محکمہ صحت میں کرپشن کا ناسور، کون کتنا ذمہ دار؟
شیئر کریں
(جرأت ہیلتھ ڈیسک)محکمۂ صحت سندھ میں کرپشن کا پس منظر دیکھا جائے تو نوے کی دہائی سے قبل اس محکمے میں کرپشن کچھ مخصوص شعبوں میں بہت محدود پیمانے پر ہوتی تھی۔ اس معزز پیشے کو کرپشن اور اقربا پروری کی غلاظت میں لتھیڑنے کا سہرا ڈاکٹر منظور میمن کے سرجاتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک محکمۂ صحت میں بطوراوایس ڈی (آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی) رہنے والے ان صاحب نے موقع ملنے پر پورے سندھ میں انتظامی مناصب پر میرٹ کو بُری طرح پامال کرتے ہوئے ہر اہم عہدے( جسے ہم سونے کا انڈہ دینے والی پوسٹ بھی کہہ سکتے ہیں)پر اپنے منظور نظر افراد کو تعینات کیا۔
محکمۂ صحت میں تین ڈبلیو (Women Wealth, Wine) کی اصطلاح کا سہرا بھی کرپشن کے اس بے تاج بادشاہ کے نام باندھا جاتا ہے۔ اس سارے معاملے کا حیرت انگیز پہلو تو یہ ہے کہ ایک طرف تو محکمۂ صحت اپنے لیٹر ہیڈز پر Say No To Corruptionکا راگ الاپتا ہے تو دوسری جانب اس مقدس پیشے کو کرپشن کی غلاظت میں دھکیلنے والے ڈاکٹر منظور میمن، عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی اور کلبِ حسن رضوی جیسے افسران کو سر پر بٹھا کر رکھتا ہے۔
ہیلتھ سیکریٹریٹ سندھ میں کرپشن کے بے تاج بادشاہ کہلائے جانے والے اس سرکاری ملازم نے اس شعبے کو سونے کی کان میں تبدیل کردیا۔ بے ایمانی کے کام میں ’’ایمان داری ‘‘کا خاص خیال رکھنے والے محکمہ صحت سندھ کے اس کرپشن کے بے تاج بادشاہ( ڈاکٹر منظور میمن) نے اوپر کی کمائی میں ساتھ دینے والے ہر فرد کو دل کھول کر نوازا۔
ہیلتھ سیکریٹریٹ میں کرپشن کے بے تاج بادشاہ کہلانے والے ڈاکٹر منظور میمن نے میرٹ کو پامال کرتے ہوئے اس شعبے کو سونے کی کان میں تبدیل کیا
ڈاکٹر منظور میمن نے محکمہ صحت سندھ میں کرپشن کے پودے کی مزید آبیاری کرنے والے اپنے پیش رو ڈاکٹر شفقت عباسی، اے آر بگھیو اور ڈاکٹر سریش کمار کو انعام کے طور پر باری باری سیکریٹری صحت کے کماؤ پوت عہدے بھی عطا کیے۔ ڈاکٹر منظور میمن کی اپنے خاص چیلے اور بعد میں رشتے دار بن جانے والے ڈاکٹر نوشاد شیخ پر تو عنایتوں، نوازشوں کی برسات رہی۔ انہیں پہلے ایم ایس سول اسپتال کراچی پھر پرنسل ڈاؤ میڈیکل کالج اور بعدازاں ان دونوں سے زیادہ کمائی والی پوسٹ سیکریٹری صحت پر تعینات کرایا۔ اسی منظور میمن کے توسط سے ڈاکٹرنوشاد شیخ سابق گورنرسندھ عشرت العباد کے پرنسپل سیکریٹری بھی بنے ۔
سندھ بھر میں تحصیل ا ور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال کی ری ہیبلی ٹیشن کے نام پراربوں کی کرپشن جاری،صوبے کے42ٹراما سینٹر میں سے اکثر غیر فعال
ذرائع کا کہنا ہے کہ منظور میمن نے اپنی کرپشن کی بنیاد پر قائم سلطنت کو فروغ دینے کے لیے تنWکا سہارا لیا۔ محکمۂ صحت میں تین ڈبلیو (Women Wealth, Wine) کی اصطلاح کا سہرا بھی کرپشن کے اس بے تاج بادشاہ کے نام باندھا جاتا ہے۔ اس سارے معاملے کا حیرت انگیز پہلو تو یہ ہے کہ ایک طرف تو محکمۂ صحت اپنے لیٹر ہیڈز پر Say No To Corruptionکا راگ الاپتا ہے تو دوسری جانب اس مقدس پیشے کو کرپشن کی غلاظت میں دھکیلنے والے ڈاکٹر منظور میمن، عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی اور کلبِ حسن رضوی جیسے افسران کو سر پر بٹھا کر رکھتا ہے۔
ڈاکٹر منظور میمن نے اپنے پیش رو ڈاکٹر شفقت عباسی، اے آر بگھیو اور ڈاکٹر سریش کمار کو انعام کے طور پر باری باری سیکریٹری صحت کے کماؤ پوت عہدے بھی عطا کیے۔ اپنے خاص چیلے اور بعد میں رشتے دار بن جانے والے ڈاکٹر نوشاد شیخ پر عنایتوں، نوازشوں کی برسات رہی۔ انہیں پہلے ایم ایس سول اسپتال کراچی بعدمیں پرنسپل ڈاؤ میڈیکل کالج اور پھر سب سے زیادہ کمائی والی سٹ سیکریٹری صحت پر تعینات کرایا۔ منظور میمن کے توسط سے ڈاکٹرنوشاد شیخ سابق گورنرسندھ عشرت
العباد کے پرنسپل سیکریٹری بھی بنے
محکمۂ صحت سندھ کو ہرسال ترقیاتی کاموں کی مد میں اربوں روپے ملتے ہیں جو اس کرپشن مافیا کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ پورے سندھ بھر میں تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال کی ری ہیبلی ٹیشن کے نام پراربوں روپے کی کرپشن کی جارہی ہے، سندھ بھر میں42ٹراما سینٹر بنائے گئے، ان کے لیے مشینری، طبی آلات اور دیگر اشیاء خریدی گئیں، لیکن ماسوائے چند ایک کہ کوئی بھی ٹراما سینٹر فعال نہیں ہوسکا اور کروڑوں روپے مالیت کی مشینری استعمال نہ ہونے کی وجہ سے زنگ کھا رہی ہے۔ تقریبا چار سال قبل سروسز اسپتال کراچی میں آرتھو پیڈک اور کارڈیولوجی کا وارڈ بنایا گیا، اس کے لیے مہنگی مشینری، سی ٹی اسکین مشین خریدی گئی، لیکن ابھی تک عوام کے استعمال کے لیے یہ سب اسپتال کے حوالے نہیں کی گئی۔