بڑے پیمانے کا بحران سروں پر!
شیئر کریں
جاوید محمود
اللہ سے دعا ہے کہ نیا سال 2025 پاکستانیوں کے لیے خوشیاں اور آسانیاں لے کر آئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 2024پاکستان کے لیے بڑا بھاری ثابت ہوا۔ اس سال بڑے پیمانے پرپاکستانیوں نے نقل مکانی کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ہزاروں پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دنیا بھر میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور اس بات کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے کہ اس رجحان میں مستقبل میں کمی ہوگی یا نہیں اور اب 2025کے آغاز میں دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک میں اہم سیاسی تبدیلیاں متوقع ہیں، جو ہجرت یا نقل مکانی کرنے والوں کی ترجیح میں سر فہرست سمجھے جاتے رہے ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جنوری میں بطور صدر اپنی دوسری مدت شروع کریں گے جبکہ جرمنی میں فروری کے آخر میں قبل ازوقت انتخابات متوقع ہیں۔ یہ انتخابات سخت امیگریشن پالیسیوں کی حامی جماعتوں کو برتری دلا سکتے ہیں ۔
2022 میں دنیا میں تقریبا سات ملین بین الاقوامی طلبہ تھے اور یہ تعداد تین دہائیوں سے بھی کم عرصے میں تین گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد دیگر ممالک میں مقیم 60لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں کو وطن واپسی کا موقع مل سکتا ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد کے روس فرار ہونے کے ابتدائی دنوں میں سرحد پر ان شامی باشندوں کی قطاریں لگ گئیں جو ترکی کی طرف واپس جانا چاہتے تھے ۔تا ہم یہ پیشنگوئی کرنا مشکل ہے کہ آیا یہ رجحان برقرار رہے گا اور سیکیورٹی کی صورتحال کیسے بدلے گی ؟اس لیے اس بارے میں غیر یقینی صورتحال ہے کہ شام میں مستقبل میں کس قسم کی حکمرانی ہوگی؟ امریکہ تارکین وطن کے لیے دنیا کا سب سے مقبول مقام سمجھا جاتا ہے اور 2016 کے صدارتی انتخابات میں اسی موضوع کو بہت مقبولیت ملی ۔باڑ کی تعمیر وہ نعرہ تھا جس کی گونج ٹرمپ کی ریلیوں میں باقاعدگی سے سنی جاتی رہی اور اس میں غیر قانونی آمدورفت کو روکنے کے لیے میکسیکو کی پوری سرحد پر ابتدائی رکاوٹ یا باڑ بنانے کے ٹرمپ کے وعدے پر زور دیا جاتا رہا تھا ۔صدارت کی اپنی پہلی مدت میں ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر ابتدائی رکاوٹ کی لمبائی میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے قابل نہیں تھے۔ تاہم انہوں نے دوسرے اقدامات کیے جن کے امیگریشن پر زیادہ ٹھوس نتائج برآمد ہوئے۔ جنوری 2017 میں صدر بننے کے بعد انہوں نے جو اولین کام کیے ان میں اکثریتی مسلم آبادی والے سات ممالک ایران ،عراق ،لیبیا ،صومالیہ سوڈان، شام اور یمن کے لوگوں پر سفری پابندیاں عائد کرنا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس پالیسی کو مسلم پابندی کا نام دیا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایک متنازع قانون بھی نافذ کیا جس کے تحت امریکی حکام کو سرحد پر مہاجرین سمیت تارکین وطن کو فوری طور پر ملک بدر کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے نفاذ اور جنوری 2021کے درمیان جب ٹرمپ کی صدارت کا دور مکمل ہوا، تب تک تقریبا چار لاکھ افراد کو حراست میں لے کر ملک بدر کر دیا گیا۔ اس سال ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں کے وعدوں میں سے ایک غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری رہا ہے ۔ٹرمپ نے کہا کہ یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے درحقیقت ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے منصوبے کے لیے امریکی فوج کو استعمال کرنے اور ایک قومی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔جرمنی کو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تارکین وطن ملک سمجھا جاتا ہے۔ فروری 2025میں جرمنی میں متوقع انتخابات کے بعد وہاں ایک نئی حکومت تشکیل دی جائے گی ۔حالیہ برسوں میں جرمنی میں افرادی قوت کو بھرتی کرنے کے لیے امیگریشن کو آسان بنایا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا امیگریشن مخالف دائیں بازوں کی جماعتیں اقتدار میں آنے سے یہ سب تبدیل ہو جائے گا۔ جرمن کونسل آف فارن ریلیشن میں سینیٹر فارمائیگریشن کی سربراہ وکٹوریا ریٹک نے کہا ہے کہ غیر قانونی نقل مکانی کو سخت کرنا جرمنی کی پارٹیوں خاص طور پر انتہائی دائیں بازو کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات یقینی ہے کہ یہ سیاسی ماحول فروری کے انتخابات کے بعد جرمنی کی امیگریشن پالیسیوں کو مزید سخت بنا دے گا اور یہ کہ نئی حکومت ممکنہ طور پر کرسچن ڈیموکریٹس کی قیادت میں ہوگی۔ اگرچہ جرمنی یا امریکہ میں امیگریشن زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہے ۔لیکن دیگر ممالک میں اضافی رکاوٹوں کا اطلاق ممکن نہیں ہے۔ یورپی یونین اور ایکوواس جیسے علاقائی ڈھانچے کے تحت نقل مکانی اور جنوبی ایشیا سے خلیج تک کا مرکزی راستہ بلا روک ٹوک جاری رہنے کا امکان ہے۔ آئی او ایم کی میری میک کہتی ہیں کہ جنوبی ایشیا سے خلیج تک عظیم راہداری جو کہ تقریبا مکمل طور پر کارکنوں کے لیے ہجرت کی منزل ہے اور اس کا تسلسل جاری رہے گا ،کیونکہ اس کی ضرورت اور طلب بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کی طرف سے امیگریشن سسٹم پر اعتماد کو مجروح کرنے کے لیے آن لائن ڈس انفارمیشن مہم بھی چل رہی ہے ۔بین الاقوامی نقل مکانی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ غلط معلومات کا تنازع نقل مکانی پر اعتماد کو کمزور کر رہا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگوں اور قدرتی آفات کی وجہ سے جو بحران پیدا ہوتا ہے وہ انسانوں کو نقل مکانی کرنے پہ مجبور کرتا ہے ۔ اگر عالمی سطح پر نقل مکانی پر روک تھام کی پالیسی بنائی گئی تو اس سے بڑے پیمانے پر بحران پیدا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔