ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا بل مسترد
شیئر کریں
حکومت ،مسلم لیگ ،پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کی مخالفت پرچیرمین ڈپٹی چیرمین سینٹ ، سپیکر،ڈپٹی سپیکر اسمبلی اوراراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کے بلز سینیٹ میں مسترد ہوگئے ،بلز کے حق میں 16اور مخالفت میں 29ووٹ آئے ،بلز کی مخالفت کرنے والے سینیٹرز کاکہناتھا کہ رکان پارلیمنٹ کی تنخواہو ں میں اضافہ ہوناچاہیے مگر یہ مناسب وقت نہیں ہے ،سیاست عبادت ہے اورعبادت کے لیے تنخواہ نہیں ثواب ملتاہے ،جب تک عام آدمی کی حالت نہیں بدلتی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کریں گے ،موجودہ معاشی صورت حال میں بل کی حمایت سے عوام میں اچھا پیغام نہیں جائے گا ۔بلزکی حمایت کرنے والے سینیٹرز نے کہاکہ بلز پر خفیہ رائے شماری کی جاتی تو 104ووٹ حق میں آئیںسب کی دل کی آواز ہے لندن والاووٹ بھی آجائے گا،میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے بل کی مخالفت کی جارہی ہے 95فیصد ارکان نے حمایت کرنے کاکہناتھاب مکرگئے ہیں ،تحریک انصاف اور40سال سے ملک میں حکمرانی کرنے والوں کو مزدور کیوں یاد نہیںآیا آج سب سیاست کررہے ہیں، جب سندھ کے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ ہورہا تھا تو اس وقت مزدور کیوں یاد نہیں آیا،پارلیمنٹ ماں باپ کی طرح ہوتا ہے تو اس کی تنخواہ بڑھا دو تاکہ بچوں کا خیال رکھے ۔پیر کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس شروع ہوا تو سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے سجاد حسین طوری، یعقوب ناصر، دلاور خان، اشوک کمار اور شمیم آفریدی کی جانب سے مشترکہ بل چیرمین ، اسپیکر کی تنخوا ہیں،الاوئنسز اور مراعات ترمیمی بل 2020 ایوان میں پیش کیا۔نصیب اللہ بازئی نے کہاکہ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی اہم اداروں کے سربراہ ہیں یہاں سے قانون سازی کی جاتی ہے تمام دیگر اداروں کے سربراہاں کی تنخواہ زیادہ ہے اور ان کی کم ہے ۔ وفاقی وزیرپارلیمانی اموراعظم سواتی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ جو بل آیا ہے وہ حقائق پر مبنی ہے محتسب اعلی 12سے 13لاکھ، سیکرٹری کی 2سے 3لاکھ روپے تنخواہ ہے ۔ریگولیٹری اتھارٹی لے سربراہ کی بھی 10لاکھ سے زیادہ ہے ۔ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں معیشت میں استحکام لانے کے لیے کام کررہے ہیں پارلیمان کے ہر ممبر امیر نہیں ہے ان بلز کو پہلے قومی اسمبلی میں جانا چاہیے آئین اس کی اجازت نہیں دیتا ہے آرٹیکل 73اور 74 کے تحت منی بل قومی اسمبلی سے آنے چاہیں ۔اس پر بحث ہونی چاہیے معاشی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ بل کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں ہے عام آدمی کی آمدنی بڑ نہیں جاتی تب تک ہمیں اپنی تنخواہ نہیں بڑھانی چاہیے ۔وزیراعظم ہاوس کے بجٹ میں کمی لائے ہیں ۔ایک ایک پیسے کی قدر ہے فوج نے اپنی تنخواہ نہیں بڑھائی ہے ۔معیشت ٹھیک ہوجائے تو دیکھیں گے ابھی گزارہ کریں۔بیرسٹر محمد علی سیف نے کہاکہ اس بل کو سینیٹ میں لایا جاسکتا ہے ۔ سینیٹ پارلیمنٹ کا حصہ ہے سینیٹ اپنے رولز میں ترمیم کرسکتاہے جس کو تنخواہ کی ضرورت نہیں وہ قومی خزانہ میں دے ۔سینیٹ میں اتنے امیر لوگ ہیں کہ وہ پورے ایوان کی تنخواہ دے سکتے ہیں۔عوام کی تنخواہیں بڑھائیں گے تو ہم حمایت کریں گے ۔ٹی اے ڈی اے اور تنخواہ خیراتی ادارے میں دے دیں۔پیپلزپارٹی کی پارلیمانی رہنماشیری رحمن نے کہاکہ دوماہ پہلے بھی کہاتھا کہ پیپلزپارٹی اس بل کی مخالفت کرے گی ۔پاکستان کے پارلیمنٹ میں تنخواہیں خطے میں سب سے کم ہیں۔ بہت سے ممبران کا اس تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا ہے ۔اگر یہ منی بل ہے تو ایجنڈے پر کیوں لایا گیا ہے ۔پارلمان کاکردار عوام کا مقدمہ لڑنا ہوتا ہے ۔عوام کے حقوق کا ضامن بنیں ۔مہنگائی میں اضافہ ہوا رہا ہے ۔ان حالات میں تنخواہ میں اضافہ عوام کو صیحیح پیغام نہیں جائے گا ۔ملک میں شدید اقتصادی بحران ہے ۔اگر ہم اپنے آپ کو مراعات دیں گے تواس سے برا پیغام ایوان سے جائے گا۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے حمایت کرتے ہوئے کہاکہ اکثریت چاہتی ہے کہ تنخواہ بڑ جائے مگر اس پر سیاست کی جارہی ہے ۔وکیل جج نہیں بنانا چاہتا ۔بعض ارب پتی سینیٹر بھی ہیں مگر 1لاکھ 50ہزار بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔ہم 17گریڈ افسر سے بھی کم تنخواہ لے رہے ہیں۔میں نے اپنی زندگی میں کوئی کاروبار نہیں کیا ہے ۔کچھ ارکان 90دن اپنے کاروبار اور دس دن ایوان کے کام کرتے ہیں۔پارلیمنٹرین کی تنخواہیں بڑھانی چاہیے ۔تنخواہ بڑھانی چاہیے میڈیا ہماری رہنمائی نہ کرے میڈیا کہے تو ہم دبا ؤمیں آجاتے ہیں 50لاکھ والا اینکر پارلیمنٹرین پر بات کرتا ہے ۔مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنمااور قائدحزب اختلاف سینیٹرراجہ ظفرالحق نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ عام انسان کی زندگی مہنگائی کی وجہ سے اجیرن ہوچکی ہے لوگ جولیاں اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں ۔سب سے پہلے نیچھلے طبقے کی طرف توجہ دی جائے ۔ نیچھے اور سفید پوش مہنگائی کے ذد میں ہیں ۔پہلے قوم کی بات کریں اور اس کے بعد اپنی بات کریں ۔جب تک عام آدمی کی حالت نہیں بدلتی مسلم لیگ ن اس طرح کا مطالبہ نہیں کرے گی۔سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہاکہ غریب آج کے دور میں عزت سے روٹی نہیں کھا سکتے ہیں اور رہائش نہیں ہے خزانے عوام کے لیے ہوتے یہ آئی ایم ایف کے لیے خزانے بھر رہے ہیں ۔ عوام کااحساس اس کو ہوگا جو خود معاشی بحران کا شکار ہوگا ۔میں اسی تنخواہ میں گزارا کررہاہوں ۔تنخواہوں کا اصول ہونا چاہیے ہم نے کبھی یہ قانون نہیں بنایا ہے ۔جس ملک میں 17ہزار روپے بھی پوری نہیں دی جاتی ہے 9لاکھ تنخواہ صدر کی ہے تواس نولاکھ کا کم ازکم دس %مزدور کی بھی ہونی چاہیے ۔پاکستان سوشل ویلفیئر اسٹیٹ نہیں ہے مہنگائی اور غربت سے جرائم بڑرہے ہیں 80لاکھ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں۔بجٹ میں تنخواہ میں اضافے کا اصول طے کیا جائے ۔آٹا چینی کی قیمت 40روپے کلو بڑھا دی ہیں ۔جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینیٹرمولانا عبدالغفور حیدری نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ ابوبکر نے کہاکہ میری تنخواہ اتنی ہوجتنی مدینہ میں مزدور کی تنخواہ ہے ۔بلوچستان معدنی ذخائر سے مالامال ہے وہاں غربت کہ انتہاء ہے ۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے بھی غربت دور کرنے کا سوچا ہے ان کی بھی ملک میں حکومت رہی ہے ۔رشوت کمشن کے مواقع فراہم کرنے کے لیے یہ تنخواہ کم رکھی گئی ہے ۔ پولیس بھی مجبور ہوکر رشوت لیتے ہیں ۔تنخواہیں سب کی بڑھنی چاہیے ۔بنیادی تنخواہ ایک تولے سونے کے برابر ہونی چاہیے ۔اندر سے اب خوش ہوں گے کے تنخواہیں بڑھائیں ۔اس سے کرپشن اور کمشن کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ عزت نفس مجروع کرنے کے بجائے تنخواہ بڑھائی جائے ۔امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ چیرمین صاحب آپ بھی آج خوش ہیں مگر تنخواہ نہیں بڑے گی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ میرا بھی تنخواہ میں گزارا ممکن نہیں ہے تو جن کی 17ہزار ہے وہ کیسے گزارکرے گا ۔ہم سیاست عبادت سمجھ کرکرتے ہیںتو عبادت کے لیے تنخواہ نہیں ثواب ملتا ہے اللہ عزت اور ثواب دے گا ۔اگر لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم عبادت نہیں تنخواہ کے لیے سیاست کرتے ہیں تو اس سے ہماری عزت میں کمی ہوگی۔وزیر خزانہ کے پی کے تھاتوفارمولادیاکہ جو گریڈ ایک کا ملازمین ہے اس کی تنخواہ میں 20اور 22گریڈ کے ملازم میں 1فیصد اضافہ کیا جائے ۔پرویز خٹک نے سراہا مگر سب افسران نے ہڑتال کردی ہے وہ اس کو بے عزتی سمجھتے ہیں کہ مزدور کی تنخواہ میں 20اور چیف سیکرٹری کی تنخواہ میں ایک فیصد اضافہ ہو۔چیف سیکرٹری کے بینک میں اضافہ ہوتا ہے ایک سیکرٹری کے پانی کی ٹینکی پیسوں سے بھرری ہوتی ہے تو غریب بھی چاہتا ہے کہ ایک برتن تو پیسوں سے بھرا ہو۔وزیراعظم عوام کے ماڈل ہوں گے تو انقلاب آئے گا اگر حکمرانوں کے گھر میں سونا ہوتا تو باہر غربت ہوگی سارا نظام ڈنڈی پر چلتا ہے انصاف پر نہیں چل رہاہے ۔اے این پی کے سینیٹرستارہ ایاز نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ کام کرنے کے لیے تنخواہ کی ضرورت ہے ۔تنخواہ میں توازن ہونا چاہیے ۔کوئی تنخواہ اور مراعات نہیں چھوڑتا ہے ۔ تنخواہ نہ بڑھانے کی تاویلیں غلط کررہے ہیں۔ سب سے پہلے مزدوروں کی تنخواہ بڑھائی جائے ہم نے بات کرکے جرم نہیں کیا ہے ۔قائد ایوان سینیٹرشبلی فراز نے چیرمین سینیٹ سے شکوہ کیاکہ ایوان کی کارراوئی کا پارلیمانی لیڈر 80%وقت لے لیتے ہیں آپ ہمارے طرف نہیں آتے ہیں اس طرح دیگر ارکان کوکہیں دیے کے آپ ایوان میں نہ آیاکریں ۔سینیٹرمشتاق احمد نے مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ بل کی شدید مخالفت کرتاہوں قرض کا ریکارڈ اضافہ اور مہنگائی کہ شرح 14%سے زائد ہے آٹا مافیا نے 40ارب روپے کمائے ہیں چینی کی قیمت میں 10روپے اضافہ کیا گیا ہے ۔ریاست صاف پانی اور غذا نہیں دے سکتی ہے ۔یہاں بات اصولوں کی ہورہی ہے کہ اس ایوان سے کیا پیغام جارہاہے ۔یہاں سو سو فیصد تنخواہ میں اضافہ ہورہاہے ۔14لاکھ تنخواہ لینا ظلم ہے ۔اس ظلم کو بھی ختم ہونا چاہیے جس کی تنخواہیں زیادہ ہیں ان کی کم اور جن کی کم ہیں ان کو بڑھائی جائیں۔تحریک انصاف کی سینیٹرمہرتاج روغانی نے مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ اپنی تنخواہ بڑھا لو۔ میری تربیت میں کمی ہوگئی کہ بیرسٹر سیف نے تنخواہ میں اضافے کی حمایت کی ہے ۔سینیٹر نعمان وزیر نے کہاکہ ایک گھنٹے آجاو اور واپس چلے جاؤ۔ہم کرتے کیا ہیں جو تنخواہیں زیادہ کردی جائیں۔برگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ نے کہاکہ یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ تنخواہوں کو بڑھایا جائے ۔ایم کیو ایم کے سینیٹرشیخ عتیق احمد نے کہاکہ پیسے کی قدر کم اور عزت میں اضافہ ہورہاہے ۔اللہ برکت ڈال دے تو زیادہ تنخواہ کم اور تھوڑی زیادہ ہوجاتے ہیں۔کاروبار کرنا سب سے مشکل اور تقریریں کرنا بیان دینا آسان ہے ۔ سیمی ایزدی نے کہاکہ تنخواہ بڑھانے کا وقت ٹھیک نہیں ہے ۔سینیٹرکہدابابرنے کہاکہ جو سینیٹر اپنی تنخواہ نہیں بڑھا سکتا وہ کیا کرسکتا ہے ۔پرویز رشید احمد نے کہاکہ تنخواہ بڑے نہ بڑے وہ ٹیکا مجھے مل جائے جس سے روپے ڈالر لگیں ۔ورنہ ایسے دوست دیں جو خرچہ دیں جہاز میں لے جائیں وزیراعظم کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا ہے وہ قوم کا ہوتا ہے دوست اخراجات اٹھاتے ہیں تو ان کے اخراجات کوئی اور اٹھائے گا ۔دوستوں کے اخراجات قوم سے لیے جاتے ہیں ۔روٹیاں اور چینی ناپید کردی گئی ہے ۔دوست اس وقت تک ہوتے ہیں جب تک آپ وزیراعظم ہوتے ہیں۔سینیٹرمیرکبیر نے کہاکہ ہم مزدور کی تنخواہ کی بات کرتے تھے آج میں اپنی تنخواہ کی بات کررہا ہوں۔،آصف کرمانی نے کہاکہ حکومت کو ڈیڈھ سال ہوگئے ہیں ان کو 22کڑور عوام کے پیٹ پر پتھر باندھ دیں ۔انہوں نے ملک کی معاشی حالت تباہ کیا ہے ۔اس ملک میں لوگ دکان سے روزمرہ کی اشیا چوری کررہے ہیں۔ صدر مملکت کا کیا کردار ہے کہ لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔غریبوں کے پاس اپنے رشتے داروں کی تدفین کے بھی پیسے نہیں ہیں۔مہنگائی میں غریب عوام کو ریلیف دیاجائے ۔سینیٹر منظور کاکڑ نے کہاکہ یہ بل بہت پہلے آنا چاہیے تھا اس بل نے ان سب کو غریبوں کی یاد دلائی ہے پہلے کسی کو غریب یاد نہیں تھے ۔صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی نے 3سو فیصد اسمبلی ارکان میں اضافہ کیا ہے مگر آپ کو مزدور یاد نہیں آتا ہے ۔پہلے کہتے تھے کہ بجلی بل جلادو آج کہتے ہیں کہ جمع کردو۔خفیہ راہ شماری کی جائے تو 104ووٹ حق میں آئیں گے ۔بہرمند تنگی نے کہاکہ تنخواہ بڑھنے کا سب نے کہاہے ۔ملک میں استحکام ہے تو کیوں نہیں بڑ سکتی ہے ۔ڈاکٹر اشوک کمار نے کہاکہ تمام سینیٹرز متفق ہیں مگر کہاجارہاہے کہ پارٹی کا فیصلہ ہے کہ حمایت نہیں کریں گے ۔یہ پارٹی کا نہیں ایوان کا مسئلہ ہے ۔اگر ہماری تنخواہ سے معیشت ٹھیک ہوتی ہے تو نہ دیں ۔کلثوم پروین نے کہاکہ بل کمیٹی میں جانا چاہیے ۔رحمان ملک نے کہاکہ پے کمیشن لیاقت علی خان نے بنایاتھا کیا وہ ابھی ہے کہ نہیں ۔اگر یہ کمیشن ہوتا تو اس بحث کی ضرورت نہیں ہوتی ۔سب کی تنخواہ مزدور کے برابر کی جائے ۔ سینیٹر عبدالقیوم نے کہاکہ پنشنرز کی حالت بہت خراب ہے صدر کی تنخواہ کو آدھا کیا جاسکتاہے ۔سب کی برابر تنخواہ ہونی چاہیے ۔غریب کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے ۔سینیٹرز کی تنخواہ کافی نہیں ہے ۔سینیٹر دلاور خان نے کہاکہ کہاجاتا ہے کہ پارلیمنٹ ماں باپ کی طرح ہوتا ہے تو اس کی تنخواہ بڑھا دو تاکہ بچوں کا خیال رکھے ۔خفیہ رائے شماری کی جائے تو لندن والا ووٹ بھی آئے گا۔ گیان چند نے کہاکہ پیپلزپارٹی نیبمشہ سب سے زیادہ تنخواہیں بڑھائی ہیں ۔یہ وقت ٹھیک نہیں ہے ۔ولید اقبال نے بھی بل کی مخالفت کی ۔حکومتی مخالفت پر بل کو ایوان میں پیش کرنے کی اجازت دینے کے لیے رائے شماری کی گئی جس پر 16ووٹ بل کے حق اور 29مخالفت میں آئے اس طرح بل مسترد کردیاگیا۔اس کے بعد یکے دیگر دو بل (ڈپٹی چیرمین اور ڈپٹی سپیکر(تنخواہیں الاونسز اور مراعات(ترمیمی) بل 2020)،اور(اراکین پارلیمنٹ(تنخواہیں الاونسز اور مراعات(ترمیمی بل 2020)) نصیب اللہ بازئی نے ایوان میں پیش کئے جو مسترد ہوگئے ۔اس موقع پر انہوں نے کہاکہ میں آخری بل احتجاجا نہیں پیش کرتاہوں 95فیصد ارکان پارلیمنٹ نے کہاتھاکہ ہم آپ کے ساتھ ہیں آج پارٹی کے فیصلے کو دیکھ کرمکرگئے ہیں۔