میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قومی ریاست کامطلب سرمایہ درانہ ریاست ہے

قومی ریاست کامطلب سرمایہ درانہ ریاست ہے

احمد اعوان
هفته, ۴ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

بہت سے مسئلے توصرف جدیدقومی ریاست کوسمجھ لینے سے حل ہوسکتے ہیں ۔ مگرہمارے یہاں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ جب تک مرض کاعلم نہ ہو، آپ کسی کاعلاج کیسے کرسکتے ہیں ؟ایک قومی ریاست میں سب سے زیادہ عزت کے قابل چیزکیاہوتی ہے ؟یہ ایک اہم سوال ہے ۔جب ہم قومی ریاست کے اندر مذہب کے نفاذکی بات کرتے ہیں تووہ دیوانے کے خواب کے سوامزیدکیاہوسکتا ہے ۔آج پوری دنیاایک عالمی گائوں کی صورت اختیارکرچکی ہے ۔ ایک ادارہ ہے اقوام متحدہ ،دنیامیں ہرآزادملک خودچل کراس اقوام متحدہ کے پاس آتاہے اوراس کی رکنیت حاصل کرتاہے۔ اقوام متحدہ جب کسی ملک کواپنارکن بناتا ہے تواس پرکچھ پابندیاں بھی لگاتاہے ۔یہ پابندیاں دراصل ایک نئے غلامی کے دورکاآغازہوتی ہیں مگران پابندیوں کے نتیجے میں جوغلامی کاطوق ان رکن ممالک کے گلے میں ڈلتاہے اسے رکن ممالک غلامی نہیں عظیم آزادی تصورکرتے ہیں ۔اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک نے انسانی حقوق کے عالمی منشورپردستخط کئے ہیں اوراقوام متحدہ سے وعدہ کیاہے کہ ہرملک اپنے اندرانسانی حقوق کے عالمی منشورکونافذ کرے گا۔
انسانی حقوق کاعالمی منشورکیاہے؟ اس کواتنی عزت کے قابل کیوں سمجھاجاتاہے ؟ اس میں ایسی کیاخصوصیات ہیں کہ دنیاکے ہرملک کو اس کے نفاذکا پابند بنایاجاتاہے ؟ یہ تمام سوالات اوران کے جوابات کاحصول بہت اہمیت کا حامل ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی منشورکی روشنی میں پیداہونے والاانسان ترقی پسنداورآزادانسان تصورکیاجاتاہے ۔ایساتصورکیاجاتاہے،دراصل یہ انسان نہ توآزادہوتاہے اورنہ ہی ترقی یافتہ ۔ترقی صرف ایک دھوکا ہے ۔کیوں کہ میں کتناترقی یافتہ ہوں ،اس بات کافیصلہ مجھ سے زیادہ ترقی یافتہ انسان کرے گا۔میں مہینے میں 2لاکھ کماتا ہوں ۔ تو میں مہینے میں 5لاکھ کمانے والے کے مقابلے میں غریب ہوں اورماہانہ 50ہزارکمانے والے سے ترقی یافتہ ہوں ۔5لاکھ کمانے والا10لاکھ کمانے والے کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ ہے ۔ دنیا کا سب سے امیرآدمی 5سال تک دنیاکاامیرترین انسان رہاہے تووہ اس کے مقابلے میں غریب ہے جو20سال تک دنیاکاامیرترین آدمی رہاہے ۔ ترقی کرناآج ایک لاحاصل خواب ہے ۔
قدیم تہذیبوں میں مال کمایاجاتاتھا،اپنے آپ کوسہولت دینے کے لیے۔ فرعون کے پاس بہت دولت تھی اوروہ اس دولت کواستعمال کرتاتھا، اس دولت کے بل پرعیاشیاں کرتاتھا۔ایک مرتبہ فرعون نے دولت حاصل کرلی پھرفرعون نے سکون سے اس دولت کوخرچ کیا۔مگرآج کے ترقی یافتہ فرعون قدیم تہذیبوں کے فرعون سے بھی زیادہ گندے فرعون ہیں ۔آج کسی ارب پتی کے پاس اگر50ارب روپے ہوں تو بھی وہ ہروقت اس فکرمیں غرق رہے گاکہ یہ 50ارب 100ارب کب اورکس طرح ہونگے ؟اوراگر50ارب 30ارب ہوگئے توہوسکتا ہے اس امیرآدمی کودل کادورہ پڑجائے ۔آج دولت کمانے کامقصد صرف عیاشی نہیں بلکہ اس دولت میں مسلسل اضافہ اصل مقصد ہے ۔اگرآپ کسی جدیدتعلیم یافتہ اورحساب کتاب کے ماہرانسان کوبتائیں کہ میرے پاس 2کروڑ ہیں ، اب میں صبح شام عبادت کروں گااور ان 2کروڑکے ختم ہونے تک کچھ نہیں کروں گا، توآج کاجدیدپڑھالکھاانسان آپ کوسمجھائے گاکہ یہ عمل سراسرغلط ہے ۔ اگرمیرے پاس 2کروڑہیں تواگلے دوسالوں میں یہ 2 کروڑ 4 کروڑ ہونے چاہییں ۔پھراگلے 2سالوں میں 6، اسی طرح اگرمیری دولت میں اضافہ ہوتارہے تویہ اصل زندگی کامزہ ہے۔ اگردوکروڑ5سال بعد 1 کروڑ 80لاکھ رہ جائیں تومیں نقصان میں جارہا ہوں ، اورمیں غریب انسان کہلائوں گا۔ اس لیے آج دولت اس لیے کمائی جاتی ہے کہ اس سے مزیددولت کمائی جاسکے ۔اس لیے آج کاانسان سرمائے کامالک نہیں سرمائے کاغلام بن جاتاہے ۔سرمایہ انسان کوقابوکرلیتاہے اوراس کوچلاناشروع کردیتاہے ۔اوریہ سب جدیدقومی ریاستوں میں ہوتاہے ۔ایک قومی ریاست سے سب سے آخر میں جوقدراورجوچیزنکل کرسامنے آتی ہے اس کانام سرمایہ داری ہوگا۔
مثلاًپاکستان ایک قومی ریاست ہے ۔ تو پاکستان میں سب سے عزت کے قابل چیزکیاہے ؟ ترقی۔ سب پاکستان کوایک عظیم ،ترقی یافتہ ریاست بناناچاہتے ہیں ۔ ہم دنیاکی عظیم اور ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہوناچاہتے ہیں ۔اب ترقی سرمایہ داروں اورسرمائے کے بغیرممکن نہیں ، جب کسی ملک میں سرمایہ دارآتے ہیں توصرف پیسہ نہیں لاتے بلکہ اپنے ساتھ ایک مکمل اخلاقیات بھی لاتے ہیں ۔اس لیے یہ بات بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ قومی ریاست کامذہب سے کوئی لینادیناتوہوسکتا ہے مگرقومی ریاست مذہبی ریاست نہیں ہوتی ۔1947ء میں پاکستان آزاد ہوا اور ایک سال بعدجواہرلال نہرواورلیاقت علی خان کے درمیان ایک معاہدہ ہواکہ آج کے بعد اگر کوئی ہندوبھارت آئے گاتووہ ویزالے کرآئے گا۔ اوراگرکوئی مسلمان پاکستان آئے گاتوپاکستان سے ویزالگواکرآئے گا۔یہ کیاہورہاتھا؟صرف ایک سال میں مدینہ جیسی ریاست نے مسلمانوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا، کیوں ؟ قومی ریاست ترقی کرتی ہے اورترقی کے لیے آبادی کاکنٹرول ضروری ہوتاہے ۔اس لیے نہ بھارت ہندوئوں کی ریاست ہے ،نہ پاکستان مسلمانوں کی ۔بلکہ یہ کہا جائے کہ پاکستان پاکستانی مسلمانوں کی ریاست ہے ،دنیاکے ہرمسلمان کے لیے پاکستان نے ٹھیکہ نہیں اٹھارکھا۔یہ الفاظ صرف قومی ریاستوں میں ہی سننے کوملتے ہیں ۔جنرل ضیاء الحق کے دورمیں پاکستانی ریاست نے افغانیوں کواپنے ملک میں جگہ دی اورشوریہ مچایاکہ یہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ۔لیکن یہی جنرل ضیاء الحق بنگلا دیش میں رہ جانے والے محصورین بنگال کولانے پرکبھی تیارنہ ہوئے جبکہ وہ توزیادہ مسلمان بھائی تھے؟ اور انہوں نے توپاکستان کی محبت میں قربانی بھی دی تھی ؟ پھر ان کولانے کے لیے کیوں نہیں کچھ کیاگیا؟کیونکہ ہر افغانی مسلمان بھائی کے بدلے امریکا سے ڈالر آتے تھے، اقوام متحدہ مددکرتا تھا۔ مگربنگالی مسلمان بھائیوں کے ساتھ کچھ نہیں آرہاتھا،اس لیے وہ صرف ’’خرچہ‘‘ تھے، اس لیے قومی ریاست نے نقصان کاسودا آج تک نہیں کیا۔اورپھراب 2017ء میں کل کے افغانی ’’مسلمان بھائی‘‘ آج بوجھ بن چکے ہیں کیونکہ اب ان کے ساتھ ڈالر آنابند ہوچکے ہیں اس لے اب ان مسلمان بھائیوں کا واپس جاناقومی مفاد میں ہے ۔ میں واضح کردوں کہ یہ کوئی سازش نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ جدیدقومی ریاست کے دستورکے عین مطابق ہورہاہے ۔کسی بھی قومی ریاست کاواحد مقصد سرمائے کے حصول کی کوشش ہوتی ہے، اس کے بعد قومی ریاست کسی بھی خیرکواپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتی ہے ۔اس لیے یہ بات سمجھنے کی اشدضرورت ہے کہ قومی ریاست دراصل سرمایہ دارانہ ریاست ہوتی ہے ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں