قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس
شیئر کریں
قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ روز ہونے والے ہنگامی اجلاس میں امریکی صدر کے بیان کا جائزہ لینے کے بعد اس حوالے سے جوابی حکمت عملی تیار کرنے سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے شرکا نے اعلان کیا کہ امن کے قیام کے سلسلے میں ان کا عزم غیر متزلزل ہے‘ دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کی گئیں‘ پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی خفیہ ٹھکانہ نہیں‘ امریکا افغانستان میں ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اجلاس میں وزیر دفاع، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف ا سٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، مشیر قومی سلامتی اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان سمیت اعلیٰ سول و عسکری حکام شریک ہوئے۔ سیاسی اور فوجی قیادت نے قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں جو موقف اختیار کیا‘ وہ صائب‘ بروقت اور حالات اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ نامساعد حالات پر قابو پانے کے لیے دراصل ایسی ہی ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عزم اور یہ جذبہ پاکستانی قوم میں ہمیشہ موجزن رہا ہے۔ اجلاس کا پیغام واضح ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت کچھ کیا‘ اب امریکا اور عالمی برادری بھی ان کوششوں کا حصہ بنے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے پہلے پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے جاری کردہ ٹویٹر پیغام میں بتایا گیا کہ جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرِ صدارت کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے شرکا نے خطے کے ا سٹریٹیجک ماحول اور قومی سلامتی کی داخلی صورتحال پر غور کیا۔ کانفرنس نے ٹرمپ کے بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کے لیے اور وزیر اعظم کی جانب سے ہنگامی طور پر طلب کردہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے لیے پاک فوج کے موقف پر غور بھی کیا۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکی لب و لہجے پر ہر ادارہ اپنی اپنی سطح پر سوچ بچار کر رہا ہے۔ چین کی جانب سے ایک بار پھر ٹھنڈی ہوا آئی ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ دنیا کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے اقدامات کو سراہنا چاہیے۔ ترجمان جینگ شوانگ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں بڑی قربانیاں بھی دی ہیں۔ چین کا خوش آئند بیانیہ پاکستان کے موقف سے قریب تر ہے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ اس نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے سب سے زیادہ اقدامات کیے اور سب سے زیادہ قربانیاں دیں‘ جانی بھی اور مالی بھی۔ پاکستان کی ان قربانیوں کا عالمی سطح پر ادراک اور اعتراف کیا جانا چاہیے‘ لیکن اعتراف کرنے کے بجائے امریکی صدر الٹا پاکستان کو بار بار مطعون کر رہے ہیں۔ کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ تین روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک دھمکی آمیز بیان میں کہا تھا کہ 15 برسوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی امداد دے کر ہم نے بے وقوفی کی‘ لیکن اب اسے کوئی امداد نہیں دی جائے گی۔
ٹویٹر پر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام عائد کیا تھا کہ ہم پاکستان کو بھاری امداد دیتے رہے لیکن دوسری جانب سے ہمیں جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں دیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی ہمارے رہنماووں کو بے وقوف سمجھتے رہے‘ وہ ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں جن کا ہم افغانستان میں تعاقب کر رہے ہیں، تاہم اب ایسا نہیں چلے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ پہ واضح کیا جائے کہ امریکا نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے جتنی امداد فراہم کی‘ ہمارے ملک کے اس مہم پر اس سے چار گنا زیادہ خرچ ہوئے۔ ان مجموعی اخراجات کے مقابلے میں امریکی امداد مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہے‘ اس پر مستزاد یہ کہ احسان جتایا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں نہ صرف فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کیا بلکہ افغانستان میں القاعدہ کے خلاف نبرد آزما اتحادی افواج کو سامان کی ترسیل کے لیے لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی اور اس کے عوض ایک پیسہ تک امریکی انتظامیہ سے وصول نہیں کیا۔ امریکی صدر نے جتنی امداد فراہم کرنے کا احسان جتایا‘ اس سے زیادہ تو امریکی کنٹینرز کی وجہ سے پاکستان کے مواصلاتی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اور خاموشی سے دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے کی گئی ان ساری کوششوں اور قربانیوں کا حاصل یہ ہے کہ صدر ٹرمپ امریکا کی افغانستان میں ساری ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جو مناسب نہیں ہے۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما بھی اپنے باہمی اختلافات ایک طرف رکھ کے امریکی صدر کی دھمکی کے خلاف ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ ٹویٹ نے تمام سیاسی مخالفین سمیت پوری قوم کو ہم خیال اور یک زبان کر دیا۔ سیاسی قیادت امریکی صدر کے خلاف ایک پیج پر آ گئی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حکومت اور فوج ہی نہیں‘ ملک بھر کی سیاسی قوتیں اور عوام بھی امریکی صدر کے دھمکی آمیز بیانات کے خلاف دفاع وطن کے لیے پْرعزم ہیں۔ (تجزیہ :بی این پی)