کون بنے گا نیا وزیر اعظم ؟
شیئر کریں
پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک مرتبہ پھر حکومت کے خلاف تحریک پر غور کررہی ہیں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے آئندہ دو ماہ کے دوران پی ڈی ایم اپنے جلسے جلوسوں کے ذریعے دبا ئو بڑھانے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ 23؍ ما رچ کو مہنگائی کے خلاف اسلام آباد آباد کی جانب لانگ مارچ ہوگا ۔ 27 ما رچ کو خیبر پختون خواہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے اس لانگ مارچ کے ملتوی ہونے کے امکانات ہیں ۔دو سری جانب پیپلز پا رٹی پانچ جنوری سے پنجاب میں ایک بھرپور مہم کی تیاری شروع کرچکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین آ صف زرداری ایک ایسی حکمت عملی پر عمل کررہے جس کے ذریعے پنجاب کی تقریباً پچاس فیصد سے زائد نسشتوں پر آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی جائے ۔ادھر مسلم لیگ نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے تاکہ پنجاب پرایک مرتبہ پھر اپنی گرفت مضبوط کرکے ملک میں اقتدار حاصل کرلیا جائے۔
پختون خواہ کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد اپوزیشن کی جماعتوں خصوصاً جمعیت علمائے اسلام( ف) کے سربراہ کا حوصلہ بڑھ گیا ہے اور وہ بھی خود کو وزیر اعظم کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس مرتبہ وہ مسلم لیگ ن سے بھی ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس میں انہیں وزیر اعظم یا کم ازکم اقتدار میں بھاری حصہ دیا جائے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ان کا کوئی کام نہیں روکا جاتا تھا، وہ اپنی فائلوں کو آسانی سے وزیراعظم یا دیگر صوبائی حکومتوں سے منظور کرالیتے تھے ۔لہٰذا وہ اس سے کم کسی پوزیشن کے لیے آماہ نہیں ہونگے ۔ اپوزیشن کی جماعتوں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے لیے کسی نام پر متفق نہیں ہیں جس کی وجہ سے قومی اسمبلی کے ایوان کے اندر سے تبدیلی لائی جاسکے۔ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں متبادل وزیر اعظم کا نام پیش کرنا ہوگا،دوسری صورت پس پردہ معاملات ہیں۔اس کے لیے بھی جوڑ توڑ میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کی حمایت درکار ہوگی۔ پیپلز پارٹی ایسے ایک فارمولے کی تیاری کر رہی تھی کہ حیرت انگیز طور پر اچانک مولانا فضل الرحمان کے سخت رویے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم سے مجبوراً علیحدگی اختیار کرنی پڑی ۔ شاید خطے کے حالات کی وجہ ملک کی مقتدرہ قوتیں اور عالمی طاقتیں ایسی صورت حال کے لیے آمادہ نہیں تھیں لیکن اس مرتبہ پیپلز پارٹی ہر قوت کی آشیرباد سے میدان میں آنا چاہتی ہے۔
عمران خان کی حکومت مہنگائی کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو رہی ہے وزیراعظم عمران خان کو حقائق سے آگاہ نہیں کیا جاتا اور سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ ان کا عوام اور پارٹی کارکنوں سے رابطہ قریباً ختم ہو چکا ہے ۔ اس لیے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اپنی اپنی کامیابی کی امید نظر آرہی ہے لیکن مولانا فضل ا لرحمان بھی اس امید پر ہیں کہ کسی کی واضح اکثریت نہ ہوئی تو وہ وزیر اعظم بن جائیں گے ۔ ایسے حالات پیدا ہونے کی صورت میںشہباز شریف ، شاہد خاقان عباسی، چودھری پرویز الٰہی اور خورشید شاہ بھی وزیر اعظم کے امیدوار ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں برطانوی طرز کا جمہوری نظام صرف نام کا جمہوری نظام ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سابق صدر پرویز مشرف سے سوال کیا گیا کہ پاکستان میں جمہوریت کا کیا ہوگا تو انہو ں نے جواب دیا کہ جلد ہی جمہوریت کا لیبل بھی لگا دیا جائے گا۔ اس کے بعد انہوں نے انتخابات میں مسلم لیگ ق اورپیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو اسمبلیوں میں پہنچنے کا موقع دیا اور پہلے میر ظفراللہ جمالی ، چودھری شجاعت اور بعد ازاں شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنادیا گیا ۔بہر حال موجودہ جمہوری نظام میں عوام کی شرکت صرف ووٹ دینے کی حد تک محدود ہے ۔تقریباً تمام اہم سیاسی جماعتو ں میں شخصی یا خاندانی حکمرانی ہے۔ بلدیاتی اداروں کے پاس اختیار نہیں۔ ملک کے اہم ترین مسائل خصوصاً غربت ،بے روزگاری ،ناخواندگی ،بڑھتی ہوئی آبادی،ماحو لیاتی آلودگی ،صحت عامہ کے لیے ہسپتالوں اور دیگر سہولیات کی کمی،بجلی، گیس، پیٹرولیم کی مصنوعات اور اشیائے صرف کی ہوش ربا مہنگائی اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں کے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونے پر کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی ٹھو س منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ان مسائل کو صرف نعرے بازی کی حد تک استعمال کیا جاتا ہے ۔
کسی ملک کی بقا اور دفاع صرف معاشی اور سیاسی استحکام کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے لیکن اس وقت سیاست ذاتی مفادات کے ایسے بھنور میں ہے جس سے نکلنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ وزیر اعظم کی تبدیلی کے لیے بھی متبادل نام پر اتفاق نہ ہونا اس کی ایک معمولی سی مثال ہے۔ پاکستا ن میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے رسہ کشی کاموجودہ سلسلہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد سے جاری ہے ۔ملک بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں خطے کے حالات،پس پردہ طاقتور حلقوں اور بین الاقومی سیاسی منتظمین کا اہم کردار کار فرما ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ بات 2018 میں مولانا فضل الرحمان کو سمجھ میں نہ آ سکی اور انہوں نے اس وقت کے نو منتخب اراکین اسمبلی کو اسمبلیوں سے باہر رہنے اور حلف نہ اٹھانے کا عجب مشورہ دیا جو فوری طور پر رد کردیا گیا اور اب وہ مقتدر قوتوں کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں کہ انتخابی نتائج ان کی مرضی کے مطا بق ہوں۔ ساتھ ہی انہیں وزیر اعظم بنانے کی راہ ہموار کی جائے ۔ شا ید اب وہ سمجھ چکے ہیں کہ آئندہ کا سیاسی ڈھانچہ خطے کے حالات کی مناسبت سے وہی قوتیں طے کریں گی جو ہمیشہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکستان کے مخصوص جغرافیائی محل وقوع خصوصاً پڑوسی ممالک ایران ،افغانستان،چین اوربھارت کے حالات کے سبب دنیا بھر کی اہم قوتیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں دلچسپی رکھتی ہیں۔حال ہی میں روس اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری بھی ایک نئی صورت پید ا کر چکی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکا پاکستان سے اپنے روابط کو مزید استوار کرنا چاہتاہے موجودہ حالات میں آصف زرداری اور ان کی ٹیم نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر روابط تیز کردیے ہیں اور وہ اپنی پالیسی میں ایسی لچک دکھا سکتے ہیں کہ ہر شرط کو تسلیم کرلیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ بلاول کے لیے راہ ہموار ہو رہی ہے۔ لیکن دیگر کھلاڑی بھی اپنا دائو آزمارہے ہیں۔کوئی بعید نہیں کہ ایک اجنبی نام سامنے آجائے ۔