میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اٹھارہ ہزارکے سموسے اورشہاب بھائی کی پریشانی

اٹھارہ ہزارکے سموسے اورشہاب بھائی کی پریشانی

منتظم
اتوار, ۴ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

گھر سے آٖفس کے لیے نکلتے ہی شہاب الدین بھائی سے سامنا ہوگیا۔ہمیں دیکھ کر ایک دم آگے بڑھے اوربولے یارتمہارے اخبارمیں کام کرنے کاکیافائدہ ۔ہم حیران پریشان کہ ہمارے اخبارنویس ہونے سے کسی کوکیافائدہ اورنقصان ہوسکتاہے ابھی ہم اسی سوچ میں گم تھے کہ شہاب بھائی کی آوازسماعت سے ٹکرائی ۔دیکھو نہ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے ۔ گوشت ‘سبزی ‘دالیں مرغی سب کے دام آسمان پرجاپہنچے ہیں اوپرسے ستم یہ کہ دودھ بھی اب سوروپے فی کلو مل رہاہے ۔ پٹرول بھی نایاب ہوگیا،رکشا والے منہ مانگاکرایہ طلب کررہے ہیں ۔بس والوں نے بھی لوٹ مچارکھی ہے ۔خرچے مار ے ہیں ڈال رہے ہیں اورتم ہوکہ کچھ کرتے نہیں ۔ہم نے کہا بھیا ہم بھی آپ ہی کی طرح عام آدمی ہیں ،اگراخبارمیں کام کرتے ہیں توکیاہوا۔رہتے توآپ لوگوں کے ہی درمیان ہیں ۔کھاتے بھی وہی ہیں جوآپ لوگ کھاتے ہیں ۔جورونا سب کا ہے وہی ہماراہے ۔بولے یارکم ازکم اپنے اخبارمیں لکھ توسکتے ہوکہ میاں نوازشریف صاحب’’ مجھے کیوں نکالا‘‘کی تکرارچھوڑکرعام آدمی کے مسائل پرتوجہ دیں ۔جلسوں میں جاکرعدلیہ پرلعن طعن کرنے عمران خان کوبرابھلاکہنے سے بہترہے کہ حکومتی وزرا ء کوطلب کریں اورایسانظام وضع کرائیں کہ عام آدمی کو ریلیف ملے ۔ اسلام آبادکی ہائی فائی بیکریوں میں جاکراٹھارہ ہزارروپے کے جوس اورسموسے خریدنے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے ہاں اس بیکری کے مالک کی ایک دن کی سیل ضروربڑھے جائے گی۔سمجھ نہیں آتا میاں صاحب اتنے سموسے کھائیں گے کیسے ۔

ہم نے کہایارشہاب بھائی نوازشریف صاحب اٹھارہ ہزارکے سموسے خریدیں یااٹھارروپے کے ہمیں اس سے کیالینادینااوران کی مرضی وہ یہ سموسے کھائیں یاوزراء میں تقسیم کریں یہ بھی ہمارامسئلہ نہیں، ویسے بھی ہم کسی کے کھانے پینے پرنظرنہیں رکھتے ۔ رہی بات مہنگائی کی تویاراس میں بھی نوازشریف صاحب کاکیاقصوروہ کون ساوزیراعظم ہیں جو اس معاملے پربات کریں ،ویسے بھی جب وہ وزیراعظم تھے تب بھی ان کامہنگائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتاتھا۔یہ سارے معاملے توڈارصاحب کے سپردتھے اب جب وہ نہیں رہے ہمارامطلب ہے حکومت میں ہی نہیں رہے توپھران کابھی کیاقصور۔ قصورتوصرف عوا م کا ہے جوسیاسی لیڈروں کے جلسوں میں جاکرصرف نعرے بازی کرنااوران کی لمبی لمبی تقریروں کوسرجھکاکرسنناجانتے ہیں ۔سوال کرنے کی یاتوان میں ہمت نہیں یاپھراتنے خوش حال ہوچکے ہیں کہ مہنگائی چاہے کتنی بھی زیادہ ہوجائے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا ،یہی نہیں بے چارے صبح سے شا م اورکئی باررات گئے ہونے والے جلسو ں کے اختتام تک گھنٹوں پنڈال میں بیٹھے رہتے ہیںجس سے صاف ظاہرہے کہ انھیں کوئی دوسراکام بھی نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ گوشت ‘سبزی اوردالیں کون سی کھانے کی چیز ہیں ارے بھائی یہ پکانے کی چیزیں اوریہ سن سن کرہمارے کان پک چکے ہیں کہ آئند ہ بجٹ میں عوام کوریلیف دیاجائے گا۔اورجب بجٹ نمودارہوتاہے تواس خوبصورتی سے ٹیکسزلگائے جاتے ہیں کہ عوام کوپتہ ہی نہیں چلتااکا دکااپوزیشن والے اسے الفاظ کاگورکھ دھنداکہتے ضرورنظرآتے ہیں ۔لیکن اس گورکھ دھندے کابھید کھولنے کوکوئی تیارنہیں ہوتا۔جہاں تک تعلق ہے دودھ کی قیمت کاتویاراس میں گوالوں کاکیاقصورہے جب چارہ مہنگا ہوگا،پانی نایاب ہوگاتوددودھ تومہنگاکرنا ہی پڑے گا۔مت پیوچائے ۔مت پلائوبچوں کودودھ‘نہ کھائو کھیر‘کس نے کہاہے کہ دودھ کااستعمال کرو ویسے بھی دودھ کون ساخالص مل رہاہے جواس کے لیے مرے جارہے ہو۔پہلے تو گوالے دودھ میں صرف پانی ملایاکرتے تھے ۔اس سے دودھ صرف پتلا ہوتاتھااورآسانی معلوم ہوجاتاتھا کہ دودھ میں ملاوٹ ہے ۔اب تودودھ ہی مصنوعی بننے لگاہے ۔جودیکھنے میں گاڑھااورملائی دارلگتاہے ۔ لہذاشہاب بھائی ہمارامشورہ ہے کہ آپ اپنادل جلاناچھوڑیں اورکسی پارک میں جاکر تازہ ہواکھائیں ۔

ہمارے مشورے پرشہاب بھائی نے خونخوارنظروں سے دیکھااوربولے کون سے پارک جائیں ،ہے کوئی ایساپارک جہاں ہم جیسے لوگ جاکربیٹھیں ۔ ہرپارک میں توداخلے کاٹکٹ لگاہوا۔ اورجوبچے ہیں وہاں سیاسی جماعتوں نے اپنے جھنڈے گاڑھے ہوئے ہیں ۔ وہاں چلے جائوتومخالف جماعت کے لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے اورکئی توریکارڈتک لگاتے ہیں کہ لگتا ہے شہاب بھائی نے وہ پارٹی جوائن کرلی ۔بس تم اخبارمیں ہماری باتیں لکھ دو۔ہم نے انھیں تسلی دی کہ بھائی ضرورلکھیں گے ۔آپ غصہ ٹھنڈاکریں ۔چلیں گھرجاکرٹھنڈاپانی پی لیں ۔بولے اماں ٹھنڈاپانی کہاں سے لائیں یہ کے الیکٹرک والے فریج چلنے ہی کہاں دیتے ہیں ۔کئی کئی گھنٹے بجلی بند رکھتے ہیں اورجب بجلی آتی ہے تومیٹراس تیزی سے گھومتا ہے کہ اسے دیکھ کرہماراسرہی چکرانے لگتاہے اوربھاگ کرگھرمیں موجودٹی وی ‘فریج وغیرہ بند کرنا پڑتے ہیں‘اوراستری صرف دیکھنے کے لیے رکھ چھوڑی ہے اسے جلانے اورکرنے کی کوشش تک نہیں کرتے ،صرف اس لیے کہ کہیں بل نہ زیادہ آجائے ۔ہم نے کہابھائی گھرمیں فریج چلے یانہ چلے ‘ٹی وی کھلے یانہ کھلے،استری کی جائے یانہ کی جائے بل توآناہی ہے ۔اگرآپ اپنے میٹرکااستعمال کم کردیں گے توبل کم ہوجائے گااس لیے کے الیکٹر ک والوں کوشک پڑے گاکہ آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہوچکے ہیں جوکنڈااستعمال کرتے ہیں لہذاوہ بغیرتحقیق کے آپ کواتنا بل بھیج دیں گے کہ آپ پریشان ہوجائیں ،اب آپ اسے ٹھیک کرانے کے لیے کے الیکٹرک کے دفاترکے لاکھ چکرکاٹیں لیکن اس بل بلکہ اووربل نے کسی صورت ٹھیک نہیں ہوناہاں اس کی قسطیں ضرورکرائی جاسکتی ہیں ۔

رہی بات رکشا والوں کے منہ مانگے کراے طلب اوربس مالکان کی من مانیوں کی توبھائی جب پٹرول کے دام بڑھیں گے تویہ سی این جی کااستعمال کرنے والے کرائے بڑھائیں گے ہی ۔اب کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی لمبی لمبی قطاروں میں لگ کرسی این جی بھرواتے ہواورکرایہ پٹرول کی مدمیں وصول کرتے ہوتوبولیں گے یارہمارے بھی بچے ہیں ۔مہنگائی دیکھوں کہاں پہنچ چکی ہے اگربیٹھناہے توبیٹھوورنہ اگلی سواری پکڑو۔جہاں تک تعلق ہے بسوں کاتویہ توسب جانتے ہیں شہرکی سڑکوں پردوڑنے والی نہیں رینگنے والی ان مسافربسوں کی کیاحالت ہے ۔ اس میں بیٹھتے ہی ہردین سے غافل مسافراللہ کویادکرنے لگتاہے اورجب تک اپنی منزل نہیں پہنچ جاتا’’آیت الکرسی ‘‘دورد شریف یاجوبھی صورت اسے اس وقت یادآتی ہے پڑھتا رہتاہے اورمنزل پرپہنچنے کے بعد اللہ کاشکراداکرتا ہے کہ وہ بخیر وعافیت اپنی منزل تک پہنچ گیا۔اوررکشائوں کاحال توویسے ہی نرالاہے ۔کسی بھی شاہراہ پرنکل جائیں وہاں آپ کوسواریاں کم اوررکشا زیادہ دوڑتے نظرآئیں گے ۔کسی بھی ایک رکشاکوہاتھ دیں تین چاررکشائوں کے کی لائن لگ جائے گی ۔ہررکشا ڈرائیور کوشش کرتا نظرآئے گاکہ آپ اس کامنہ مانگاکرایہ دے کراس کی سواری بن جائیں۔اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ کس رکشاکاانتخاب کرتے ہیں ۔ان بے میٹرکے رکشائوں کی حالت بھی قابل دید ہوتی ہے ۔اوران پرنظررکھنے والابھی کوئی نہیں بسوں کاتوفی کلومیٹرکرایہ مقررہے لیکن رکشاوالوں کے لیے کرائے کاکوئی پیمانہ بھی نہیں بس سواری پرمنحصرہے کہ وہ کتنی تکڑی ہے ۔کہاں تک اسے لوٹاجاسکتاہے ۔حکومت بارباراعلانات کرچکی ہے کہ کراچی میں چلنے والے رکشائوں میں میٹرلگوائیں جائیں گے ۔لیکن ہمیشہ کی طرح یہ اعلانات صرف اخبارات کی خبریں بننے تک محدودرہے عملی کام نظرنہیں آیا۔

ہماری بات سن کرشہاب بھائی نے عجیب نظروں سے ہمیں دیکھااوربولے میاں چھوڑویہ کام تمہارے بس کاکام نہیں ۔تم سے لکھنے کاکہااورتم ہمیں لن ترانی سنانا شرو ع ہوگئے ۔یہ کہہ کرشہاب بھائی ایک جانب کوبڑھ گئے ہم نے شکر کاسانس لیااورموٹرسائیکل کوکک ماری دفترجانے کے لیے روانہ ہوگئے پہلے ہی ہمیں دیرہوچکی تھی ۔شہاب صاحب کیاجانیں کہ سار ے ملک کی طرح ہم بھی مہنگائی کے مارے تھے اورراستے سے ہمیں کسی پٹرول پمپ سے 50روپے کاپٹرول بھی ڈلواناتھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں