ہلڑ بازی ، مچھلی بازار، شور شرابا،ہنگامہ
شیئر کریں
زرّیں اختر
اُردو اخبارا ت کی شہ سرخیوں کی یہ لفظیا ت ہی صورتِ حال کی حقیقی تصویر پیش کرسکتی تھیں۔نعرے بازی کی رسم بھی بھرپور طریقے سے اداکی گئی ، نیا نعرہ قیدی نمبر 804 تھا۔ جدّت ماسک کا استعمال تھا جس نے ایک مشہور ہسپانوی سیریز کی یاد دلا دی ۔واضح رہے کہ یہ کسی ڈرامے کا اسٹیج نہیں ہے قومی اسمبلی ہے ، یہ کسی فرضی کھیل کے اداکار نہیں ہیںحقیقی سیاست دان ہیں،ان کے مکالمے کسی کہانی کار نے نہیں لکھے انہوں نے خود بولے ہیں، جب یہ ڈرامہ نہیں ہے ،یہ اداکار نہیں ہیں توہدایت کار کا کیاسوال ہے؟ ہدایت کار ہوتاتو کیا یہ سب کچھ نہ ہوتا؟ کیوں نہیں ہوتا؟ اگر کسی کردارکو نعرے لگانے ہیں تو ہدایت کار اسے نعرے لگانے کے لیے ہی کہے گانا۔ لیکن یہ ڈرامہ نہیں تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ڈرامے دنیا بھر میں مقبولیت رکھتے تھے یہ ڈرامہ تو۔۔۔پھر ڈرامہ ۔۔۔بھئی یہ ڈرامہ نہیں تھا۔رو کیوں رہے ہو؟ رونا تو اسی بات کا ہے کہ یہ ڈامہ نہیں تھا، کاش کہ یہ ڈرامہ ہی ہوتا،پاکستان ٹیلی وژن کی نئی فخریہ پیش کش ،دنیا بھر میں مقبول،اس وضاحت کے ساتھ کہانی ،مکالمے اور کرداروں سے کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔
__________________
تین بہنوں کا اکلوتا 22سالہ بھائی آن لائن فوڈ ڈیلیوری رائیڈر قتل ۔ کراچی میں کتنا اسلحہ ہوگا؟ شہریوں کے پاس لائسنس شدہ کتنا اور غیر قانونی کتنا؟ اس کا حساب کتاب کس ادارے کی ذمہ داری ہے؟ ہے کوئی شماریات کہ کراچی میں کتنے کلو بارود ہے ؟ یا ایسی کوئی سوچ کہ اگر روزانہ اتنے لوگ قتل ہوں ، اتنے حادثات میں مارے جائیں، اتنے خود کشی کرلیں ،اتنے بیماریوں سے ہلاک ہوں تو اتنے عرصے میں آبادی کا جن قابو میں آسکتاہے؟
__________________
ہم اس نسل میں سے ہیں جو پی ٹی وی پر ملّی نغمے سن کر جوان ہوئی تھی ۔ بڑے دل گرما دینے والے نغمے ،نغموں کے مقابلے ،عالمگیر کے گائے ہوئے اس نغمے ک کو پہلا انعام ملا تھا’نگاہ میں ایک روشنی ہے ‘ ، ناہید اختر کا نغمہ ‘ ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم یہ پرچموں میں عظیم پرچم’ ، نیرہ نور کا نغمہ ‘ وطن کی مٹی گواہ رہنا’،مہدی حسن نے گایا’یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبا ں اس کے ‘ ؛قومی و ملّی نغموں کی ایک تاریخ ہے ۔کاش دنیا میں قومیں ملی نغموں سے بنتیں تو ہمارا شماربھی دنیا کی بڑی قوموں میں ہوتا۔ دلوں کو گرمانے والے گانے ایک طرف اور سینوں کو گرما نے والی گولیاں دوسری طرف ۔شاعر، موسیقار، کلاکار۔۔۔انہوں نے اپنا کام کیااور خوب کیا۔ ادیب ،شاعر، ڈرامہ نگار، فنکار، کھلاڑی ، انسانی حقوق کے علم بردار ؛ یہ سب کتنے خوب صورت لوگ ہیںلیکن دنیا میں بس یہی لوگ جنم نہیں لیتے، ایک کھیپ سیاست دانوں، آمروں اور جرنیلوں کی بھی پروان چڑھتی ہے۔ یہ بڑے لوگ ہیں ،ان معنوں میں کہ یہ قوموں کی زندگی اور ان کی قسمتوں کے فیصلے ان کی مرضی ،منشا ء ، خواہش معلوم کیے بغیر کرگزرتے تھے۔لوگوں کے لیے وقت کا دھارا ہی بدل جاتاتھا ،دن و رات کچھ سے کچھ ہوجاتے تھے۔ پہلے پڑوس میں کوئی اور رہتاتھا،اب وہ خود کسی اور کے پڑوس میں آبسے تھے ،گھر بھی وہ نہیں تھا،نہ وہ گلی ،نہ وہ بازار ، نہ وہ چہرے اور نہ وہ آوازیں۔ پھرحکمت ِ عملی میں تبدیلی آئی اوراب بڑے اپنی مرضی ،منشاء اور خواہش کے مطابق لوگوں کی ذہن سازی کرنے لگے۔لیکن ہر زمانے میں نہ سہی زمانوں کے بعد ایسے دل جلے اور جگر کڑھے بھی جانے کہاں سے نکل آتے ہیں کہ جو ‘میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا’ ہی کو اپنا ایمان بنالیتے ہیں،اب یہ ان کا اوڑھنا بچھونانہیں بلکہ زندگی موت کا مسئلہ بن جاتاہے، اب یا کبھی نہیں۔
__________________
لنگر خانے نامنظور
یہ مشہور و مقبول چینی کہاوت کیا ہمارے بڑوں نے ہی سن رکھی کہ ‘مچھلی نہ کھلائو مچھلی پکڑنا سیکھائو’۔ لنگر خانے نہ کھولو کارخانے لگائو، تکنیکی تعلیم کے ادارے کھولو، ہنر سکھائو۔ ‘روٹی ،کپڑا اور مکان ‘اس سیاسی نعرے کی کتنی عمر ہوگی؟ لنگر تو اس نعرے کا بھی ایک حصہ ہی بنتاہے۔ نہ روٹی کپڑا اور مکان، نہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور نہ یہ لنگر خانے۔ تعلیم کی بات کریں، روزگار کی بات کریں۔حکومتیں بیرونی امداد پہ عوام حکومتی امدادپہ ۔’عزتِ نفس ‘ کتابی لفظ نہیں ہے ۔عزت ِ نفس بحال ہوگی تو خود اعتمادی اور خود پر یقین جیسی صفات پیدا ہوں گی،پھر بہ حیثیت پاکستانی قوم فخر کی منزل بھی آسکتی ہے۔ 1966میں انڈیا میں قحط کی صورتِ حال تھی اور لوگ بھوک سے مررہے تھے لیکن نہ صرف اس وقت کی وزیر ِ اعظم اندرا گاندھی نے بیرونی امداد قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ ہر بھارتی نے یہ کہا کہ بھکاریوں کی قوم کہلائے جانے سے مرجانا بہترہے۔ یہ بہ حیثیت قوم خود پر یقین تھااورخود پر یہ یقین بجائے خود سب سے بڑی فتح ہے۔
پاکستان تحریک ِ انصاف (پی ٹی آئی )کے حامی وہ بھی تھے جو پی ٹی آئی کے حامی نہ بھی ہوں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھے ،انہوں نے ووٹ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں دیاہے ۔اگر اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا ووٹ اپنے حق میں کرنا ہے تو خان صاحب لنگر خانے نہیں کارخانے کھولنے ہوں گے ورنہ آپ جیل میں اور عوام مزار پہ بھلے۔
__________________
کبھی دل کی بات کرنے کا بھی دل چاہتاہے۔ جب لیڈی ڈائنا نے شہزادہ چارلس سے علاحدگی لی تو میں نے سوچا تھاکہ آخر عورت چاہتی کیاہے؟ لیڈی ڈائنا نہیں عورت کیا چاہتی ہے ؟لیکن میرا خیال ہے کہ مجموعی طور پر عورت پر نہیں بلکہ انفرادی طور پر یہ سوال لیڈی ڈائنا کے لیے ہی ٹھیک ہے۔ بنیادیں مشترکہ نوعیت کی بھی ہوسکتی ہیں اور انفرادیت لیے ہوئے بھی ۔ تازہ خبریں ان کے بیٹے شہزادہ ہیری سے متعلق ہے ۔ انہوں نے بھی انفرادیت کے جھنڈے گاڑے ،پہلے برطانوی شاہی خان دان سے علاحدگی اور امریکہ میں رہائش ، تازہ خبر یہ ہے کہ برطانیہ نے ان کو سیکیورٹی دینے کی درخواست مسترد کردی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ شہزادہ ہیری کو اپنی دادی اماں سے سرکشی کی سزاوہ دیں۔ ہم ہنری سے یہی کہیں گے کہ :
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اور تسلی تشفی امید حوصلے عزم کے لیے پہلا مصرعہ بھی عرض ہے کہ :
ستاروںسے آگے جہاں اور بھی ہیں
__________________________