میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دھمکیاں،گالیاں مذاکرات ساتھ نہیں چل سکتے ،حکومت کاعمران خان کوجواب

دھمکیاں،گالیاں مذاکرات ساتھ نہیں چل سکتے ،حکومت کاعمران خان کوجواب

ویب ڈیسک
هفته, ۳ دسمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی مشروط پیشکش پر دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات پیشگی شرط کے بغیر ہوں گے،دھمکیاں بہتان گالیاں اور مذاکرات اکٹھے نہیں چل سکتے ،مذاکرات کا ماحول بنانا پڑتا ہے ، مذاکرات ان کی ضرورت ہے ہماری ضرورت نہیں ، تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر معاملہ پی ڈی ایم میں جائے گا اور وہیں حتمی فیصلہ ہونا ہے ، اگر چار صوبوں کا حکمران ایڈونچر کرنا چاہتا ہے تو کر لے ،ہم راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کریں گے یہ بھول جائیں کہ ہم ان کا بازو پکڑیں گے ، روکنے کی کوشش کریں گے ، اگر یہ اسمبلیاں توڑنا چاہتے ہیں تو توڑ لیںہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے ،اگر آپ نے اسمبلی توڑی تو بے آسرا آپ نے ہونا ہے ، دو صوبائی حکومتوں اوردو ریاستی حکومتوں پر آپ کاخرچہ چلتا ہے ، آگر آپ آئینی بحران پیدا کریں گے تو ہم آپ کو ایسا نہیںکرنے دیں گے ، ان شا اللہ ملک میںکوئی آئینی بحران پیدا نہیںہوگا، جو بھی ہوگا آئین و قانون کی پیروی کی جائے گی، سندھ ،بلوچستان کی اسمبلی اور قومی اسمبلی موجود رہے گی۔ ماڈل ٹائون میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدار ت پارٹی کی سینئر قیادت کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں عمران خان کی مشروط مذاکرات کی پیشکش کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ، عطا اللہ تارڑ اور ملک محمد احمد خان کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دی ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عمران خان نے مذاکرات کی جو پیشکش کی ہے اس کا حتمی فیصلہ پی ڈی ایم اتحادی مل کر کریں گے ۔ عمران خان نے جو دھمکی آمیز پیشکش کی ہے اس پر بات کرنے سے پہلے ماضی میں جھانکنا ضروری ہے ۔ جب موجودہ حکومت کاپہلا قومی اجلاس کاہوا تھا تو اس وقت کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی کیونکہ ملکی معیشت کو مزید ہچکولے نہیں ملنے چاہئیں، یہ پیشکش متحدہ اپوزیشن نے دی تھی لیکن عمران اور ان کے ساتھیوں نے اس کا مذاق بنایا ،تماشہ اڑایا گیا تھا اور اس کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا ، اس کے بعد یہ پونے چار برس وفاق میں حکمران رہے ،فیٹف کے معاملے اور دیگر حسا س معاملوں پر قانون سازی اورملکی مفادات کی بات آئی تو ہم نے اس وقت کی حکومت کے ساتھ تعاون کیا لیکن ہمیںہر بار طعنے سننے کو ملے اور این آر او کا طعنہ دیا گیا حالانکہ عمران خان این آر او دینے کے قابل ہی نہیں تھے،موصوف کا حال یہ تھا ان میں نفرت اتنی بھری ہوئی تھی کہ یہ پہلا وزیر اعظم تھا جو نشستیںپھلانگ کر اپنی نشست پر پہنچتا تھا تاکہ اپوزیشن سے آنکھیں نہ ملائی جا سکیںاور سلام دعا کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،پونے چار سال اس نے کسی سے سلام لیا نہ دیکھنا گواراہ کیا ، اس میں عجیب فرعویت تھی ،ایسی فرعویت نہ کبھی دیکھی تھی نہ سنی تھی ،اس ملک میں مارشل لاء بھی رہے ہیں لیکن اس نے سب کے ریکارڈ توڑ دئیے ۔ ملک میں آئینی جمہوری تبدیلی سے اس کا دور ختم ہوا تب سے عمران خان ، ان کے سہولت کار اور ساتھیوں نے سازشیں شروع کیںلیکن انہیں ہر بار ناکامی ہوئی ،جتنی دھمکیاں دی ہیں سب گیدڑ بھبھکیاں ثابت ہوئی ہیں، اس میں ہماری کوئی مہارت نہیں بلکہ یہ قدرت کا وبال ہے ،جو کسی کی پگڑی اچھالے خود نالائق اورکرپٹ بھی ہو ہر برائی اپنے اندر موجود ہے لیکن انہیں مخالفین پر عائد کر دے تو ایسا شخص قدرت کے غضب کا شکار ہوتا ہے ،عمران خان ،سہولت کار اور ان کے ساتھی مکافات عمل کا شکار ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں