سینیٹ الیکشن اور بلوچستان
شیئر کریں
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 29 جنوری کو پنجاب کے شہر ساہیوال میں کامیاب جوان پروگرام کے تحت چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ سینیٹ انتخابات سے قبل ہی ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ بات درست ہے مگر سوال یہ ہے کہ ریٹ صرف حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والا کوئی رہنماء لگارہا ہے یا مجموعی سیاسی ماحول کے اندر یہ قبیح فعل رائج ہے۔ ویسے عمران خان کی حکومت سے جڑی امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں۔ حزب اختلاف کو پیچھے دھکیلنے کی بجائے اگر عوام کی بہبود اور مسائل پر مزید توجہ دی جائے تو یہ ان کی آئندہ سیاست کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔سینیٹ انتخابات میں خرید و فروخت کی گیم ختم کرنا عمران خان کے کاندھوں پر عائد اہم فریضہ ہے۔ ایسا کرنے میں کامیاب ہوں گے تو بلا شبہ مثبت اور شفاف سیاسی جمہوری ماحول کو فروغ ملے گا۔ دیکھا جائے توموجودہ سینٹ چیئرمین صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈی والا اسی خرید و فروخت کی پیداوار ہیں۔ سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے اندر وہ سارا تماشا پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ان سے ملی دوسری جماعتوں کے اشتراک کا نتیجہ ہے۔تب پیپلز پارٹی نے ن لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور دوسری جماعتوں کی رضا کے برعکس اپنی جماعت کے قد آور رہنماء رضا ربانی کو مسلم لیگ ن کا نمائندہ کہہ کر ان پر بلوچستان کے صادق سنجرانی کو ترجیح و فوقیت دے کر کامیاب کرایا۔ حالاں کہ صادق سنجرانی کا سینیٹر بننا بھی دولت کا کرشمہ تھا۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان بھی 27 جنوری کو فرما چکے ہیں کہ بلوچستان میں سینیٹ ٹکٹوں پر کبھی خرید و فروخت نہیں ہوئی۔ جام کمال خان بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر ہیں جسے اب تک سینیٹ ٹکٹوں کے لیے 80 کے قریب درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔ ان میں نیشنل پارٹی کے سینیٹر اشوک کمار کی درخواست بھی شامل ہے، ان کا تعلق نیشنل پارٹی سے تھا، انہوں نے 2020ء میں پارٹی فیصلے کے برعکس آرمی چیف مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کے حق میں ووٹ دیا، نیشنل پارٹی نے جماعتی پالیسی کیخلاف جانے پر اسے فارغ کردیا تھا، انہوں نے پارٹی ٹکٹ کیلئے جواز بھی یہی پیش کیا ہے کہ انہیں اس بناء پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
دیکھا جائے تو اشوک کمار نے ضمیر فروخت کیا ہے، ’باپ‘ پارٹی اگر سمجھتی ہے کہ ان کی جماعت جمہوری اصولوں پر قائم ہے تو ضمیر کا سودا کرنیوالے شخص کو قریب بھی نہ پھٹکنے دے۔ بلوچستان وہ بد نصیب صوبہ ہے کہ جہاں سینیٹ ٹکٹیں در پردہ فروخت بھی ہوئی ہیں اور سینیٹر بننے کے لیے ارکان اسمبلی کے ووٹ بھاری رقوم سے خریدے بھی گئے ہیں۔ دوسرے صوبوں سے آنیوالے سرمایہ دار بھی یہاں سرمایہ لگاکر کامیاب ہوچکے ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی دراصل جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے گناہ کی پیداوار ہے۔ ان جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ بن کر صوبے میں ن لیگ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومت گرائی، عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنائے گئے، یہ جماعتیں گویا اس 6 ماہ کی حکومت میں بلواسطہ شریک رہیں، اہم محکمے ان کے تصرف میں دیئے گئے، ان کے لوگ نوازے گئے۔اس حکومت کے دوران مارچ 2018ء کے سینیٹ انتخابات آن پہنچے، پھر بھانت بھانت کے لوگ سرمائے کے بل بوتے اور اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر سینیٹرز کامیاب کرائے گئے۔ پیپلز پارٹی عدم اعتماد کے گناہ اور سینیٹ انتخابات میں اراکین بلوچستان اسمبلی کے خرید و فروخت میں شامل رہی۔ تب ہی تو حاصل بزنجو مرحوم نے بلوچستان کے ان امیدواروں پر عسکری گروپ کی پھبتی کسی تھی۔ چناں چہ اس ضمن میں نوازشات مخفی لوگوں پر بھی ہوئیں، جو لوگ سینیٹر بننے سے رہیں، انہیں حکومت میں اسپیشل اسسٹنٹ اور دوسرے ذرائع سے کھپایا گیا تاکہ وہ اپنے نقصانات کا ازالہ کرسکیں، یہاں تک کہ صوبے میں نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر میں بھی خطیر رقم کی تقسیم ہوئی۔یہ پیسہ ان لوگوں نے لیا جو اس وقت بھی ’باپ‘ پارٹی کے اندر اہم مناصب پر بیٹھے ہیں، اچھا خاصہ حصہ ماسٹر مائنڈ بھی حاصل کرگئے، معلوم نہیں جام صاحب کیوں انجان بننے اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ آنیوالے مارچ میں سینیٹ الیکشن میں نئی کہانیاں بننے کے امکانات بھی بہت روشن ہیں۔ لہٰذا ان مکروہات پر دلالت نہیں کرنی چاہئے۔ جام کمال اس پہلو پر خاموش رہنے کی حکمت عملی اپنائے اور صوبے کے اندر گورننس پر توجہ مرکوز رکھیں۔پہلو یہ بھی مد نظر رہے کہ بیشک بیورو کریسی کی جہاں خامیاں ہوں دور کریں، مگر بحیثیت مجموعی بیورو کریسی کو مختلف اطراف کے غیر آئینی دبائو سے نکالیں تاکہ صوبے کے اندر کار سرکار میں خلل و تعطل نہ رہے۔ نیب کی وجہ سے افسران و سرکاری ملازمین کام اور اقدامات سے خوفزدہ ہیں۔چیف سیکریٹری کیپٹن (ر) فضیل اصغر کی کئی جانب سے کردار کشی اور ٹرائل ہورہا ہے مگر اس غیر شائستہ محاذ کی بجائے خود جام کمال کی جانب سے اعلیٰ افسران کی ہتک کی باز گشت ہے۔ غیر متعلقہ افراد کی موجودگی میں ہونے والے اجلاسوں میں اعلیٰ افسران کی تضحیک کی باتیں نکل آئی ہیں۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری عبدالرحمان بزدار کو اجلاسوں میں ایسے ہی ہتک آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پھر انہیں منصب سے ہٹایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔