بغیر لائسنس میڈیکل اسٹورز کے خلاف مہم کے نام پرنیا دھندا
شیئر کریں
(رپورٹ: نجم انوار) محکمہ صحت سندھ میں سابق ڈرگ انسپکٹر کلب حسن رضوی اور موجودہ چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی کی سربراہی میں رشوت کے عوض غیر معیار ی اور جعلی ادویات کی روک تھام کا جو سلسلہ شروع کیا گیا وہ کسی صورت رُکنے میں نہیں آرہا۔ گزشتہ ماہ جب جرأت تحقیقاتی سیل کی جانب سے انسانی جانوں کی تحفظ کے لیے رکھے گئے ان سرکاری ملازمین کے کالے کرتوتوں کا پردہ چاک کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو اخلاقی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدنان رضوی اور ان کے سرپرست عوام کو دوا کی شکل میں زہر بیچنے والے طاقت ور ادویہ ساز اداروں کے خلاف کارروائی کرتے۔ لیکن ایک غریب میڈیکل اسٹور والے کی عمر بھر کی کمائی کو چند ہزار روپے رشوت نہ ملنے پر بند کرنے والے بریف کیس کھلاڑی کی ساری اکڑفوں منی لانڈرنگ، انڈر انوائسنگ، متبادل ادویات اور فوڈ سپلیمنٹ کے نام پر موت بیچنے والی کمپنیوں کے سامنے ختم ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ یہ کمپنیاں انہیں پالتی ہی اس لیے ہیں کہ ان کے کالے کرتوتوں کا پردہ چاک نہ ہوسکے۔
جعلی ادویات کے سرپرستوں نے جرأت اخبار کی جرأت مندانہ رپورٹوں پر بدنامی کے بعد نئی مہم میں اپنی ہیراپھیرای کی حکمت عملی بھی برقرار رکھی
عدنا ن رضوی،قلب حسن رضوی اور غلام ہاشم نورانی یہ سب کے سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ان کے کام کرنے کا اسکوپ اور میدان ایک دوسرے سے متصادم ہے، لیکن زر پرستی اور لالچ نے ان سب کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھا کررکھا ہے۔ عدنان رضوی جعلی اور غیر میعاری ادویات کے خلاف چھاپہ اس لیے نہیں مارتا کیوں کہ اس کا مفاد کچھی گلی کے ڈان غلام ہاشم نورانی سے وابستہ ہے۔جب کہ کلب حسن رضوی چیف ڈرگ انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا تو اس کی آنکھوں کے سامنےHiltonفارما سمیت دیگر فارما کمپنیاں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کرتی رہیں تو نوٹوں کی چمک نے اس کی آنکھوں کو دھندلا کر رکھ دیا۔ (اس ضمن میں انتہائی اہم اور حساس تفصیلات عنقریب دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ شائع کی جائیں گی)اسی طرح عدنان رضوی اپنے سابق باس کلب حسن رضوی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس سے چار ہاتھ آگے نکل گیا۔
جعلی ادویہ سازوں کی سرپرستی جاری،میڈیکل اسٹورز کے خلاف مہم میں جعلی ادویات فروشوں اور بڑی فارموسوٹیکل کمپنیوں کے خفیہ دھندے نظر انداز
اس نے جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ فارمیسی کے سربراہ ڈاکٹر پروفیسر غلام سرور کے ساتھ مل کر ہزاروں طالبات کی ڈگریوں پر جعلی لائسنس جاری کروادیے۔ یہی چیف ڈرگ انسپکٹر معصوم نوجوانوں کی موت کا ہرکارہ بن کر فوڈ سپلیمنٹ کے نام پر اسٹیرائیڈز فراہم کرنے والوں کی سرپرستی کررہا ہے۔ بریف کیس کھلاڑی نے جرأت تحقیقاتی سیل کی جانب سے اپنے سیاہ کرتوں کا پردہ چاک ہونے پر 31؍جنوری 2019ء کو سندھ بھر میں تعینات 25ڈرگ انسپکٹرز کے نام ایک نوٹی فیکیشن 419 C.D.I./380/جاری کیا۔ جس میں یکم فروری 2019سے 28فروری 2019تک پورے صوبہ سندھ میں غیر معیاری، جعلی ادویات اور غیر رجسٹرڈ ادویات فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹورز کے خلاف کارروائی کرنے او ر اس کی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کے پاس بھیجنے کی ہدایات جاری کیں۔
دوسری جانب اپنی سیاہ کاریوں پر پرڈہ ڈالنے کی جلد بازی میں بریف کیس کھلاڑی کی کسی منصوبہ بندی کے بغیر پورے سندھ میں مہم چلانے کے حکم نے بہت سے شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی وزارت کے ہرکاروں نے مختلف اخبارات اور چینل کے رپورٹرز حضرات سے وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا انٹرویو کرنے اور اس پوری مہم کی میڈیا کوریج کے لیے رابطے کیے ہیں۔ جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن اپنی کارکردگی کو اجاگر کرنے کے لیے میڈیا نمائندوں کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟اس بابت عوام کے ذہن میں موجود کچھ سوالوں کے جواب ضروری ہیں۔
– ایک ماہ پر محیط اس مہم کی میڈیا کوریج کے لیے فنڈز کون فراہم کرے گا؟
– اگر یہ اخراجات محکمہ صحت کی جانب سے ادا کیے جارہے ہیں تو اس کے لیے کیا قانونی طریقۂ کا ر اختیار کیا گیا ؟
– ڈرگ انسپکٹرز کو TADAکی مد میں کوئی اضافی رقم نہیں دی جاتی تو یہ اخراجات کون برداشت کرے گا؟
– ہزاروں لاکھوں روپے مالیت کی ضبط کی گئی ادویات کو سِیل کرنے کی صورت میں کہاں رکھا جائے گا کیوں کہ اس شعبے کے پاس کوئی کوئی قانونی مال خانہ تک موجود نہیں ہے؟اور پھر اب تک ضبط ادویات کو تھوڑے عرصے کے بعد دوبارہ مارکیٹ میں لاکر فروخت کرنے کی بے شمار مثالیں اور اسکینڈلز سامنے آچکے ہیں۔
– اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ضبط کی گئی ادویات کو غلام ہاشم نورانی یا اس جیسے دیگر لوگوں کی مدد سے مارکیٹ میں دوبارہ فروخت نہیں کیا جائے گا؟
– کیا یہ پوری مہم صرف ان رجسٹرڈ میڈیکل اسٹور تک ہی محدود رہے گی اور کسی لائسنس رکھنے والے میڈیکل اسٹور کو تنگ نہیں کیا جائے گا؟
– صوبے بھر کے بیشتر لائسنس عدنان رضوی کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں، جن میں سے اکثریت جناح یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کے سربراہ ڈاکٹر غلام سرور کی ملی بھگت سے بننے والے جعلی لائسنس کی ہے ، کیا اس مہم میں ان جعلی لائسنس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی؟
– جب چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی صوبہ بھر میں چلنے والے ان رجسٹرڈ میڈیکل اسٹور کے بارے میں جانتے تھے تو اب تک ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
– اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس مہم کی آڑ میں کسی ڈرگ انسپکٹر کے خلاف ذاتی دشمنی نہیں نکالی جائے گی ؟
مذکورہ بالا سوالات کے تناظر میں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی دراصل اپنی اصل ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ رہی ہے۔اور اپنی بدعنوانیوں کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس لیے نمائشی اقدامات کے ذریعے اپنی ساکھ کو بچانے کی کوششوں میں ہے۔ طرفہ تماشا دیکھیں کہجعلی ادویات کے سرپرستوں نے جرأت اخبار کی جرأت مندانہ رپورٹوں پر بدنامی کے بعد نئی مہم میں بھی اپنی ہیراپھیرای کی حکمت عملی برقرار رکھی ہے ۔ اور میڈیکل اسٹورز کے نام پر مہم میں جہاں ایک طرف چھوٹے اور غریب میڈیکل اسٹورز سے پیسے بٹورے جائیں گے اور کچھ عرصے کے بعد وہ تمام میڈیکل اسٹورز جوں کے توں نظر آئیں گے جن کے پا س لائسنس نہیں تھے، (جرأت ان اقدامات کی کڑی نگرانی کرتے ہوئے اپنے قارئین کو ہر طرح سے با خبر رکھے گا، جس کے لیے تین مختلف وقائع نگاروں کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں)دوسری طرف ان میڈیکل اسٹورز سے ضبط کی گئی ادویات کو بعدازاں مارکیٹ میں فروخت کردیا جائے گا۔ درحقیقت جرم سے زیادہ اُس کی ماں کو مارا جاتا ہے تاکہ وہ نئے جرائم تخلیق نہ دے سکے۔ اس کے لیے ضروری امر تو یہ ہے کہ جعلی ادویہ سازی کے عمل کو روکا جائے ۔پھر جعلی ادویہ فروشوں کو پکڑ اجائے جو معمولی میڈیکل اسٹورز پر اُن ادویات کی ترسیل کے ذمہ دار ہیں۔ پھر اُن فارماسوٹیکل کمپنیوں کے بڑوں پر ہاتھ ڈالا جائے جن کی جانب سے برآمد کیا گیا خام مال جعلی ادویہ فروشوں کے ہاتھوں ایک منظم طریقے سے پہنچایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں بھینس کالونی کوبھی نہ بھولا جائے جہاں ممنوعہ انجکشن کھلے عام فروخت ہورہے ہیں اور جن کی سرپرستی یہ مہم چلانے والے خود کررہے ہیں۔ چور کی چوکیداری کی یہ مہم جوں جوں آگے بڑھے گی ، جرأت کا تعاقب بھی جاری رہے گا۔