میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لاشوں پر سیاست بند کریں

لاشوں پر سیاست بند کریں

منتظم
جمعرات, ۴ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

سید شجاعت حسین
ڈاکٹر طاہر القادری نے بلاآخر تمام اپوزیش جماعتوں کو شہداء ماڈل ٹاؤن کو انصاف دلانے کے لیے اکٹھا کر لیا اور اعلان کیا کہ اب یہ شہداء ڈاکٹر طاہر القادری کے نہیں بلکہ ان تمام جماعتوں کے ہیں جو آل پارٹیز کانفرس میںشریک ہیںیعنی تمام جماعتوں کو ان شہداء کے نام پر باقاعدہ سیاست کا اختیار کا سرٹیفیکٹ فراہم کر دیا۔نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سیاست میں ماسوائے شہداء کے ہمارے پاس ووٹ کے حصول کے لیے کچھ نہیں ہم نے جب بھی سیاست کی عوام کے جذبات کو ابھار کر کی اور جو لوگ اس دنیا سے جا چکے ہیں ان کی تصاویر کو کیش کروا کر کی جن لوگوں کی زندگی میں ہم نے قدر نہیں کی ان کا ہی نام استعمال کیا گیا ۔سیاسی جلسوں پر خوبصورت ا سٹیج کے پیچھے ایسی ہی تصاویر کی بھر مار اور ان لوگوں کے بارے میں قصیدے ہی عوام کو سنا کر ان کی ہمدردی حاصل کی جاتی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد شہد ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو آج بھی ان کی پارٹی کا رول ماڈل جلسوں کی حد تک ہیں ان کی تصاویر کو دیکھا کر ان کے نظریات کو بیان کر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے کیا پوری پارٹی کا ایک بھی زندہ انسان ایسا نہیں جو اپنا پروگرام بیان کر سکے کوئی ایسا پلان بتا سکے جس پر چل کر اس ملک کے مسائل کا حل اور عام انسان کی تکالیف کا مداوا ممکن ہو بلا شبہ ایسے قابل انسانوں سے یہ ملک بھر اہوا ہے مگر ماروسی سیاست کے علمبردار کسی اور فرنٹ سے لیڈ کرتا نہیں دیکھ سکتے ۔

پاکستا ن تحریک انصاف جس کی لیڈر شپ سے نوجوانوں کو امید سحر ہوئی مگر یہ خوشی اس وقت خاک میںمل گی جب ان کے مینار پاکستان کے کامیاب جلسے کے بعد مفاد پرست ،موقع پرست اور دوسری جماعتوں سے نکالے گے سیاست دانوںنے اس پارٹی کو جوائن کرنا شروع کیا جن لوگوں نے عمران خان کو اس مقام پر پہنچانے میںکلیدی کردار ادا کیا ان کے جذبات اور قربانیوں کو پسِ پشت ڈال کر عمران نے ایسے سیاسی لوگوں کو نا صرف پارٹی میں جگہ دی بلکہ ان کو اہم ذمے داریوں کے لیے منتخب کر کے ان لاکھوں افراد کے ساتھ ناانصافی کی جو انصاف کی تحریک لے کر چلے تھے۔پاک سر زمین پارٹی کے مصطفی کمال نے بھی آتے ہی لچھے دار گفتگو سے عوامی جذبات کی ترجمانی کی اورپاکستان کی آواز بننے کا دعوی کیا مگر کراچی جلسوں میں کراچی کی آواز کانعرہ ہی باقی رہ گیا ہے انہوں نے بھی قادری ایکسپریس کو ہی اپنی آنے والی سیاست کا محور بنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ الطاف بھائی کی تصویر اب خوف اور جیت کی نہیں عبرت کی علامت ہے لہذا ایسے میں بغیر ٹکٹ انہیں قادری ایکسپریس کا ملنا خوش آئند ہے۔

عوامی مسلم لیگ جو کہ ایک چوتھائی سیٹ کی پارٹی ہے مطلب اگر اسے تحریک انصاف کی حمایت حاصل نہ ہو تو اس کے لیے سیٹ نکالنا محض خواب ہو شیخ رشید موصوف ہر وقت یا کسی چینل کی کال کے منتظر ہوتے ہیں یا کنٹینر کی سواری کی تلاش میں ہوتے ہیں جس پر سوار ہوکر وہ نواز شریف سے اس بات کابدلہ لے سکیں کے ان کو واپسی پارٹی میںکیوں نہیں لیا گیاموصوف نواز فوبیہ میں بری طرح سے مبتلا ہیں۔مسلم لیگ (ق)کی تکلیف شیخ رشید احمد سے قدرے مشترک ہے ان کو حکومت کا کوئی کام مثبت کیسے نظر آسکتا ہے وہ کوئی بڑا شو آف پاور کی صلاحیت نہیں اور نہ ہی ان کے کریڈٹ میں ایسے امیدوار ہیں جو سیٹیں نکال سکیں تو وہ کسی ایسے حادثے کے منتظر ہیں جس کے نتیجہ میں انہیں مشرف دور کی طرح حکمرانی مل جائے اس لیے ہر اس گیم کا وہ حصہ بن جاتے ہیں جس سے حکومت کے جانے کی کوئی امید بن سکے امسلم لیگ (ق)حالات خراب کر کے سائیڈ پر ہونے کے ہنر سے بخوبی آشنا ہے ۔ جماعٹ اسلامی جن کو اس پارٹی میںشمولیت تو نظر آئی مگر ان اظہار رائے کے لیے ٹائم دینے کا موقع نہیں مل سکا جس سے شاید ان کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہوگا۔دوسری طرف دینی جماعتوں کو بھی اظہارے رائے کا موقع نہ مل سکا۔اس کانفرس میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوموٹو ایکشن کی اپیل کی ڈیمانڈ اور قانون کی حکمرانی کی بات کی گئی مگر اس کانفرنس کا انعقاد کرانے والے ڈاکٹر طاہرالقادری خود انہیں عدالتوں کے بلانے پر پیش نہیںہوتے جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین بھی عدالتوں سے عدم حاضری پر اشتہاری قراردئیے جا چکے ہیںدوسری طرف شہداء ماڈل ٹاؤن سے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بس اتنی مخلص ہیں ان سمیت کسی بھی جماعت کی اعلی سطح کی قیادت نے شرکت نہ کی جس کی وجہ سے ڈاکٹر موصوف کی آصف زرداری اور عمران خان کو دائیں پائیں بیٹھانے کی خواہش پوری نہ ہوسکی جن عہدیداروں کو بھیجا گیا ان کے اختیارات اس حد تک محدود دکھائی دیئے کہ بات سن کر آجاؤاسٹیرنگ کمیٹی کے نامزد کردہ افراد کے ہاتھ میں کسی پارٹی کااسٹیرنگ نظر نہیں آتا۔

ساڑھے چار سال تک انصاف کے لیے جنگ کرنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ اس دوران کیوں کسی اور پارٹی کے دل میںشہداء کے لیے محبت نہیں جاگی چار ماہ بعد جب حکومتی بنچوں پر برجمان افراد اپنے عہدوں سے سکبدوش ہوں گے تو کیا پاکستان میں اس وقت جنگل کا قانون ہوگا۔ختمِ نبوت کے ایشو پر پاک آرمی نے حالات کی نزاکت کااندازہ کرتے ہوئے بروقت اور درست فیصلہ سے ملک کو بہت بڑے سانحے سے بچایااب ایک اقتدار کی ہوس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے نام پر ایک اور سازش کا آغاز ہوچکا ہے کیا اتنی مضبوط اپوزیشن اگر اتنی ہی شہداء سے مخلص ہے تو اس اتفاق کولے کر آنے والے الیکشن میں جا کر حکومتی بنچوں پر پہنچ کر اقتدار حاصل کر کے موجودہ اربابِ اختیار کااحتساب نہیں کر سکتی ؟یقینی طور پر یہ ممکن ہے مگر پاکستان میں ایسا ہونا ناممکنات ہے کیونکہ موجودہ اتحاد میں لاشوں پر سیاست کر کہ سینٹ کے الیکشن سے پہلے حکومت گرانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیںناجانے کب تک اس پڑھی لکھی اور جذباتی قوم کے ان پڑھ حکمران اقتدار کی ہوس میں لاشوں کی سیاست کرتے رہیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں