میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مشال خان کیس، مذہبی جماعتوں کا منفی کردار

مشال خان کیس، مذہبی جماعتوں کا منفی کردار

منتظم
اتوار, ۴ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

شہزاد احمد
ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 7 فروری کو عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کیس کے فیصلے میں ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ 26 افراد کو بری کرنے کا حکم دیا ۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بری ہونے کے بعد مردان واپس پہنچنے والوں پر بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کے اراکین کی جانب سے گل پاشی کی گئی۔ ان ویڈیوز اور تصاویر کو دیکھ کر کئی لوگ بری ہونے والوں کے مشال خان کے قتل میں ملوث ہونے اور مذہبی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔

مردان میں مشال خان قتل کے جرم میں 31 ملزمان کو سزا دینے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہوا اور جلوس نکالا گیا جبکہ رہا ہونے والے افراد کو خوش آمدید کہا گیا ہے۔احتجاج اور ریلی گزشتہ متحدہ دینی محاذ مردان کے زیرانتظام منعقد کی گئی جس میں تحفظ ختم نبوت، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، اے این پی اور دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے مقامی عہدیدار اور کارکن موجود تھے۔ریلی میں شامل کارکن نعرے لگاتے رہے اور مشال خان اور انکے حامیوں کیخلاف بھی نعرے لگائے گئے۔ مقررین نے کہا کہ مشال خان توہین مذہب کا مرتکب ہوا تھا اور گرفتار اور رہا ہونیوالے افراد اسکے شاہد ہیں۔انکا کہنا تھا کہ یہ تحریک یہاں نہیں رکے گی بلکہ سزائے موت پانے والے عمران علی کی رہائی تک جاری رہے گی۔ریلی میں دو روز پہلے سنٹرل جیل ہری پور سے رہا ہونیوالے کچھ افراد بھی شریک تھے جنہیں مظاہرین نے خوش آمدید کہا۔

مشال خان کا ظالمانہ قتل یہ بات یاد دلاتا ہے کہ پاکستان میں کٹر متعصب لوگوں کی کمی نہیں جو مذہب کے نام پر قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم پاکستان کے اندر بڑھتی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں۔

ریلی میں مذہبی جماعتوں کی نمائندگی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ کیا مذہبی جماعتوں کے پاس سماج کی بہتری کے لیے کوئی ایجنڈا ہی نہیں۔ نہ سیاسی، نہ معاشی، نہ تعلیمی۔ سوائے فتویٰ گری کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں۔ کیا جماعت اسلامی یا دیگر مذہبی جماعتیں اب مل کر کسی کے مسلم یا گستاخ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا کریں گی؟ اس صورت میں قانون اور عدالتوں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ اس صورتحال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر شہری اپنی مرضی کا قانون چاہتا ہے۔ قانون اپنے ہاتھ میں لینا اب مذاق بن چکا ہے۔ اگر مشال گستاخ تھا تو جے آئی ٹی میں ثابت ہو جاتا۔ پھر مشال خان کی شہادت اور اس کے بیگناہی کے ٹھوس شواہد کے باوجود بعض مذہبی حلقوں کی جانب سے جس طریقے سے اس کیس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش سے اندرون ملک اور بیرون ملک جو جگ ہنسائی اور بدنامی ہوئی اس کا ازالہ کیسے ہوگا ؟

معاشرے سے نفرت ختم کر کے پیار ومحبت پیدا کرنا چاہیے۔ اسلام سلامتی و امن کا دین ہے۔ اخلاق و مروت اور رواداری و دردمندی کا دین ہے۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کی پیروی میں ہی انسان اور انسانیت کی نجات ہے۔ کوئی بھی متشدد گروہ کبھی بھی اسلام کا نمائندہ نہیں ہوسکتا ہے۔اس مرحلہ پر امت اور بالخصوص پاکستان کے بیدار مغز اور پاکباز علمائے حق کو سامنے آناچاہیے۔اس واقع کی آڑ میں توہین رسالتؐ کے قانون میں تبدیلی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اگر مذکورہ مذہبی و سیاسی جماعتیں قانون اور عدالتوں کا احترام کرتی ہیں تو وہ اپنے طرز عمل سے بھی اس بات کا ثبوت دیں۔

اعلی ترین ملکی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد گروہی احتجاج، خوش آمدید ریلی کیوں؟ اور خصوصاً اس ریلی میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کیا معنی رکھتی ہے۔ ملکی قانون اور آئین کا احترام سب پہ لازم ہے ۔ قانون کا نفاذ صرف چند افراد کی خواہشات کے مطابق ہوگا تو اس سے فساد پھیلے گا۔ قانون سب کے لیے ہے اور ہم حکومت کی جانب سے بلا استثناء قانون کے نفاذ کے منتظر ہیں۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے مشال خان قتل کیس میں گولی چلانے والے ایک مجرم عمران سلطان محمد کو سزائے موت ‘پانچ مجرموں بلال بخش‘ فضل رزاق‘ مجیب اللہ‘ اشفاق خان اور مدثر بشیر کو عمر قید ‘25 کو4 ‘ 4 سال قیدکی سزا سنا دی جبکہ26 کوشک کا فائدہ دے کر رہا کردیا۔ 4مفرور ملزموں کو اشتہاری قرار دیدیا ۔

مشال خان قتل کیس میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی یا جے آئی ٹی کی رپورٹ چار جون 2017 کو مکمل ہوئی جس میں کہا گیا کہ یہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور جس میں یونیورسٹی ملازمین بھی ملوث ہیں۔سیاسی جماعت کے طلبہ ونگ کے صدر اور یونیورسٹی کے ایک ملازم نے واقعے سے ایک ماہ قبل مشال خان کو ہٹانے کی بات کی تھی۔ تشدد اور فائرنگ کے بعد مشال خان سے آخری بار ہاسٹل وارڈن کی بات ہوئی جس میں مشال خان نے ان سے کہا کہ وہ مسلمان ہے اور پھر انھیں کلمہ بھی پڑھ کر سنایا اور ان سے یہ التجا بھی کی کہ انھیں ہسپتال پہنچایا جائے۔

رپورٹ میں مزید درج ہے کہ ایک مخصوص سیاسی گروہ کو مشال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا جبکہ مشال خان یونیورسٹی میں بے ضابطگیوں کے خلاف بھی کھل کر بات کرتا تھا جس سے یونیورسٹی انتظامیہ ان سے خوف زدہ تھی۔ مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو مشال خان کے خلاف اکسایا جبکہ رپورٹ میں مشال خان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا خلاف مذہب کوئی ثبوت موجود نہیں۔

مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے تشدد سے ایک طالب علم کی موت ہوگئی جبکہ دوسرا طالب علم زخمی ہوگیا۔ہلاک ہونے والے طالب علم مشال خان پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس کیا کرتا تھا۔ اسی الزام کے تحت مشتعل طلبہ کے ایک گروپ نے طالب علم پر تشدد کیا۔ اس دوران فائرنگ بھی کی گئی۔ تشدد سے طالب علم ہلاک ہوگیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں