دریائے نیل صرف مصر کا نہیں
شیئر کریں
(مہمان کالم)
تھم بیسافکوڈے
گرینڈ ایتھوپین ڈیم پر مصر، سوڈان اور ایتھوپیا کے مابین سیاسی کشیدگی تاحال جاری ہے۔ دریائے نیل پر 4ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والا یہ ہائیڈروالیکٹرک منصوبہ سوڈان سے 15کلو میٹر دور مشرق میں واقع ہے، اس کی تعمیر کا کام 2011ئ میں شروع ہوا۔ اس ڈیم کیلئے پانی بلیو نیل سے حاصل کیا جائیگا، جو کہ سوڈان، مصر اور ایتھوپیا کے مابین تنازع کی وجہ ہے۔ دریائے نیل کے دو معاون دریا ہیں، سفید نیل اور بلیو نیل۔ سفید نیل کا منبع روانڈا اور برونڈی کے درمیان واقع عظیم افریقی جھیلیں ہیں؛ بلیو نیل کا منبع ایتھوپیا کی جھیل ٹانا ہے اور دریائے نیل میں بہنے والے پانیوں میں 80فیصد حصہ جھیل ٹانا کا ہے۔
دریائے نیل کے پانی کے استعمال سے متعلق برطانیا، مصر اور سوڈان کے درمیان ہونیوالے معاہدوں میں ایتھوپیا سمیت دیگر افریقی ملکوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا تھا، جو کہ ایک تاریخی ناانصافی تھی۔ اس حوالے سے اہم ترین معاہدہ 1959ء کا نیل واٹرز ایگریمنٹ ہے، جس میں مصر اور سوڈان کے مابین یہ طے پایا کہ دریائے نیل میں بہنے والا پانی میں سے 18.5ارب کیوبک میٹرز سوڈان، 55.5ارب کیوبک میٹرز مصر استعمال کرے گا۔ اس معاہدہ کا دفاع کرتے ہوئے مصر نے کہا کہ دیگر افریقی ملک جہاں دریائے نیل بہتا ہے، بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہے، انہیں دریا کی پانی کی خاص ضرورت نہیں، سیلاب کے پانیوں کو فائدہ اٹھانے کے لیے وہ ڈیم بنا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر فریق ملکوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم غیر متوقع ہو چکے ہیں۔
ایتھوپیا کی معاشی شرح نمو مسلسل بڑھ رہی ہے، ایتھوپیا تیزی سے ترقی کرنیوالی افریقی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ چین سمیت مختلف ملکوں کی ایتھوپیا میں بڑھتی سرمایہ کاری وجہ سے توانائی کی ضروریات مسلسل بڑھ رہی ہیں، جنہیں پورا کرنے کے لیے ایتھوپیا قدرتی ذرائع پر انحصار کر رہا ہے، جس میں دریائے نیل شامل ہے۔ افریقی یونین اور یونائیٹڈ نیشنز اکنامک کمیشن برائے افریقہ کے ہیڈکوارٹرز بھی ایتھوپیا میں ہے، جس کی وجہ سے افریقی سفارت کاروں کی بڑی تعداد مستقل طور پر ایتھوپیا میں مقیم ہے۔ مصر کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ آج اس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ایتھوپیا پر بآسانی دباؤ ڈال سکے۔ آج کے ایتھوپیا کی مضبوط فوج ہے، جو کہ صومالیہ میں باغیوں کیخلاف برسرپیکار ہے۔ افریقہ کے علاوہ دنیا کے مختلف ملکوں میں بطور امن فورس ایتھوپیا کے فوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایتھوپیا کے منتخب صدر ابی احمد نوبل انعام یافتہ اور ایک فعال شخصیت ہیں۔ وہ قرن افریقہ کے ملکوں کی گورننس بہتر بنانے کے لیے علاقائی تعاون کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اریٹیریا کے صدر ایساس افورقی کے ساتھ امن معاہدے پر انہیں دنیا بھر میں پذیرائی ملی، جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مابین طویل عرصہ سے جاری تنازع کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی۔
ایتھوپیا معاشی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہا ہے۔ ایتھوپیا کی ایئر لائن کمپنیاں ملک کا فخر، ادیس ابابا کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ افریقہ کا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔ گرینڈ ایتھوپین ڈیم ایتھوپیا کی معیشت اور سیاسی استحکام کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اہل ایتھوپیا کو اس بات پر فخر ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر کے لیے زیادہ تر فنڈز انہوں نے اپنے وسائل سے پیدا کیے۔ ایتھوپیا کے قوم پرستوں کے لیے یہ ڈیم ایک نعرے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا ردعمل تباہ کن اور ایسی کوشش علاقائی استحکام کیلئے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
ایتھوپیا نے اس ڈیم کو بھرنا شروع کر دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اس پر مصر اور سوڈان کا ردعمل کیا ہو گا کیونکہ دونوں اس ڈیم سے براہ راست متاثر ہوں گے۔ سوڈان اور مصر کے لیے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ دریائے نیل کے کناروں پر واقع دیگر ممالک اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ڈیم بنانے پر غور کر رہے ہیں۔ یوگنڈا کو دریائے نیل پر 1.4ارب ڈالر کی لاگت سے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ لگانے کا لائسنس جاری کرنے کی درخواست موصول ہو چکی ہے۔ دریائے نیل کے کنارے پر واقع دیگر ملکوں میں تنزانیہ، جمہوریہ کانگو، جنوبی سوڈان، برونڈی، کینیا اور روانڈا شامل ہیں۔
گرینڈ ایتھوپین ڈیم کی تکمیل مصر اور سوڈان کے لیے ایسے مستقبل کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے جس کے بارے میں فی الوقت کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ مصر کو ایتھوپیا کے ساتھ بات چیت کر کے ایسی ڈیل کرنے کی ضرورت ہے جو کہ مستقبل میں دریائے نیل کے دیگر ملکوں کے ساتھ بات کے لیے ایک مثال کے طور پر استعمال ہو سکے۔ اس سلسلے میں اہل مصر کو ایتھوپیا اور دیگر صحارائی ممالک سے متعلق اپنا نسل پرستی پر مبنی رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ مئی 2016ء میں اقوام متحدہ کے ماحولیات سے متعلق ادیس ابابا میں ہونیوالے اجلاس میں افریقی سفارتکاروں نے اس وقت سخت احتجاج کیا جب مصری وفد کے سربراہ محمد ہاشم شوئیر نے تمام سیاہ فام باشندوں کو کتے اور غلام قرار دیا۔ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں سیاہ فاموں سے متعلق یہ سوچ آج تک پائی جاتی ہے۔ مصری رہنماؤں کو اپنا دھمکی آمیز رویہ بھی بدلنے کی ضرورت ہے جو کامیاب مذاکرات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مصری صدر السیسی نے گزشتہ سال دسمبر میں فنانشل ٹائمز کو انٹرویو کے دوران کہا: ’’دریائے نیل اہل مصر کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘۔ مصر کے واحد منتخب صدر محمد مرسی کی گفتگو بھی انتہائی دھمکی آمیز ہوا کرتی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا ’’اگر دریائے نیل میں پانی کا قطرہ بھی کم ہوتا ہے، وہ کمی ہمارے خون سے پوری ہو گی‘‘۔
آج کے دور میں سیاسی ناانصافی کے خلاف ’’سیاہ زندگی اہم ہے‘‘ کے نعرے کیساتھ دنیا بھر میں تحریک چل رہی ہے۔ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ڈیم کی تعمیر ایتھوپیا کا حق ہے، جس کی تمام افریقی ممالک، افریقی یونین اور عالمی سطح پر سیاہ فام کیمونٹی کھل کر حمایت کرے گی۔ مصر کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اپنے لوگوں کے بہترین مفاد میں ماضی کے معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایتھوپیا کیساتھ نئے سرے سے غیر مشروط مذاکرات کرنا ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔