میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ثمربار یا بے ثمر دورہ

ثمربار یا بے ثمر دورہ

ویب ڈیسک
هفته, ۳ دسمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

پاکستان کے افغانستان سے اعلیٰ سطحی روابط ایسے حالات کے باوجود قائم ہیں جب اکثرممالک طالبان سے فاصلہ رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور طالبان رہنمائوں کوپاکستان میں ایک آزاد و خودمختار ملک کے حکمرانوں جیساعزت و احترام دیا جاتا ہے لیکن ایک اور سچ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے سفارتی اور دوستانہ روابط کے باوجود سب اچھا نہیں ہے بدگمانیاں اور شکوے شکایات بھی ہیں حالانکہ پاکستان نے عالمی سطح پر افغانستان کے منجمد اثاثے جاری کرنے کی باقاعدہ مُہم شروع کر رکھی ہے پھربھی طالبان کا اعتماد حاصل نہیں اسی وجہ سے مغربی سرحد کے آس پاس نہ صرف بدامنی ہے بلکہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد جوپاک افغان تعلقات میں بہتری کی توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو سکی پاکستان نے نہ صرف افغان امن عمل کی حمایت کی بلکہ طالبان کو اقوام متحدہ میں نشست دلانے اور تسلیم کرانے کی مخلصانہ کوششیں بھی کیں مگر طالبان نے خلوص کا جواب خلوص سے نہیں دیاشاید طالبان نے محض کام لینے کی غرض سے روابط قائم کر رکھے ہیں اِس رویے یا طرزِ عمل کو دوستانہ نہیں خودغرضانہ ہی کہہ سکتے ہیں۔
طالبان کوافغانستان میں کچھ خاص کامیابیاں حاصل نہیں ہو سکیں بلکہ ایک سے زائد سیاسی قوتوں کی بداعتمادی برقرار اور ملک میںمکمل امن کا خواب ہنوز تشنہ تعبیر ہے بم دھماکوں کے علاوہ دیگر جرائم بڑھتے جارہے ہیں علاوہ ازیں آمدن کے ذرائع محدودہونے سے ملک میں بھوک و افلاس میں اضافہ ہوتا جارہاہے ایسے حالات میں پاکستان سے تعلقات میں کشیدگی یا تنائو طالبان کے مفاد میں نہیں بلکہ اُن کی گرفت مزید کمزورہو سکتی ہے طالبان کو رویے کے نقصانات کا شاید اندازہ نہیں کیونکہ ایسے کوئی اشارے نہیں ملتے یہی عالمی اور اندرونی مسائل بڑھنے کی وجہ ہے۔
بدگمانیاں اور شکوے شکایات کم کرنے اور دوطرفہ تعلقات کو نئی نہج پراُستوار کرنے کے لیے رواں ہفتے ہی وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے افغانستان کا دورہ کیا تاکہ تعلقات میں پیدا ہوتی تلخی اور سردمزاجی کا خاتمہ ہو مگر یہ دورہ ثمربار ہو سکے گابظاہر آثار اچھے نظر نہیں آتے بلکہ بے ثمر رہنے کاامکان ہے دراصل اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے دنیا کو جو یقین دہانیاں کرائی تھیں اُن پر عمل نہیں کراسکے آج بھی اپنی سرزمین کو ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے کا وعدہ پورا کرنے سے قاصر ہیں ہمسایہ ممالک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے کی وہ اب بھی یقین دہانی تو کراتے ہیں لیکن عملًا اِس حوالے سے پیش رفت نہیںکرتے اگر ٹی ٹی پی کے خلاف موثر کارروائی کی جاتی توآج دونوں ممالک کی سرحد پر بدامنی کی بجائے امن ہوتا پاکستانی حفاظتی دستوں پر حملے نہ ہوتے حفاطتی باڑ اُکھاڑنے نیز سرحدی حد بندی کو مشکوک ثابت کرنے کا سلسلہ ختم ہو چکا ہوتا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا شرپسند عناصر کوافغانستان میں آج بھی محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں جس پر پاکستان سمیت،ایران اور چین کوبے چینی ہے یہ حالات حنا ربانی کھر کے دورے کو بے ثمر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
پاکستان چاہتا ہے کہ باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جو دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات میں حقیقی معنوں میں گرمجوشی لانے کا باعث بنے اِس کے لیے ضروری ہے کہ شرپسندوں کا خاتمہ نیز مشترکہ مسائل کو باہمی بات چیت سے حل کیا جائے پاکستان افغان قیدیوں کی رہائی ،آسان باہمی تجارت،سرحد پار آمدورفت کے ساتھ راہداری کے مسائل پر قابو پانے کے لیے صدقِ دل سے کام کرنا چاہتاہے لیکن جواب میں ایسا ارادہ یا آرزو مفقود ہے پاکستان تو ویزوں کا اجراء آسان بنانے اور مہاجرین و قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کے لیے پُرعزم ہے البتہ افغان قیادت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے پاکستان کا دفترِ خارجہ ریلوے لائن ،تاپی گیس پائپ لائن اور کئی دوسرے مفید منصوبوں پر افغانستان کی طرف سے کام کرنے پر آمادگی کی نوید سناتا ہے لیکن زمینی حقائق ایسی کسی نوید کی تائید نہیںکرتے بلکہ حامد کرزائی اور اشرف غنی کی طرح طالبان بھی شرپسند عناصر کی طرف سے چشم پوشی اختیار کر تے محسو س ہوتے ہیں جو سرحدی مسائل بڑھانے اور برامنی کو فروغ دینے کا باعث ہے افغان سرحد کی طرف سے حملوں سمیت دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کا تقاضا ہے کہ پاکستانی قیادت اب یک طرفہ اُلفت پر کاربند رہنے کی بجائے دوٹوک بات کرے اور درپیش چیلنجز کے پیشِ نظردوراندیشی ،تدبر اورحکمت سے کام لے ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے خاتمے کا علان کرنے کی جو حماقت کی ہے اُسے اِس حماقت کا عملی طورپراحساس دلایا جائے ۔
افغانستان میں جب سے طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں پچاس فیصدسے زائد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے بلوچستان میں شرپسند ایک بار پھر تقویت پکڑنے لگے ہیں لیکن طالبان اپنے سب سے بڑے حمایتی پاکستان کے تحفظات ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہورہے گزشتہ برس نومبر میں طالبان کے توسط سے تحریکِ طالبان پاکستان سے مزاکرات کا آغاز ہواجس کے نتیجے میں سیز فائر کا معاہدہ انجام پایا افغان وزیرِ داخلہ کی ثالثی میں دسمبر میں دوبارہ بات چیت شروع ہوئی اورایک بارپھر رواں برس مئی میں سیز فائر کی مدت میں توسیع کا اعلان سامنے آیا تو امید پیداہوئی کہ امن و امان کے مسائل حل ہونے کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان موجود کدورتوں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے باوجود افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے اب یہ دونوں ممالک کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جائز ہ لیں کہ خرابی کہا ں ہے نہ صرف جائزہ لیں بلکہ خرابی دور کرنے کی عملی طورپر کوشش بھی کریں وگرنہ چاہے جتنے مرضی دورے کرلیں ذہن نشین کرلیں جب تک خرابی دور نہیں ہوگی کوئی دورہ ثمر بار نہیں ہو سکتا۔
پاکستان بدامنی کا خاتمہ کرنے میں سنجیدہ ہے حکومت اور عوام اِس حوالے سے یکسو ہیں رواں برس جون میں سیاسی جماعتوں قبائلی رہنمائوں پرمشتمل ایک ایسا پچاس رکنی وفد کابل گیا جس نے دوروزتک بات چیت کی اور آخر کار ٹی ٹی پی نے غیر معینہ مدت تک جنگ بندی کے معاہدے میں توسیع کا اعلان کیا لیکن اب اچانک جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیاہے جو خاصا تشویشناک ہے حنا ربانی کھر کا دورہ بدامنی کے گہرے ہوتے سائے ختم کرتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی وکالت کے ساتھ پاکستان کو بدامنی پر قابوپانے کا فریضہ بیک وقت ادا کرنا پڑے گا ۔
ٹی ٹی پی کی شرائط ایسی ہیں جنھیں کوئی آزاد اور خود مختار ملک تسلیم نہیں کر سکتا وہ قبائلی پٹی کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ افغان سرحد سے پاک فوج کی واپسی چاہتی ہے سرحدی علاقوں سمیت مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان کو حفاظتی دستوں سے ہر قسم کی نہ صرف آزادی کی خواہاںہے بلکہ چاہتی ہے کہ مسلح نقل و حمل پر کسی قسم کی قدغن نہ لگائی جائے یہ ایسے مطالبات ہیں جنھیں تسلیم کرناملکی خود مختاری سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ طالبان نے نامعقول شرائط ختم کرانے کے لیے اپنا اثرورسوخ پاکستان کے حق میں استعمال کرنے سے پہلو تہی کررہے ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ بے مقصد بھاگ دوڑ کی بجائے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا خاتمہ کرنے پر توجہ دی جائے جب سیکورٹی اِداروں میں شرپسندوں پر قابو پانے کی استعدادموجود ہے تو کام لیا جائے ہر بار اپنے مسائل کے حل کے لیے طالبان پر انحصار سے کمزوری کا تاثر بن رہا ہے لہذابے ثمر دورے چھوڑ کر سنجیدہ اور ٹھوس لائحہ عمل بنا نتیجہ خیز کاروائی سے شرپسندوں کا خاتمہ کرنے پر دھیان دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں