں پر دستخط سے اقتصادی تعاون کا ایک دریچہ کھلا ہے جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال میں کچھ بہتری آئے گی۔ سعودی عرب اور چین ہمارے ایسے دوست ممالک ہیں جو ہر کڑے وقت میں پاکستان کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ چین کے ساتھ ہمارا سی پیک منصوبہ ”گیم چینجر“ کہلاتا ہے، لیکن حکومتوں اور پالیسیوں کی تبدیلی سے نت نئے مسائل جنم لیتے ہیں اس پہ مستزاد عالمی طاقتوں بالخصوص امریکی دباؤ کے باعث حالات کی نزاکتیں بڑھ جاتی ہیں۔پاک ایران گیس لائن منصوبہ اس کی زندہ مثال ہے۔ ایرانی صدر کے حالیہ دورہ پاکستان پر بھی امریکی خفگی نمایاں ہے۔ واشنگٹن نے خبردارکیا ہے کہ پاک ایران تجارتی معاہدوں پر پاکستان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عالمی اور علاقائی صورت حال کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے وزیراعظم کو انتہائی احتیاط سے قدم اٹھانا ہوں گے۔ معاشی و اقتصادی استحکام کی منزل تک پہنچنے کے لیے بیرونی تعاون کے پہلو بہ پہلو وزیراعظم کو خود انحصاری کے سفر کا ایماندارانہ آغاز کرنا ہوگا،اور قرض لے کر تنخواہیں ادا کرنے اور وزیروں اور سرکاری افسروں کو پیٹرول پانی کی طرح خرچ کرنے سے باز رکھنے کیلئے تمام وزیروں،مشیروں،معاونین اور سرکاری افسران کو سرکاری طورپرپیٹرول یا اس کے الاؤنس کی فراہمی مکمل طورپر بند کردینی چاہئے،سرکاری گاڑیوں کی دیکھ بھال اور مرمت کیلئے بھی رقم سرکاری خزانے سے ادا کرنے کے بجائے خود اپنی جیب سے خرچ کرنے کی ہدایت کرنی چاہئے۔ پاکستان قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس دولت سے استفادہ کے لیے اخلاص نیت کی ضرورت ہے۔ہمارا ملک آئی ایم ایف سے قرضے کی ایک اور قسط حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے جس کے قومی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کرنے کے لیے حکومت کے پاس کیا منصوبہ بندی ہے؟ وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل بجا اور صائب کہ کامیابی اس دن ہو گی جب قرض سے نجات پائیں گے‘ لیکن وہ یہ تو بتائیں کہ ایسا کب اور کیسے ہو سکے گا؟ اس کی کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں سے تو ابتدا کرنا ہی پڑے گی۔ کب ہو گی یہ ابتدا؟موجودہ صورت حال سے تو یہ محسوس ہوتاہے کہ حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ معیشت کو کس طرف لے کے جانا ہے اور زراعت کا کیا کرنا ہے۔ زراعت کی بات آئی ہے تو سب دیکھ رہے ہیں کہ کسانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اللہ کی رحمت سے اس دفعہ فصل تو بمپر ہوئی ہے لیکن کسانوں سے پیداوار خریدنے والا کوئی نہیں ہے‘ حتیٰ کہ حکومت نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ ایسے میں یہ شعبہ ترقی کرے گا تو کیسے؟ درآمدات اور برآمدات کے حوالے سے کوئی نئی اور ٹھوس پالیسی نہیں ہے حکومت کے پاس غیر ضروری اشیا کی درآمد کی ایک طویل فہرست تو ہے لیکن تجارتی توازن برقرار رکھنے کیلئے اسے کیا برآمد کرنا وزیرتجارت کو بھی شاید اس کا علم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح ملکی معاملات تا دیر چلائے جا سکیں گے جس طرح اب چلائے جا رہے ہیں؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا۔ اس لیے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ حکومت کوئی ٹھوس پالیسی سامنے لے کے آئے تاکہ کچھ کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں شروع ہو سکیں اور عام لوگوں کو کچھ روزگار مل سکے۔ لوگوں کو روزگار ملے گا‘ وہ کچھ کمائیں گے تو ہی حکومت کو ٹیکس ادا کر سکیں گے۔ اگر ان کے پاس اپنے کھانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا تو وہ حکومت کو کیا دے سکیں گے؟ ہمارے ملک میں اب تک برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں اور حکومتوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے‘ ہمارے بعدآزاد ہونے والی قومیں اور ممالک ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں اور ہم اب بھی اسی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں آزادی کے وقت کھڑے تھے۔ میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ ہمارے حکمرانوں کی جانب سے کیے گئے ناقص اور بے وقت کے فیصلے ہیں۔شہباز شریف کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارا ملک جو اس وقت قرضوں کی دلدل میں دھنسا اور پھنسا ہوا ہے تو اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ عوام نے تو اسے اس حالت تک نہیں پہنچایا۔ یہ حکومتی فیصلے اور پالیسیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں کہ بار بار عالمی اقتصادی اداروں اور دوست ممالک کے سامنے دست ِ طلب دراز کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا مفادات پر مبنی پالیسیوں کی بجائے انصاف پر مبنی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
وزیراعظم ایک عام آدمی سے زیادہ بہتر طورپر جانتے ہیں کہ پاکستان اپنی75سالہ تاریخ کے شدید ترین معاشی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے، آسمان سے چھوتی مہنگائی عام آدمی کے لیے بے پناہ مشکلات کا باعث ہے جبکہ یہ صورت حال معاشرے کے تمام شعبوں سے فوری توجہ اور ٹھوس کوششوں کی متقاضی ہے حقیقی معاشی استحکام صرف بیرونی امداد سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے سیاسی اور ذاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر معاشرے کے تمام طبقات کی جانب سے ایک متفقہ نقطہ نظر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اقتصادی چیلنجز سے مل کر نبرد آزما ہونے کیلئے سویلین اور عسکری قیادتوں کی جانب سے حالیہ عزم کا اعادہ ایک مثبت پیش رفت قرار دی جاسکتی ہے۔چونکہ پاکستان معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے، اس لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے مشترکہ مقصد کے لیے مل کر کام کریں۔قوم کی اجتماعی کاوشیں جن کی حمایت ایک متحد قیادت ہی بہتر طور پر کرسکتی ہے، پاکستان کو معاشی استحکام اور خوشحالی کی طرف لے جانے کی کنجی ہیں۔ ٹھوس اقدام اور عزم کے ساتھ پاکستان اپنے موجودہ معاشی چیلنجوں سے مضبوطی سے نکل سکتا ہے۔گزشتہ 7 دہائیوں سے پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے بڑھ رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض سود در سود کے باعث بھی ادا کرنا دشوار سے دشوار تر ہوجاتا ہے۔ پاکستان کو قرض سے نجات کی بجائے اب سود کی ادائیگی کیلئے بھی مزید قرض لینا پڑتا ہے، اس لیے ملک کو معاشی چیلنجز سے نکالنے کیلئے سیاسی قیادت کا سر جوڑ کر معاشی اتحاد یامیثاق کرنا ازحد ضروری ہوچکا ہے،سوال یہ ہے کہ کیاہمارے حکمراں اور اپوزیشن کے شیر اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر تیار ہوں گے۔