میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اندھا بھینسا اور بیوقوف امریکا

اندھا بھینسا اور بیوقوف امریکا

منتظم
جمعرات, ۴ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

عبداللہ قمر
امریکی صدر کے بیانات سے اس بات کی جھلک نظر آتی ہے کہ امریکا کی حالت اس وقت ایسے بھینسے کی مانند ہے جو پہلے تو اپنی طاقت کے بل بوتے دندناتا پھرتا رہا ہو مگر بعد میں اس پر قابو پا لیا گیا ہو۔ اور اب وہ نیم پاگل کی سی حالت میں جو بھی حرکت کرتا ہے وہ اس کے خلاف ہی جاتی ہے۔ وہ جب بھی زور آزمائی کرنے کی کوشش کرتا ہے، منہ کی کھانی پڑتی ہے یا پشت پر ڈنڈو ں کی برسات ہو جاتی ہے۔امریکی صدر نے ایک ٹویٹ کی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ” امریکا نے بیوقوف بن کر گزشتہ پندرہ سالوں میں پاکستان کو 33 بلین ڈالرز سے زائد کی امداد دی ہے، لیکن پاکستان نے صرف جھوٹ اور دھوکہ دیا ہے "۔امریکی صدر کے اس ٹوئیٹر پیغام کے بعد میڈیا پر یہ تاثر دیا جانے لگا کہ اس پہلے امریکا کی جانب سے ایسا کوئی ردِّ عمل یا ایسی کوئی پالیسی نہیں اپنائی گئی۔ یہاں ہمیں ایک بات واضح کر لینی چاہیئے کہ امریکا پالیسی وہی بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز میں بات کی ہے وہ "ڈپلومیٹک” نہیں ہے۔ وگرنہ امریکا پالیسی یہی امریکا آپ کو کبھی بھی ایک مضبوط ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا۔

امریکا شاید تاریخ بھول چکا ہے یا پھر وہاں آج کل صرف 11/9 کے بعد کی تاریخ پڑھی جاتی ہے۔ طاقت کے نشے میں چور امریکا بھول چکا ہے کہ پاکستان افغانستان میں روس کو شکست نہ دیتا تو وہ کبھی نام نہاد سپر پاور نہیں بن سکتا تھا لیکن اس کے باوجود امریکا نے پاکستان میں دہشت گردی اور انتشار کے ذمے دار بھارت کے ساتھ اپنی قربتیں بڑھائیں۔وہ بھارت جس نے پاکستان کے اندر کلبھوشنوں کو بھیجا، جس نے ہمارے بچوں کو قتل کیا اور جس نے ہمارے گھر امن برباد کیا۔ صرف یہی نہیں امریکا نے کئی ایک مواقع پر ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ سوال تو ہمیں کرنا چاہیے کہ کیا یہ صلہ ہے امریکا کی مدد کرنے کا۔دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے اندر امریکا بری طرح شکست و ذلت سے دو چار ہے اور اپنی ناکامی کے زخم چاٹ رہا ہے۔امریکا کی خواہش تھی کی اس شکست کا بوجھ پاکستان اٹھائے مگر پاکستان نے اس بات سے صاف انکار کر دیا ہے۔ایک تو پاکستان نے امریکا کی یہ حکم عدولی کر ڈالی ہے۔ دوسری ناگزیر حرکت یہ کی کہ امریکا کی منافقت اور دشمنی سے بد تر دوستی کی وجہ سے امریکی اتحادیوں کی صف سے پیچھے ہٹنا شروع کریا ہے۔

در اصل آپ نے امریکا کی اس حکمتِ عملی کو ناکام کر دیا ہے کہ ان بیوقوفوں ( جیسا کہ امریکی صدر نے کہا ) کا ارادہ تھا کہ افغانستان کا بوجھ پاکستان پر ڈال کر اپنے دم چھلے بھارت کو خطے کا ٹھکیکدار بنا کر یہاں سے نکل جائیں گے۔در اصل یہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے امریکا برہم ہے اور بے بس و لاچار بھی۔ اب وہ پاکستان کو امداد بند کرنے کی دھمکی دے کر ڈرانا چاہتا ہے اوردباؤ ڈال کر اپنے مطابات منوانا چاہتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے پاکستان نے واضح طور پر پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ ہمیں امریکی ڈالروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہاں ایک تیسری توجہ طلب بات اور ناقابلِ فراموش بات یہ بھی ہے کہ امریکیوں کو اس بات کا شدید غم و غصہ ہے کہ آپ چائنا ساتھ مل کر” اکنامک کوریڈور” بنانے جا رہے ہیں۔اور بلا شبہ اس میں چائنا کا بھی بہت ذیادہ فائدہ ہے جو کہ چین کی معیشت اور مضبوط تر کر دے گا اور امریکا کے لیے چین کا ایک عالمی قوت بن کر ابھرنا ناقابلِ برداشت ہے۔ اس حوالے امریکا جس بات کا پاکستان سے تقاضا کر رہا ہے وہ ناممکنات میں سے ہے کہ پاکستان یہ سی پیک کا منصوبہ بند کر دے اور چین کو مجبور کرے وہ وہی لمبا راستہ استعمال کرے۔آج بھی مجھے امریکا کے متعلق جنرل حمید گل صاحب کے وہ الفاظ یاد ہیں کہ”امریکا ایک بھیڑیا ہے جس نے ہمیشہ ہمیں کاٹا”۔ شاید ہمارے حکمرانوں کو یہ بات بہت دیر سمجھ آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب ہمارے سیاستدانوں کو بھی امریکا کی اندھی تقلید سے نکل آنا چاہیے کہ جسے امریکا دہشت گرد کہے ہم اسے دہشت گرد مان لیں، امریکا جسے کہے کہ بند کر دو ہم اسے بند کر دیں۔

اشاروں کناروں کا سہارا لینے کی بجائے میں سیدھی بات کرنا چاہوں گا کہ امریکا انڈیا کو خوش کرنے کے لیے آپ جو کہا آپ نے مان لیا اور حافظ محمد سعید کو بنا کسی ثبوت دس ماہ نظر بند رکھا اور سلام ہے اس شخص کی ہمت کو جس نے ملک کی سلامتی اور امن کے واسطے سب کچھ برداشت کیا۔بہر کیف اب وہ عدالتوں سے ایک مرتبہ پھر با عزت بری ہو گئے ہیں۔لیکن اب دوبارہ پھر ان جماعت اور فلاحی ادارے (فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن) کی ریلیف سرگرمیاں روکنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔اگر اب ایسا ہوا تو کسی زیادتی بلکہ ظلم سے کم نہ ہو گا کہ آپ بلا وجہ محض امریکا کو خوش کرنے کے لیے ایک جماعت کو مسلسل نشانہ بناتے چلے جائیں بلکہ واضح چور پر امریکا کو پیغام جانا چاہیئے کہ بنا ثبوتوں کے ہم ایک پاکستانی شہری کو بند نہیں کر سکتے۔پاکستان اس وقت ایسے موڑ پر آن کھڑا ہوا ہے کہ ہمیں مضبوط فیصلے کرنا ہونگے۔اور یہ فیصلے قومی مفاد کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کرنا ہونگے وگرنہ موجودہ لوگ آنے والی نسل کو جواب دہ ہوں گے۔اللہ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور حکمرانوں کو ملک کے مفاد میں صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں