میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

ویب ڈیسک
پیر, ۴ جنوری ۲۰۲۱

شیئر کریں

سیاسی تحریکیں محض خدع و فریب پر زندگی نہیں کرسکتیں!پی ڈی ایم کا جاتی امراء اجلاس ناکام ہوا۔
حکومت اپنی ناکامیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ مگرایسی ناکام حکومت کے لیے بھی پی ڈی ایم کا سیاسی اتحاد کوئی بڑا خطرہ پیدا کرنے میں ناکام رہا۔ پی ڈی ایم کے دس جماعتی اتحاد میں محوری جماعتیں تین ہی ہیں۔نوازلیگ اپنے ارکان کی تعداد، پیپلزپارٹی اپنی سندھ حکومت اور جمعیت علمائے اسلام اپنے کارکنان کے بل بوتے پر ایک رونق میلہ لگائے ہوئے تھیں۔پی ڈی ایم کی جماعتوں نے خود ہی حکومت جانے کی مختلف تاریخیں دے رکھی تھیں۔ احتجاج کے آخری مرحلے کے اقدامات بھی ابتدائی مرحلے میں خود ہی واضح کردیے تھے۔ احتجاجی تحریک دراصل استعفیٰ مہم اور اسلام آباد میں دھرنے کے مرکزی نکات کے گرد گھوم رہی تھی۔ سارا زور دسمبر کے اواخر پر تھا۔ پی ڈی ایم قائدین نے جاتی امراء کے اجلاس سے قبل اپنے اگلے لائحہ عمل کے لیے یکم جنوری کے اجلاس پر زور دے رکھا تھا۔ مگر اس سے قبل ہی پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کے غبارے سے پیپلزپارٹی نے ہوا نکال دی تھی۔ موجودہ سیاسی بندوبست کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کے بعد پیپلزپارٹی ہی اٹھا رہی ہے۔

پیپلزپارٹی کے قائدین نے 27/ دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی میں نواز لیگ کی ”مدارالمہام“مریم نواز کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ بلاول بھٹو اپنی تاریخی حریف جماعت کے قائد کی بیٹی کے لیے سندھ کی سرزمین پر چشم براہ بنے رہے۔ پیپلزپارٹی موجودہ بندوبست میں زبردست رابطوں اور پہلے سے مفاہمت کی خبروں کے باوجود پی ڈی ایم کے اندر اپنی سیاسی طاقت کے ساتھ فعال رہی۔ مریم نواز نے زرداری یا بھٹو خاندان سے اپنے ذاتی روابط پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔یہ سب کچھ اس امید پر تھا کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم میں مطلوبہ کردار ادا کرنے پر تیار ہو جائے گی۔ مریم نواز نے گڑھی خدابخش کے جلسے میں جو خطاب کیا، اُسے نواز لیگ کے حمایت یافتہ صحافتی جتھے نے مبالغہ آمیز طور پر پیش کیا۔ ذرائع ابلاغ پر مریم کی پزیرائی سے لگ رہا تھا کہ گڑھی خدابخش کا اجتماع بلاول بھٹو کے لیے نہیں مریم نواز کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ سردوگرم زمانہ چشیدہ مولانا فضل الرحمان نے حالات کے تیور سمجھ لیے تھے، وہ اپنی جماعت کے لاڑکانہ میں موجود تنازع کو جواز بنا کر اس اجتماع سے علیحدہ رہے۔ مولانا اگر اس اجتماع میں جانا مناسب سمجھتے تو اُن کی راہ میں کوئی دلیل یا تنازع حائل نہ ہو سکتا تھا۔ مگر مریم نواز دوڑے دوڑے چلی گئیں!! نواز لیگ نے گزشتہ تین برسوں سے حالات کو سمجھنے میں مسلسل چوٹیں کھائی ہیں۔ یہ بھی ایک ایسی ہی چوٹ تھی۔ جس کا پول صرف دو روز میں کھل گیا۔

پیپلزپارٹی نے اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے فوراً بعد یہ واضح کردیا کہ وہ استعفیٰ مہم کا حصہ نہیں بن سکتی۔ اگرچہ اس فیصلے کے حوالے سے گرگ باراں دیدہ آصف علی زرداری کا ذہن گڑھی خدا بخش کے خطاب سے واضح ہوگیا تھا۔ مگر امید کے خلاف ایک امید نوازلیگ نے باندھی ہوئی تھی۔ پیپلزپارٹی کے لیے استعفوں کا فیصلہ ہر گز معمولی نہیں۔ وہ بلا شرکت غیرے سندھ حکومت چلا رہی ہے۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی اپنے سیاسی حصے کو ترک کرنے کی کسی بھی حکمت عملی کو موثر نہیں سمجھتی۔ چنانچہ یہ بھی تقریباً ناممکن ہے کہ پیپلزپارٹی مرکز سے استعفے دے کر علیحدہ ہو جاتی۔پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے استعفے نہ دینے کا جو فیصلہ سنائی دیا وہ توقع کے عین مطابق تھا۔ اس کے فوراً بعد یہ بھی خبر سامنے آگئی تھی کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو پی ڈی ایم کے اہم ترین اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے جاتی امرا نہیں جا رہے۔پیپلزپارٹی کا نوازلیگ اور جے یو آئی کے لیے پیغام واضح تھا: جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا!!

پی ڈی ایم کے جاتی امراء اجلاس سے قبل ایک چونکا دینے والا واقعہ ہوا۔ ایک روز قبل سابق وزیراطلاعات اور فنکشنل لیگ کے جنرل سیکریٹری محمد علی درانی اچانک مگر انتہائی خاموشی سے مولانا فضل الرحمان کی خدمت میں پہنچ گئے۔ انتہائی خاموشی سے اس ملاقات کی خبر اخبارنویسوں کو پہنچا دی گئی۔ جو فوراً اپنے کیمروں کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔ کیا یہ کوئی اتفاقی کھیل تھا؟ سوال یہ تھا کہ محمد علی درانی نے چند روز قبل نواز لیگ کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی تو یہ مولانا ہی تھے جو اس ملاقات پر معترض تھے۔ پھر مولانا نے محمد علی درانی سے عین جاتی امراء کے اجلاس سے ایک روز قبل یہ ملاقات کیوں ضروری سمجھی؟ کیا مولانا سنجیدگی سے سمجھ رہے تھے کہ نوازلیگ سے ایک طبقہ اور پیپلزپارٹی مجموعی طور پر اسٹیبلشمنٹ سے خاموش روابط میں ہیں؟ کیا یہ مولانا کی جانب سے ان جماعتوں کے لیے یہ تنبیہ تھی کہ مواقع اور امکانات اُن کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں؟ درحقیقت مولانا اپنے اسلام آباد کے نومبر 2019 کے تیرہ دنوں کے دھرنے کے حوالے سے پہلے سے ہی شاکی تھے کہ اس کا اصل فائدہ نوازشریف اور پیپلزپارٹی نے اُٹھایا تھا۔ اب مولانا اپنا کندھا ان جماعتوں کو دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ مولانا نے جاتی امراء اجلاس میں اس حوالے سے واضح شکوے بھی کیے جو ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث نہیں بن سکے۔

اب ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے جاتی امراء اجلاس سے قبل محمد علی درانی سے ملاقات کیوں کی۔ اپنا تناظر اور بہتر کرنے کے لیے یاد رکھنا چاہئے کہ مولانا نے جب2019 میں دھرنے سے قبل اپنا آزادی مارچ کراچی سے اسلام آباد کے لیے شروع کیا تو اُس وقت بھی یہی محمد علی درانی تھے، جو کراچی مولانا سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے۔تب محمد علی درانی نے اپنا قیام پیپلزپارٹی کے صوبائی وزیرامتیاز شیخ کی اقامت گاہ پر رکھا تھا۔گویا یہ رابطے نئے نہیں۔

اُدھر نوازلیگ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ مریم نواز نے استعفوں کا جو طوفان اُٹھایا تھا، وہ نوازلیگ کے اندر بھی کوئی خاص جادو جگا نہیں سکا۔ تمام آزاد ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ خود مسلم لیگ نون کے ارکان نے بھی استعفے دینے سے انکار کردیا ہے۔ نوازلیگ کے وہ قائدین جو لکیر کی دوسری جانب کھڑے ہیں اور مریم نواز کے ساتھ دکھائی نہیں دیتے، واضح لفظوں میں اُنہیں استعفے دینے سے انکار کرنے کے بجائے اُنہیں یہ باور کراتے رہے کہ استعفوں پراِصرار سے ایک فارورڈ بلاک بننے کا خدشہ ہے۔ لہذا یہ بوجھ منتخب ارکان پر نہ ڈالا جائے۔ مریم نواز ایک جنگ پارٹی کے اندر لڑ رہی ہے جو اس پر اپنا سخت کنٹرول چاہتی ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ازلی تعلق رکھنے والے رہنما ہیں، جو شہباز شریف کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مریم نواز کی طرف سے جلسوں میں لکھی ہوئی تقریروں سے پیدا کیاگیا شور اپنی جگہ، مگر زمینی حقیقتیں بالکل مختلف بہاؤ میں بہہ رہی ہیں۔مریم نواز کے لیے پارٹی پر اپنی گرفت ثابت کرنے کے لیے کم ازکم ایک دفعہ نوازلیگ کے تمام ارکان کے استعفے ہوا میں لہرانا ضروری ہو گیا ہے۔ مگر دوسری طرف حالت یہ ہے کہ جن دوارکان اسمبلی کے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس پہنچے تھے وہ بھی مریم نواز کی تاکید کے باوجود تصدیق کے مرحلے میں منحرف ہوگئے۔ یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ اگر پی ڈی ایم کی تینوں موثر جماعتوں کے اندرونی احوال کو دیکھا جائے تو وہاں داخلی انتشار کے دروزاے بھی کھلے ہیں۔ اس عالم میں پی ڈی ایم کوئی موثر قوت بننے کی صلاحیت سے دن بہ دن محروم ہوتا جارہا ہے۔ خود پی ڈی ایم جماعتوں کی باہمی گرمجوشی بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس پر طرہ اعتماد کا فقدان نئی نئی قیامتیں دکھا رہا ہے۔ یہ کیسا حکومت مخالف اتحاد ہے، جو اپنے اہم ترین اجلاس میں حکومت مخالف ایجنڈا دینے کے بجائے یہ فیصلہ کرکے اُٹھتا ہے کہ موجودہ حکومت کے بندوبست کو تقویت دینے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا جائے گا۔ حیدر علی آتش نے کہاتھا:

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیر ا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
٭٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں