میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کارپوریٹ فارمنگ ۔۔۔ترقی یاتباہی

کارپوریٹ فارمنگ ۔۔۔ترقی یاتباہی

ویب ڈیسک
منگل, ۴ مارچ ۲۰۲۵

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک

پاکستانی ریاست اورعوام کے درمیان ترقی کے حوالے سے ایک بنیادی خلیج ہمیشہ سے موجودرہی ہے۔حکمران ہمیشہ ترقیاتی منصوبوں کااعلان کرتے رہے ہیں،مگرعوام کاایک بڑا حصہ ان منصوبوں پرشکوک وشبہات کااظہارکرتاچلاآرہاہے۔آخراس کی کیا وجہ ہے کہ پاکستانی عوام اورحکمران ایک دوسرے پرالزام تراشی کرتے رہتے ہیں اوراس کاملک کی ترقی پرکیااثرپڑتاہے۔پاکستان کی زرعی معیشت میں اصلاحات کی کوششیں مختلف ادوارمیں کی گئیں،لیکن ان کے نتائج آج بھی بحث ومباحثے کا موضوع ہیں۔ایوب خان کی زرعی اصلاحات سے لے کر بھٹودورکے مزیدسخت اقدامات تک،اوربعدمیں جدیدزرعی طریقوں کے رواج تک،ان تمام پالیسیوں کا مقصد زرعی پیداوارمیں اضافہ اورغربت میں کمی تھا۔تاہم،ان پالیسیوں کے اثرات متضادنظرآتے ہیں۔ ایک طرف سبزانقلاب کے ذریعے پیداوارمیں اضافہ ہوا،تودوسری طرف غربت کی شرح میں نمایاں کمی نہ آسکی۔
یہ تسلیم کرناہوگاکہ پاکستان کی زرعی تاریخ میں اصلاحات کاسلسلہ معاشی ترقی،غربت کے خاتمے،اورخوراک کی خودکفالت کے خوابوں سے جڑاہواہے۔تاہم،ان کوششوں کے نتائج اکثرمتنازع رہے ہیں۔اگرہم ماضی کی طرف نظردوڑائیں توایوب خان اوربھٹو کے زرعی پروگراموں،سبزانقلاب کے اثرات، کارپوریٹ فارمنگ کے ماحولیاتی خطرات،اور پانی کے بحران کوتنقیدی نظرسے پرکھیں توہمیں پتہ چلتاہے کہ پہلی مرتبہ1959اور1963میں ایوب خان نے جاگیردارانہ نظام کوکمزورکرنے کیلئے زمینی اصلاحات نافذ کیں، جس کے تحت40لاکھ ایکڑزمین بڑے زمینداروں سے لے کربے زمین کسانوں میں تقسیم کی گئی۔انہوں نے منگلاڈیم (1967) اور تربیلا (1976) جیسے منصوبوں کے ذریعے پانی کے ذخائراوربجلی کی پیداواربڑھائی۔تربیلاڈیم کی تعمیر1968 میں شروع ہوئی اور1976میں اس کی تکمیل ہوئی اوریہ دنیاکاسب سے بڑازمین سے بنایا گیاڈیم ہے اور پاکستان میں بجلی اورآبپاشی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
یہ اقدامات زرعی پیداوارمیں اضافے کی بنیادبنے،لیکن زمین کی غیرمنصفانہ تقسیم اورنوکرشاہی کے اثرات کی وجہ سے غربت میں واضح کمی نہ ہوسکی۔بعدازاں ذوالفقارعلی بھٹو نے1972 اور1977میں زمین کی ملکیت کی زیادہ سے زیادہ حدکوکم کرکے ایوب خان کے پروگرام کو”ناکافی”قراردیا۔ان اصلاحات کامقصددیہی علاقوں میں طبقہ ورائی کوختم کرناتھالیکن سیاسی مخالفت اور بیوروکریٹک رکاوٹوں کی وجہ سے یہ بھی مکمل طورپرکامیاب نہ ہوسکا۔پھرسوال اٹھتاہے کہ زرعی ترقی کے ثمرات کس کوملے؟بعض ناقدین کاکہناہے کہ زرعی ترقی سے حاصل شدہ فوائدزیادہ تر عسکری،نوکرشاہی اورکاروباری طبقے میں محدودہوکررہ گئے ۔اس کے برعکس،حکومتی مقف یہ ہے کہ پیداوارمیں دوگنااضافہ ہوالیکن عوام کی آبادی میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہونے کے سبب غربت کاخاتمہ ممکن نہ ہوسکا۔
ایک بڑامسئلہ یہ ہے کہ حکومت عوام سے اعتمادکی توقع رکھتی ہے،جبکہ عوامی حلقے حکومت پرمکمل بھروسہ نہیں کرتے۔ ووٹرزکاکہناہے کہ جب حکومت خوداپنی عدلیہ اورپارلیمنٹ پراعتماد نہیں کرتی توعوام حکومت پرکیسے یقین کریں؟ترقیاتی منصوبے اکثراس شک وشبہ کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ عوام ان کی شفافیت پرسوالات اٹھاتے ہیں۔عوام کایہ بھی مطالبہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی تیاری میں عوام کی رائے کوبھی شامل کیاجائے تاکہ عوامی ضروریات کے مطابق پالیسیاں تشکیل دی جا سکیں۔
حکمرانوں کے مطابق عوام ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ بنتے ہیں،جبکہ عوام کاکہناہے کہ ترقیاتی منصوبے ان کے مشورے کے بغیر تیار کیے جاتے ہیں۔عوام کی رائے کوترقیاتی پالیسیوں میں شامل کرنے سے اس خلیج کوکم کیاجاسکتاہے۔عوامی نمائندوں کے ذریعے ترقیاتی فیصلے کیے جائیں تاکہ شفافیت اوراعتمادکویقینی بنایاجاسکے۔عوام کی ایک بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ قومی وسائل چندخاندانوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہیں اورعام شہری کوترقی میں شراکت داری کاموقع نہیں ملتا۔اگر قومی وسائل کومساوی بنیادوں پرتقسیم کیاجائے توعوام میں خودبخودپاکستانی شناخت مضبوط ہوگی۔
پاکستان قحطِ آب کے شکاردس بڑے ممالک میں شامل ہے۔حکومت بڑے ڈیم اورآبپاشی منصوبے بنانے کی کوشش کرتی ہے،مگر اس حوالے سے ہمیشہ اختلافات پیداہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال کالاباغ ڈیم ہے اوراب چولستان میں70لاکھ ایکڑپرزرعی منصوبہ ایک نئی بحث چھیڑچکاہے،جس پرسندھ اوردیگرصوبے اپنے خدشات کااظہارکر رہے ہیں۔پانی کی تقسیم،موسمیاتی تبدیلیاں، اور زراعت کے جدیدطریقے اس بحث کے اہم نکات ہیں۔لوگوں کویہ خدشہ ہے کہ ان منصوبوں کیلئے اضافی پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہوگی اورپہلے سے موجودپانی کی دستیابی مزیدکم ہوجائے گی۔
جدیدزرعی طریقوں میں کارپوریٹ فارمنگ کوخصوصی اہمیت دی جارہی ہے،اورحکومت کاکہناہے کہ کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے پیداواری کارکردگی بڑھانا،برآمدات کوفروغ دینااورزرعی شعبے کوعالمی معیارکے مطابق ڈھال کرہم ملک میں زرعی انقلاب لاسکتے ہیں جو ملک کی آبادی کے70فیصدکسانوں،کاشتکاروں کی زندگی میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے لیکن یادرہے کہ کاپوریٹ فارمنگ ایک ایسافارمولہ ہے جس کے ذریعے زیادہ پیداوارکیلئے جینیاتی طورپرترمیم شدہ اورہائیبرڈبیجوں کااستعمال کیا جاتاہے۔اگرچہ یہ بیج ابتدائی طور پرزیادہ پیداواردیتے ہیں لیکن طویل المدتی اثرات زمین کی زرخیزی کیلئینقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔مسلسل10سے20سال کے عرصے میں یہ زمین نامیاتی زرخیزی سے محروم ہوکربنجرہوسکتی ہے،جس سے مستقبل میں خوراک کے بحران کاخطرہ بڑھ جاتاہے۔
ماضی میں ہم اس کاتجربہ کرچکے ہیں۔1967سے1970کی دہائی میں ہائی برڈبیجوں،کیمیائی کھادوں،اورجدید آبپاشی کے ذریعے گندم اورچاول کی پیداواردوگنی ہوئی۔تاہم چھوٹے کسانوں تک رسائی کے فقدان،قرضوں کے بوجھ،اورمنڈیوں تک ناہمواررسائی کی وجہ سے غربت کم نہ ہوئی۔حکومت کامؤقف تھاکہ آبادی میں تیزی سے اضافے( 3% سالانہ)نے ترقی کے اثرات کوزائل کردیا، جبکہ نقادوں کاخیال تھاکہ فوائدفوج،بیوروکریٹس،اورسیاسی اشرافیہ تک محدودرہے۔اب ایک مرتبہ پھرکارپوریٹ فارمنگ کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ ہم بڑھ رہے ہیں۔اس نظام کی مختصرتعریف یہ ہے کہ جہاں بڑے زرعی زمینوں پرتجارتی بنیادوں پرپیداواری سرگرمیاں،جہاں کمپنیاں یاکارپوریشنزجدیدٹیکنالوجی،مشینری،اورمینجمنٹ کے ذریعے فصلوں یامویشیوں کی پرورش کرتی ہیں وہاں ان وسائل سے محروم تمام کاشتکاران کمپنیوں کے رحم وکرم پرہوتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کاکہناہے کہ حالیہ برسوں میں کارپوریٹ فارمنگ کوفروغ دینے کیلئے جواقدامات کیے ہیں،خاص طورپر2020 کے بعدجب ایک مرتبہ پھرزرعی اصلاحات کے نام پرپروگرام شروع کیاگیاہے جس میں غیراستعمال شدہ سرکاری زمینوں کولیز پردینے کی تجاویزکے ساتھ زرعی آلات اورجدیدٹیکنالوجی درآمدپرٹیکس چھوٹ دینابھی شامل ہے۔چین ۔پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک کے تحت ایگریکلچرل انڈسٹریل پارکس قائم کرنے کی تجاویزپربھی کام ہورہاہے۔کارپوریٹ فارمنگ کیلئے ڈرون،مصنوعی ذہانت اور پریسائزن فارمنگ کے ذریعے پیداوارمیں اضافہ کے منصوبے کوبھی حتمی شکل دی جارہی ہے۔جس سے زرعی برآمدات (مثلاً گندم، چاول، کپاس) بڑھانے سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کئی گنااضافہ ہوگا۔یقیناکارپوریٹ فارمنگ سے جہاں نئے ہنرمنداورغیرہنرمندروزگارکی تخلیق میں اضافہ ہوگاوہاں ڈرپ اریگیشن جیسے طریقوں سے پانی کی بچت بھی ہوگی ۔
کارپوریٹ فارمنگ میں جینیاتی طورپرتبدیل شدہ اورہائیبرڈبیجوں کااستعمال وقتی پیداواربڑھاتاہے لیکن یہ زمین کی نامیاتی زرخیزی کوتباہ کردیتاہے۔کیمیائی کھادوں اورکیڑے مارادویات کے مسلسل استعمال سے مٹی کابنیادی ڈھانچہ کمزورہوتاہے،اور 10-20سال میں زمین بنجرہوجاتی ہے۔مثال کے طورپر،پنجاب کے بعض علاقوں میں گندم کی پیداوار میں 30%تک کمی رپورٹ ہوئی ہے،جس کی وجہ مٹی کی نمکیات میں اضافہ اورنامیاتی مادوں کاخاتمہ بتایاجاتاہے۔
چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے تحت ملکی وغیرملکی کمپنیوں کوزمین دی جارہی ہے۔سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور چین کی کمپنیاں پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔انگروفوڈز،نیشنل فوڈزجیسی کمپنیاں زرعی شعبے میں سرگرم ہیں۔مگرسوال یہ ہے کہ کیااس کے فوائدچھوٹے کسانوں تک بھی پہنچیں گے؟جب کارپوریٹ فارمنگ کیلئے پہلے سے محدودپانی مختص کیاجائے گاتومقامی کسان کہاں کھڑے ہوں گے؟مزیدبرآں،کیاحکومت نے سرمایہ کاروں کوبتادیاہے کہ اگرکسی سال دریا میں مطلوبہ پانی نہ آیاتو ان کے فارمزکونقصان ہوگا؟چھوٹے کاشتکاروں کیلئے سہولیات اورمارکیٹ تک رسائی کویقینی بنائے بغیراس منصوبے کاکامیاب ہونامشکل نظر آتا ہے۔
کارپوریٹ فارمنگ کاایک سب سے بڑاخطرہ یہ ہے کہ اس میں زیادہ پیداوارکیلئے جوبیج استعمال کیے جاتے ہیں،وہ زمین کی زرخیزی کوشدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ان بیجوں میں جینیاتی طورپرترمیم شدہ اورہائیبرڈبیج شامل ہوتے ہیں جووقتی طورپرپیداوار میں اضافہ تو کرتے ہیں لیکن10سے 20سال کے عرصے میں زمین کونامیاتی زرخیزی سے محروم کر دیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں زمین بنجربعدمیں کسی بھی قسم کی کاشت کے قابل نہیں رہتی۔اس قسم کی کارپوریٹ کاشتکاری کے منفی اثرات افریقی ممالک،خاص طورپرایتھوپیا،سوڈان اوردیگرخطوں میں دیکھے جاچکے ہیں،جہاں بین الاقوامی کمپنیاں بڑی مقدارمیں زرعی زمینوں کوخریدکربرآمدی فصلیں اگاتی ہیں، مگر بعدازاں وہ زمین مکمل طورپر بنجرہوجاتی ہے۔اس کے بعدوہ زمین کسی بھی زراعت کے قابل نہیں رہتی،جس کے نتیجے میں مقامی کسانوں اورملکی معیشت کو شدیدنقصان پہنچتاہے۔یہ خدشہ ظاہرکیاجارہاہے کہ پاکستان میں بھی یہی حکمتِ عملی اپنائی جارہی ہے تاکہ طویل المدتی بنیادوں پر زرعی زمین کوناکارہ بنادیاجائے اورملک کوخوراک کے بحران کی طرف دھکیلاجائے۔
حکمرانوں کے مطابق عوام ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ بنتے ہیں،جبکہ عوام کاکہناہے کہ ترقیاتی منصوبے ان کے مشورے کے بغیر تیار کیے جاتے ہیں۔عوام کی رائے کوترقیاتی پالیسیوں میں شامل کرنے سے اس خلیج کوکم کیاجاسکتا ہے۔عوامی نمائندوں کے ذریعے ترقیاتی فیصلے کیے جائیں تاکہ شفافیت اوراعتمادکویقینی بنایاجاسکے۔
پاکستان دنیاکے ان10ممالک میں شامل ہے جوپانی کی شدید قلت اورشدید قحطِ آب کاشکارہے۔موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہمالیہ کے گلیشیئرزتیزی سے پگھل رہے ہیں،جس سے دریاں میں مدتی اضافہ توہوتاہے لیکن2050تک دریائی پانی کے ذخائر 30-40% تک کم ہوسکتے ہیں۔ہمیں ماحولیاتی ماہرین سے ہی پتہ چلتاہے کہ ہمارے گلیشیئر اتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں کہ اگلی نصف صدی میں دریااورصحراکافرق مٹ جائے گا۔ماہرین کے مطابق دریائے سندھ کاڈیلٹاسمندرکی بلندہوتی سطح کی وجہ سے سالانہ3.5میٹر کی رفتارسے سکڑرہاہے۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق،ہمارے گلیشیئرتیزی سے پگھل رہے ہیں،جس کی وجہ سے آئندہ نصف صدی میں دریاں کاوجودختم ہوسکتاہے اوروسیع علاقے صحرامیں تبدیل اورہماری ناقص حکمت عملی کاماتم کررہے ہوں گے ۔
ارساکے اعداد وشمارکے مطابق،موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پنجاب کوضرورت سے14فیصداورسندھ کو20فیصدکم پانی مل رہا ہے۔ سندھ میں زیریں علاقوں میں پانی کی قلت نے نمکین پانی کواندرونی علاقوں تک دھکیل دیاہے،جس سے کاشتکاری کے قابل زمینیں کم ہورہی ہیں۔اس قلت کی وجہ سے انڈس ڈیلٹاکوسمندرمسلسل اپنی لپیٹ میں لے رہاہے ، جس سے ہزاروں ایکڑزرخیززمین متاثرہورہی ہے۔ مزیدبرآں، ہمارے ماحولیاتی نظام میں سیلاب اورخشک سالی جیسے شدید تغیرات کاسامناہے،لیکن پیشگی انتباہی نظام کی عدم موجودگی کے سبب بروقت اقدامات نہیں کیے جاسکتے۔
موسمیاتی تبدیلی نے بارشوں کے پیٹرن کوغیرمتوقع بنادیاہے۔2022کے سیلاب نے ملک کے33%رقبے کو متاثر کیا جبکہ 2018-2023 کے دوران خشک سالی نے جنوبی پنجاب اورسندھ میں فصلیں تباہ کیں۔سرکاری ادارے سیلاب اورقحط کی درست پیشگوئی کرنے میں ناکام ہیں،جس کی وجہ سے کسانوں کی منصوبہ بندی مشکل ہوگئی ہے۔ملکی خزانے سے لاکھوں روپے مشاہرہ لینے والے یہ توبتاتے ہیں کہ ڈان سٹریم پانی کی مسلسل قلت کے سبب انڈس ڈیٹاکوسمندرنگل رہاہے مگران میں سے کوئی نہیں بتاتاکہ کس برس سیلاب آئے گااورکس برس اتنی کم بارشیں ہوں گی کہ ارضِ وطن کی زرخیز زمینوں کے چہروں کاحسن ماندپڑجائے گاجبکہ دوسری طرف ہمارا ازلی دشمن انڈیاجو1960میں تین مشرقی دریالینے کے باوجود مسلسل بضدہے کہ سندھ طاس معاہدے پرازسرِنوغوروقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس پس منظرمیں جب یہ خبرہماری فوج کے سپہ سالاراورپنجاب کے وزیراعلی کی تصویرکے ساتھ شائع ہوتی ہے کہ وفاق اور پنجاب نے چولستان میں70لاکھ ایکڑکوباغ وبہاربنانے کامنصوبہ شروع کردیا ہیتونچلے صوبوں میں ایک نئی بے چینی پھیلنے کا آغازہم نے اپنے ہاتھوں سے شروع کردیاہے جبکہ مشترکہ مفادات کی آئینی کونسل کااجلاس بھی11ماہ سے نہیں ہواجہاں صوبوں کے پانی کے تنازعات ہنوزحل طلب ہیں۔اقتدارایسی بری لالچ ہے کہ خود صدرِمملکت آصف زرداری ہرے بھرے پاکستان پروجیکٹ کے ساتھ ہیں مگران کی پارٹی پارلیمنٹ کے اندرباہراس منصوبے پرمسلسل تحفظات بھی جتارہی ہے۔سرسبزپاکستان سازوں کاکہنا ہے کہ چولستان کی سیرابی کسی صوبے کے طے شدہ آبی کوٹے کوکم کرکے نہیں ہوگی بلکہ اس کیلئیاضافی پانی یاتوانڈیا کودیے گئے دریائے ستلج کے مون سون سیلاب سے حاصل ہوگا یا پھرپنجاب اپنے کوٹے میں سے پانی کی قربانی دے گا۔
٭ان تمام اہم مسائل کیلئے ضروری ہے کہ ہم قومی وسائل کو صرف مخصوص طبقات میں تقسیم کرنے کی بجائے عوام کواس میں براہ راست شریک کیا جائے۔
٭ترقیاتی منصوبے بنانے سے پہلے عوامی فورمز اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے لی جائے۔
٭پانی کی منصفانہ تقسیم کیلئے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کوتسلسل سے بلایاجائے تاکہ تمام صوبوں کویکساں مواقع فراہم ہوں۔
٭چھوٹے کسانوں کومراعات،جدیدزرعی تربیت،کم لاگت قرضے،اورمارکیٹ تک آسان رسائی کے اقدامات کیے جائیں۔
٭بیرونی قرضوں کے معاہدوں کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھی جائیں تاکہ شفافیت کویقینی بنایاجاسکے۔
٭گلیشیئرپگھلااورآبی قلت کے خطرات کوکم کرنے کیلئیجدید طریقے اپنائے جائیں۔
٭حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کی بحالی کیلئے عوام کوفیصلہ سازی میں شامل کیاجائے اورترقیاتی منصوبوں پرکھلی بحث کی جائے تاکہ اعتمادمیں اضافہ ہو۔
یادرہے کہ تحقیق بتاتی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کیلئے صرف بڑے فیصلے کافی نہیں،بلکہ ان پرعمل درآمد کے دوران شفافیت، مشاورت، اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کوبھی یقینی بناناضروری ہے۔جب عوام کوترقی میں شراکت داربنایاجائے گا،تب ہی وہ خود کواس ملک کا حقیقی حصہ سمجھیں گے۔لیکن دوسری طرف حکومتی اقدام سے چھوٹے کسانوں کی معاشی کمزوری اورزمینوں کے مرکزی اثرات پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔کیمیائی کھادوں اورپانی کے زیادہ استعمال سے زمینی تنزلی کے بچاؤکیلئے کوئی تجویزسامنے نہیں آئی۔زمین کی ملکیت کے حقوق اورمقامی آبادیوں کے حقوق سے متعلق تنازعات سے کیسے نمٹاجائے گا،اس کے متعلق کوئی منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی۔ پاکستان میں موسمیاتی تغیرات(جیسے سیلاب،خشک سالی)کاخطرہ منڈلارہاہے،اس کے علاج کیلئے کوئی ٹھوس تجاویزتیارنہیں کی گئیں۔
پاکستان کی زرعی پالیسیوں نے پیداوارمیں تواضافہ کیالیکن وسائل کی غیرمساوی تقسیم،کارپوریٹ فارمنگ کے منفی اثرات،پانی کی قلت اورماحولیاتی تغیرات نے ان اصلاحات کے اصل فوائدعوام تک پہنچنے نہیں دیے۔مستقبل میں ان مسائل سے نمٹنے کیلئے پائیدار زرعی پالیسیوں، بہتر آبی وسائل کے انتظام اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت رکھنے والے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ زرعی شعبے کی ترقی کااہم ذریعہ ہوسکتی ہے لیکن اس کیلئے منصفانہ پالیسیاں،ماحولیاتی تحفظ، اورمقامی آبادیوں کے مفادات کاخیال رکھناضروری ہے۔اگرچیلنجزکوحل کیاجائے تویہ پاکستان کی معیشت کونئی بلندیوں تک لے جا سکتی ہے۔
یوں توہرآئے دن مقتدرحلقوں کی طرف سے پیغامات جاری ہوتے ہیں کہ ہم سب کوپاکستانی بن کرسوچناچاہئے مگراب یہ ناخواندہ ، درماندہ مخلوق چیخ چیخ کرفریادکررہی ہے کہ جس دن قومی وسائل کو25ہزارخاندانوں کی بجائے25کروڑپرتقسیم کردیاجائے گاتو اس دن ہر شخص آپ سے بہترپاکستانی بن کرسوچنے لگے گا،بس اسی دن کاانتظارہورہاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں