وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شیئر کریں
وزیراعظم عمران خان کی ناکامی مکمل اور مدلل ہوچکی۔عمران خان کی سب سے بڑی ناکامی تو یہی ہے کہ اُنہوں نے اپنے ناکام اور نفرت آمیز طرزِ حکومت سے خود اپنے”حریفوں“ کے خلاف ایک ہمدردی پید اکردی ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری سے شدید نفرت کرنے والے بھی اب عمران خان کی مسلسل ناکامیوں کے باعث ان سے قدرے ہمدردی محسوس کررہے ہیں۔ یہ عمران خان کی ناکامی کا منہ بولتا اور منہ توڑتا ثبوت ہے۔ عمران خان اپنے کسی دعوے میں سچے، کسی وعدے میں پکے اور کسی نعرے میں کھرے ثابت نہیں ہوئے۔یہاں تک کہ اُنہوں نے ”یوٹرن“ کو سیاسی شریعت کا تصوف بنادیا ہے۔ اُن کی حکومت کے ماہ وبرس صرف زبانی جمع خرچ کی کھیوٹ کھٹونی کے سوا کچھ نہیں۔ الفاظ کی خراچ اور عمل کی قلاش حکومت ایسی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ انگریزی شاعر آڈن یوں ہی یاد آتا ہے، جس نے ”یونانی ریڈر“ نامی ایک شاندار کتاب 1948ء میں مرتب کی۔ آڈن نے یونانیوں کی تاریخ میں موجود جانبازوں کی درجہ بندی کی تھی۔ مثلاً ہومری جانباز، المیہ جانباز، عاشقانہ جانبازاور مفکر جانباز وغیرہ۔ گاہے خیال آتا ہے کہ یہ مشکل کام پاکستان میں کیا گیا تو عمران خان کا نام کہاں پہچانا جائے گا۔ اُنہیں ”لفظی جانباز“ کے ساتھ ایک نئی درجہ بندی میں شمار کیا جائے گا۔ محبوب نے عبدالحمید عدم کے ساتھ جو کچھ کیا، وہی کچھ عمران خان نے اپنے معشوق عوام کے ساتھ کیا:
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
مظالم ترے عافیت آفریں
مراسم سہانے سہانے ترے
دلوں کو جراحت کا لطف آ گیا
لگے ہیں کچھ ایسے نشانے ترے
وزیراعظم عمران خان بھی اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح اب عوام کے ساتھ وہی ”کاٹھ کی ہنڈیا“ چڑھا رہے ہیں، جو باربار نہیں چڑھتی۔ دھوکے کا جوکاروبار پہلے کیا جاتا تھا، وہی عمران خان بھی سجانے لگے ہیں۔ گزشتہ روز عوام کے ساتھ براہ راست مواصلاتی رابطے کا جو خیال اُنہیں سوجھا، وہ اُن کے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف کی فردِ عمل کا بھی حصہ رہا ہے۔ عوام سے رابطے کا یہی ناٹک نوازشریف کے ہاتھوں میں موجود ٹیلی فون کے ساتھ پرانی تصاویر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کو ایسے سوانگ رچانے کیوں پڑتے ہیں؟ اگر حکومتیں کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوں تو پھر”کامیابی کا دھوکا“تخلیق کرنا پڑتا ہے۔جدید قومی ریاستوں میں ذرائع ابلاغ اس کا ایک ذریعہ ہے۔ حکمرانوں کو ان ذرائع ابلاغ کے لیے ایسے جعلی واقعات مہیا کرنے پڑتے ہیں جس سے ایک جعلی شبیہ بنائی جاسکے۔ عمران خان ماضی کے تمام حکمرانوں پر اس پہلو سے فوقیت رکھتے ہیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے تمام مرکزی دھاروں پر مکمل کنٹرول اور قابو پانے کے باوجود بھی عمران خان کے خلاف نہ صرف عوامی غم وغصہ بڑھ رہا ہے بلکہ یہ اپنے ردِ عمل کے ایسے نقطہئ عروج پر پہنچ رہا ہے جو خطرناک نتائج پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ سماجی تبدیلیوں میں اس کی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان سریر آرائے اقتدار ہوئے تو اُن کے ایک ہاتھ میں کرپشن کے خلاف بیانئے کی چھڑی تھی تو دوسرے ہاتھ میں اچھی حکمرانی (گڈ گورننس)کا پھریرا تھا۔ اب اُن کے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔ پاکستان میں بدعنوانی کا ماجرا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ نے سناد یا ہے۔ کرپشن کا جادو عمران خان حکومت میں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ملک بھر میں ایک عمومی تجربہ بھی یہی ہے کہ سرکاری مشینری کے کل پرزے پرانے ڈھنگ سے ہی حرکت کرتے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ اس رپورٹ کے حوالے سے وزیراعظم سمیت وزراء نے جو بیانیہ اختیار کیا وہ عذرِ گناہ بدترازگناہ کے بمصداق تھا۔ اگر حکومت عمران خان کی ہو، اور وہ کرپشن پر قابو بھی نہ پاسکے تو نفرت کا محور صرف نوازشریف اور آصف زرداری کی ہی شخصیتیں کیوں رہ سکیں گی۔ عمران خان حکومت میں اگر کرپشن میں اضافے کے اعداد وشمار پیش کیے جارہے ہو تو پھر کرپشن کے خلاف بیانیے کی یہ پوری ہربونگ اپنی آبرو ہی کھودیتی ہے۔ وزیراعظم کے بیانیے کا دوسرا پہلو اچھی حکمرانی تھا، اس کا حال دن بہ دن ابتر ہوتا جارہا ہے۔ معمولی معمولی ہڑکارے پوری سرکاری مشینری کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ریاست کے پورے وقار سے کھیل رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اشیائے صرف کی قیمتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کو منڈی کی قوتیں جس طرح کنٹرول کررہی ہیں، اس کے آگے پوری ریاست بے بس دکھائی دیتی ہے، اس کا مشاہدہ ماضی میں کم کم ہی ہوا ہے۔ وزیراعظم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عوام کے عمومی تجربے کے برخلاف اپنا راگ الاپ رہے ہوتے ہیں۔ چند روز قبل اُنہوں نے عین اُس وقت مہنگائی میں کمی کی نوید سنائی جب پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا۔کیا وزیراعظم عمران خان کو ایک خلافِ واقعہ موقف پیش کرتے ہوئے کسی سرکاری مشینری کی جانب سے درست حقائق نہیں دکھائے جاتے، کیا حکمران تخت پر بیٹھ کر گونگے بہرے ہوجاتے ہیں؟وزیراعظم کے ہاتھ میں نہ اچھی حکمرانی کا کوئی پھریرا ہے اور نہ کرپشن کے خلاف بیانیہ۔ اب اُن کے ہاتھ میں مداری کی ایک ٹوپی ہے جس سے وہ نظر کادھوکا پیدا کرتے ہوئے کبھی کپڑے کو کبوتر اور کبھی کبوتر کو کپڑا بناکے دکھا رہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایسے تماشے دیکھنے اور دکھانے والے دونوں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
عمران خان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کی بھی تقدیس کرانا چاہتے ہیں۔ وہ مُصر ہیں کہ اُن کے حریفوں کو ہی اُن کی حالیہ ناکامیوں کا بھی ذمہ دار سمجھا جائے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اُن کے وہ حامی جو روزانہ نوازشریف اور آصف علی زرداری پر تین تین حرف بھیجتے ہیں، اُنہیں بھی اُن کے اندازِ حکمرانی کے دفاع میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ اردو ترجمے کے بعد بھی یہی بتاتی ہے کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔ مگر عمران خان لوٹے ہوئے پیسے کی واپسی کی گردان کرتے ہوئے ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑانے کوتیار نہیں کہ پوری سرکاری مشینری کس طرح لوٹ مار کے ہمہ گیر بندوبست کی معاون ہے اور اس کی سرپرستی کس طرح سیاسی حکومت میں موجود اور اس پر اثرانداز قوتیں انتہائی پُرکاری سے کرتی ہیں۔ درحقیقت عمران خان کی حکومت ناکامی کے ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جہاں امید کے خلاف بھی کوئی امید پیدا نہیں کی جاسکتی۔ اور ایسی ہی ناکامی مکمل اور مدلل ہوتی ہے۔ کرپشن کے منتر پر اپنا جادو جگانے والے عمران خان کے متعلق اب اُن کے چاہنے والے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
٭٭