امریکی طرزِ جمہوریت عام لوگوں کی حفاظت سے قاصر!
شیئر کریں
جاوید محمود
طبقاتی عدم مساوات سے پیدا ہونے والی معاشرتی بے چینی نے رنگ لانا شروع کر دیا ہے۔ امریکی شہریوں کی ایک قابل لحاظ تعداد میں خوف کی نفسیات اور مختلف طرح کے سنڈرم تیزی سے پھیلنے لگے ہیں جس کا اظہار آئے دن ہو رہا ہے۔ نو عمر امریکی شہری نفسیاتی اور ذہنی پیچیدگیوں کے کچھ زیادہ ہی شکار ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی نو عمر امریکی شہری ہاتھ میں بندوق تھامے سڑکوں پر نکل کھڑا ہوتا ہے اور سامنے والے کو خوفزدہ کر کے اور بعض اوقات اس کے سینے میں بارود اتار کر کے اپنے تلذذکا سامان کرتا ہے۔ اسی طرح ایک سنگین واقعہ بلکہ سانحہ اپنی مادی ترقی، سائنسی برتری ،علمی تفوق ،تہذیب اور ثقافت روشن خیالی اخلاقی اقدار انسانی دوستی ہمدردی خیر سگالی اپنائیت امن و امان قانونی حکمرانی اور اجلی اور بیدار جمہوریت سے خیر ہ کرنے والے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے ایک پرائمری سکول میں پیش آیا جہاں 18 سال کے ایک نو عمر امریکی سلواڈور راموس نے 19 بچوں سمیت 21 افراد کو ہلاک کر ڈالا اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں خود بھی مارا گیا۔ ٹیکساس میں واقع راب ایلیمنٹری اسکول میں 24 مئی 2022 کو ہلاک ہونے والے بچوں کی عمر میں سات سے دس سال کے درمیان تھی۔ یہ سب ہی گریڈ دو تین چار کے طالب علم تھے۔ امریکہ میں 2022 کے ابتدا میں پانچ مہینوں میں یعنی فقط144 دنوں میں 199 فائرنگ کے بڑے واقعات رونما ہوئے جن میں 27 اسکولوں میں فائرنگ بھی شامل ہے۔ امریکہ میں معاشرتی بے چینی اور شہریوں میں پھیلتی عدم اطمینانی کی وجہ سے فائرنگ اور قتل کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے امریکہ میں سی ڈی سی کے مطابق 2020 میں بندوق سے ہونے والی اموات کی تعداد میں تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ 2020 میں قتل کے 19350 واقعات ہوئے تھے جو 2019 کے مقابلے میں تقریبا 35 فیصد زیادہ ہیں۔ شوٹنگز نے 2023میں مسلسل سرخیاں بنائی ہیں۔ گن وائلنس ارکیف کے مطابق سات دسمبر تک اس سال امریکہ میں بندوق کے تشدد سے کم از کم 4067 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جو کہ ہر روز اوسطاً 118 اموات ہیں ۔مرنے والوں میں ایک 1306 نو عمر اور 276 بچے تھے، خود کشی کے ذریعے ہونے والی اموات اس سال بندوق کے تشدد سے ہونے والی اموات سے زیادہ تر ہیں۔ اس سال بندوق کی خودکشی سے 22506 اموات ہوئیں جو کہ 2023 میں اوسطاً 66 روزانہ خودکشی سے ہونے والی اموات ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اموات ٹیکساس، کیلیفورنیا ،فلوریڈا ،جارجیا ،شمالی کیرو لائن اور لوزیانہ میں ہوئی ہیں۔ بندوق کے تشدد سے ہونے والی ہلاکتوں کی سنگین تعداد میں پولیس افسر کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 134 افراد شامل ہیں۔ امریکہ 2014 کے بعد ہر سال بندوق کے تشدد میں ہونے والی 39 ہزاراموات کو پیچھے چھوڑ گیا ہے ۔پھر بھی بندوق سے ہونے والی اموات 2016، 2017 اور 2018 کے مقابلے میں کم ہیں۔ہر سال ہونے والی اموات کی کل تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ 2022 میں44310 اموات ہوئیں۔ گزشتہ جون میں صدر جو بائیڈن نے کانگریس کی طرف سے منظور کردہ گن سیفٹی پیکیج کے قانون پر دستخط کیے تھے۔ یہ دہائیوں پہ کانگرس کی طرف سے پہلا اصلاحات کا بل تھا لیکن بندوق کی اصلاح کے حامی سخت اقدامات کے لیے زور دے رہے ہیں۔ فلوریڈا کے قانون ساز نمائندوںجیرل ماسکورڈ اور محسو ریل فرانس نے مارجوری سٹون مین ڈگریس بانی اسکول میں ہونے والی المناک شوٹنگ کی پانچویں برسی کے موقع پر بات کی اور کانگرس سے بندوق جی ایم اے تھری کے تشدد کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔ ماسکو وٹس نے کہا کہ پانچ سال بعد ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم نے کچھ ترقی کی ہے اور پھر ہمیں یاد دلایا گیا کہ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ماسکو وٹس نے کہا اگر آپ یا آپ کا کوئی جاننے والا خودکشی کے خیالات سے نمبر آزما ہے، مفت خفیہ مدد دن کے 24 گھنٹے دستیاب ہے۔ نیشنل لائف نائن کو8 98 پر کال کریںامریکہ میں برسوں سے شہریوں کے بندوق رکھنے کے حق میں حامیوں نے دوسری ترمیم کو اپنے حقوق کی تحفظ کے طور پر دیکھا ہے۔ نیشنل رائفل ایسوسی ا یشن این آر اے کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ قانون کی پاسداری کرنے والے بندوں کے مالکان کے حقوق کی تحفظ کے لیے دوسری ترمیم انتہائی اہم ہے ۔این آر اے کے پانچ ملین سے زیادہ اراکین ہیں اور یہ امریکی سیاست میں سب سے بڑے پریشر گروپوں میں سے ایک ہے ۔ این آر اے بندوقوں کو کنٹرول کرنے کی تجویز کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ موجودہ نظام کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دوسری ترمیم لوگوں کو ہتھیار اٹھانے کا حق دیتی ہے اور یہ عام لوگوں کا آئینی حق ہے ۔ اس کے تحت بندوقوں پر کسی بھی قسم کی پابندی غیر ائینی ہے۔ یہ اس ملک کا المیہ ہے جو پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کا قصد کیے ہوئے ہیں۔ لیکن امن ملک کے اندر پھیلتے پھیلتے ، اُلٹااب بد امنی پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ امریکی معاشرے میں اسلحہ کھلے بازاروں میں دستیاب ہے ۔اسلحہ کے سوداگر اگر کسی تمیز کے بغیر سبھی کے ہاتھ میں اسلحہ تھما کر اپنی تجوری بھر رہے ہیں۔ امریکی اسلحہ سازوں نے 2000 کے بعد کی دو دہائیوںکے دوران تجارتی بازار کے لیے 139 ملین سے زیادہ بندوں کے تیار اور فروخت کی ہیں۔ اس کے علاوہ خریداروں کا مطالبہ پورا کرنے کے لیے 71 ملین بندوقیں درآمد کی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سائنسی اختراعات اور مادی ترقی کی چکا چوند میں امریکی معاشرہ اخلاقی نفسیاتی اور ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہا ہے۔ اور لوگوں میں تیزی سے عدم برداشت بڑھتا جا رہا ہے۔ مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے طاقت اور بندوق کے استعمال کا کلچر فروخت پا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ بندوں کلچر پورے امریکی معاشرہکی کی امن وآشتی تباہ کر دے۔ امریکی حکام کو اپنے معاشرے کی خبر لینی چاہیے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکی آبادی دنیا کی آبادی کا چار فیصد ہے لیکن اس کے پاس 400 ملین سے زائد بندوقیں ہیں جو دنیا کے کل نجی آتشی اسلحے کا 46 فیصد بنتا ہے۔ امریکہ میں نجی بندوق کی ملکیت کی شرح دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ گن وائلنس نہ صرف امریکی معاشرے کا ایک دائمی مرض ہے بلکہ حالیہ برسوں میں عوامی سلامتی کی بگاڑ نسلی تنازعات میں شدت اور پرتشدد قانون کی نفاذ کا نتیجہ بھی ہے ۔گن وائلنس کی مہلک دائمی بیماری کے سامنے امریکی حکومت کی ناکامی نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ نام نہاد امریکی طرز کی جمہوریت عام لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتی اور نام نہاد انسانی حقوق کی روشنی طویل عرصے سے مدھم ہے جبکہ امریکہ کے اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات سے یہ ثابت ہے کہ دنیا کا واحد سپر پاور ہونے کے ناطے ایک عرصے سے اپنے بچوں کو بھی تحفظ دینے سے قاصر ہے ۔ایسے میں امریکی سیاستدان جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کیسے کر سکتے ہیں کبھی شاپنگ مالز اسکولز اور یوم آزادی کی پریڈ میں ماس شوٹنگ کے واقعات امریکہ میں اسلحے کے بڑھتے ہوئے جرائم کا ایک اور سلسلہ ہے، جہاں گن وائلنس ارکیو ویب سائٹس کے مطابق ہر سال فائرنگز سے 40 ہزار کے قریب افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دوسری جانب اسلحے کی ملکیت کے حوالے سے امریکہ میں منقسم آرا ہیں۔ حالیہ ماہ میں دو ماس شوٹنگ کے بعد یہ مسئلہ اور اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ گن لابی کو انسانی جانوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ موت کے اس ہولناک کھیل میں یہ مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔