پی ڈی ایم حکومت اپنی صفوں میں فیصلہ کرے مفاہمت چاہتی ہے یاٹکرائو، شاہ محمودقریشی
شیئر کریں
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ قوم اس بات کی گواہ ہے کہ سب سے پہلے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی آمادگی کا اظہار نواز شریف نے 2013 میں کیا تھا، جب بات چیت ناکام ہوئی تو اس کے بعد ضر ب عضب کا آغاز ہوا ،تحریک انصاف کی حکومت نے نیک نیتی سے بات چیت کی تاہم ہم نے کبھی یہ اشارہ نہیں دیا تھا کہ جنہوںنے امن برباد کیاہے انہیں کوئی ایمنسٹی دی جائے گی ، لیگل پراسس کو اوور رول یا پاکستان کے آئین کی حدود کو بالائے طاق رکھ کر گفت و شنید کی جائے گی ،سوال یہ ہے کہ آج قوم کی ضرورت کیا ہے ، اس وقت معیشت کی جو حالت ہے جو بڑھتی ہوئی دہشتگردی کا خوف ہے اس عالم میں حکومت یکجہتی یا انتشار دیکھنا چاہتی ہے ،پاکستان میں آئین کی پاسداری ہوگی قانون کی حکمرانی ہوگی یا سیاسی انجینئرنگ ہو گی ،یہ چاہتے ہیں تحریک انصاف آل پارٹیز کانفرنس میں آکر انگوٹھا لگا دے ،یہاں جنازے اٹھ رہے ہیں ، ملک میں سوگ ہیں لیکن وزیر خارجہ فرار ہیں ۔ پارٹی کے دفترمیں پی ٹی آئی وسطی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشداور سیکرٹری اطلاعات عندلیب عباس کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ پی ٹی آئی چیئرمین کو اے پی سی میں مدعو کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے حکومت سے کچھ سوالات ہیں ، پی ڈی ایم کی حکومت سے پوچھنا چاہوں گا پہلے اپنی صفوںمیں فیصلہ کریں آپ مفاہمت چاہتے ہیں یا ٹکرائو چاہتے ہیں ،تحریک انصاف دونوں کے لئے تیار ہے ، میں اداروں سے یہ سوال کر رہا ہوں کہ کیا آپ سیاستدانوں اورصحافیوں کا تعاقب چاہتے ہیں یا دہشتگردوں کا چاہتے ہیں ، یہ وہ سوال ہے جو پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے ۔ میں حکومت سے پوچھنا چاہتا ہوں آج قوم کی ضرورت کیا ہے ، اس وقت معیشت کی جو حالت ہے جو بڑھتی ہوئی دہشتگردی کا خوف ہے اس عالم میں آپ یکجہتی چاہتے ہیں یا انتشار دیکھنا چاہتے ہیں جو ہمیں ملک بکھرا ہوا دکھائی دے رہا ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کی پاسداری ہوگی قانون کی حکمرانی ہوگی یا سیاسی انجینئرنگ ہو گی ، یہ سوالات ہر شہری کے ذہن میں ابھر رہے ہیں،میں الیکشن کمیشن سے بھی سوال کرنا چاہوں گاکہ آپ کی آئینی ذمہ داری صاف اور شفاف انتخابات ہیں یا من پسند نتائج کا حصول ہے ، مجھے جو ماحول دکھائی دے رہا ہے جو پنجاب کی کیفیت ہمارے سامنے ہے اس میںیہ دکھائی دے رہا ہے کہ مختلف ہدایات نیچے اضلاع میں جارہی ہیںجہاں ضمنی انتخابات منعقد ہونے ہیں ،اس سے لگتا ہے کہ من پسند نتائج کا ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا پاکستان کے سیاسی استحکام اور الیکشن کمیشن کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا ۔ انہوںنے کہاکہ شہباز شریف دعوت دیتے ہیں لیکن پہلے فیصلہ کیجیے کہ الزام لگانا ہے یا دعوت دینی ہے ، سیاسی انتقام لینا ہے یاشرکت کی دعوت دینی ہے ،دو چیزیں بیک وقت نہیں چل سکتیں ، ایف آئی آر بھی کاٹتے جائیں جھوٹے مقدمات بھی ہوتے رہے ہیں کردار کشی بھی ہوتی رہی کارکنوں کو ہراساں کیا جاتا رہا ، شیخ رشید ،فواد چوہدری کے ساتھ جو کچھ ہوا ، عمران ریاض خان کے ساتھ جو کچھ ہوا،شبیر گجر اور خالد گجر کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے یہ ایک تسلسل دکھائی دے رہا ہے ، فیصلہ کریںآپ کرنا کیا چاہتے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ مجھے وزیر اعظم کی بے حسی پر تعجب اور افسوس ہوا ہے ، خیبرپختوانخواہ کے ہر ضلع میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے ، صوبہ اور قوم حالت سوگ میں ہے اور وہ کہتے ہیں خیبر پختوانخواہ کی حکومت 471ارب روپے کا حساب دے ، حساب سے کوئی نہیں گھبراتا، سوال ہے آپ کے بھائی وزیر اعظم رہے ، آپ کو اللہ نے پنجاب کاوزیر اعلیٰ بننے کاموقع دیا ، دہشتگرد ی کا سلسلہ تین سال سے نہیں ہے بلکہ گزشتہ بیس سال سے قوم اس سے نبرد آزما ہے،کیا پنجاب کی حکومت اور آپ حساب دینے کے لئے تیار ہیں ، آپ کی نگرانی میںجو ماورائے عدالت ہوئے اس کا حساب دینے کے لئے تیار ہیں۔ ہماری حکومت کو ایک سازش کے تحت رخصت کیا گیا اور ایک امپورٹڈ حکومت مسلط کی جاتی ہے ،نو ماہ کا جائزہ لیں اس میں دہشتگردی بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے ، ہمارے حساب کے مطابق دہشتگردی بڑھی ہے اور ماہرین کے مطابق 52سے53فیصد اضافہ ہوا ہے ،اس کا حساب ہم سے مانگتے ہیں یا آپ کو دینا ہوگا؟