طرز حکومت اور عوام
شیئر کریں
رانا اعجاز حسین چوہان
ہر حکومت کو عوام کی اصلاح مقصود ہوتی ہے ، حکومتیں عوام کی اصلاح ، عوام میں قانون پسندی ، ایمانداری، دیا نتداری کے فروغ کے لیے کوششیں اور کاوشیں بھی کرتی ہیں ، مگر خود اپنی اصلاح اور عوام کے لیے رول ماڈل بننے پر قطعاً توجہ نہیں دی جاتی۔ جس طرح پہاڑوں پر پگھلنے والی برف کا پانی نےچے ڈھلوان پرندی نالوں سے ہوتا ہوا مےدانوں اور کھےتوں کو سےراب کرتا ہے ، بالکل اسی طرح عوام مےں قناعت، دےانت، امانت ، کفاےت اور فرض شناسی کے احساسات حکمرانوں سے رعاےا مےں منتقل ہوتے ہےں ، کےونکہ ہمےشہ اصلاح احوال اور تبدےلی کی ترغےب اوپر سے نےچے کی طرف آتی ہے ، مگر اس اصول اور قاعدے کے برعکس ہمارے حکمران عوام سے تبدےلی اور متذکرہ اوصاف کے متقاضی نظر آتے ہےں ۔ جبکہ حقےقت ےہ ہے کہ عوام حکمرانوں کے پےروکار ہوتے ہےں ، حکمران جو رنگ اختےار کرتے ہےں ، عوام خود اس رنگ مےں رنگتے چلے آتے ہےں ، حکمران جو ڈھنگ اپناتے ہےں عوام بھی اسے اپنا لےتے ہےں ۔ حکمرانوں کا جو مزاج ہوتا ہے ، عوام کا بھی وہی مزاج بن جاتا ہے۔
جبکہ ےہ قاعدہ بھی سو فےصد درست ہے کہ حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہےں ، عوام اگر اچھے ، نےک اور اےماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے ،نےک اور صاحب کردار ہوتے ہےں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی اےسے ہی ملتے ہےں۔ ےعنی جےسے عوام ہوں وےسے حکمران ان پر مسلط کئے جاتے ہےں۔ لےکن ہم ےہ سمجھتے ہےں کہ” جےسے عوام وےسے حکمران“ کے ساتھ ساتھ دوسرے رخ ےعنی ” جےسے حکمران وےسے عوام “ کا بھی قاعدہ موجود ہے، مشہور عربی مقولہ ہے کہ ” الناس علیٰ دےن ملوکہم“ کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے دےن پر ہوتے ہےں جےسا حکمران ہوتا ہے وےسی اس کی رعاےا ہوتی ہے۔ آئےے اس پہلو پر غور کرنے کے لےے تارےخ کے اوراق پلٹتے ہےں۔
سےدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت ہے، مسجد نبوی مےں دربار خلافت لگا ہوا ہے ، جس مےں خلےفہ سےدنا عمر فاروق ؓ داماد رسول سےدنا علی المرتضیٰ ؓ دےگر صحابہ کرام کے ساتھ موجود ہےں،اتنے مےں مصر کے محاذ سے لشکر اسلام کے سپہ سالار کاقاصد مال غنےمت کے ساتھ اےک رقعہ امےر المومنےن کی خدمت مےں لےکر حاضر ہوتا ہے ۔ سےدنا عمر فاروق قاصد سے خط لےکر پڑھتے ہےں ، جس مےں اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے اپنے سپاہےوں کو ہدےہ تہنےت پےش کرتے ہوئے لکھا تھا ” امےر المومنےن …. الحمد للہ مےرے سپاہی اتنے دےانتدار ، ذمہ دار، فرض شناس، اور خدا ترس ہےں کہ دوران جنگ اگر کسی مجاہد کو معمولی سی سوئی بھی ہاتھ لگی ہے تو وہ بھی مےرے پاس جمع کروائی ہے اور کسی مجا ہد کو اشرفےوں کی تھےلی ےا سونے کی ڈلی بھی ملی ہے تو وہ بھی اس نے اپنے پاس رکھنے کی بجائے مجھ تک پہنچائی ہے۔“ سےدنا عمر فاروق ؓ جےسے جےسے خط پڑھتے جاتے آپ کی آنکھوں سے آنسو چھلکتے جاتے، ےہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک آنسو¶ں سے ترہوجاتا ہے ۔ سےدنا علی المرتضیٰ ؓ ےہ صورتحال دےکھ کر پرےشان ہوجاتے ہےں اور سمجھتے ہےں کہ محاذ جنگ سے شاےد کوئی بری خبر آئی ہے جس نے امےر المومنےن کو پرےشان اور دکھی کردےا ہے ۔ آپ بے چےنی اور اضطراب کے عالم مےں امےر المومنےن سےدنا عمر فارو ق سے درےافت فرماتے ہےں، ےا امےر المومنےن ! خےرےت تو ہے آپ کےوں رورہے ہےں ؟ سےدنا عمر فاروق ؓ سےدنا علی المرتضیٰ ؓ کی فکر مندی دےکھ کر فرماتے ہےں اے مےرے بھا ئی ےہ خوشی کے آنسو ہےں ۔ ےہ کہہ کر آپ خط حضرت علیؓ کے حوالے کردےتے ہےں ، حضرت علیؓ ساری صورتحال جاننے کے بعد علم و حکمت پر مبنی وہ اےمان افروز تبصرہ ارشاد فرماتے ہےں جو رہتی دنےا تک اےک اےماندار اور صاحب کردار حکمران اور اس کی ٹےم کی پہچان اور شناخت قرار پاتا ہے۔ سےدنا علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہےں” امےر المومنےن ےہ اسلامی سپاہےوں کی دےانت اور امانت نہےں بلکہ آپ کے عدل اور کردار کا کمال ہے۔ اگر آپ فرض شناس، امےن ، عادل اور خداترس نہ ہوتے تو آپ کے سپاہی کبھی بھی ان اوصاف کا مظاہرہ نہ کرتے اور ان مےں کبھی ےہ وصف پےدا نہ ہوتا۔“ سےدنا علی ؓکا علم و حکمت سے بھر ا ےہ تبصرہ سربراہ مملکت اور ارکان رےاست کے حوالے سے مکمل اور جامع ہے۔آج اس اصول اور قاعدے کی روشنی مےں ہمےں اپنا کوئی حکمران اور اس کے معاونےن کی ٹےم پوری اترتی دکھائی نہےں دےتی۔
قوم کا اےک اےک فرد آج اس بات کا گواہ ہے کہ اقتدار مےں آنے کے بعد ہمارے ہر حکمران نے اپنے پےش نظر صرف اےک بات سامنے رکھی کہ عوام کو اصل حقائق سے دور رکھ کر ان کی آنکھوں مےں دھول کےسے جھونکی جاسکتی ہے اور انہےں بے وقوف کےسے بناےا جاسکتا ہے۔ اس طرز عمل اور طرز فکر کی روشنی مےں قوم مےں محنت ، دےانت ، قناعت، اےمانداری اور فرض شناسی کے جذبات کےونکر پےدا ہوسکتے ہےں ۔ آج ہمارے موجودہ قومی بحران ، اخلاقی پستی، معاشی پسماندگی، سےاسی بد نظمی اور معاشرتی مسائل کا اصل سبب جرا¿ت مند ، مخلص، صاحب فکر و نظر اور اعتماد کی دولت سے مزےن قےادت کا فقدان ہے۔ کسی مفکر نے سچ کہا ہے کہ ” قوموں اور ملکوں کی موت کبھی بھی وسائل کی کمی کے سبب نہےں ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی تباہی غرقابی، طوفانوں اور سےلابوں سے ہوتی ہے ، بلکہ نااہل ، خوشامد پسند، بزدل، کم فہم ، کوتاہ نظر اور مفاد عاجلہ کی رسےا قےادت قوموں کی لٹےا ڈبوتی ہے۔“ آج حکمران اپنی کرپشن، بد نظمی اوربد انتظامی کے باوجود اگر عوام کی اصلاح کی خواہش رکھےں تو ان کی ےہ خواہش پوری ہونا ممکن نہےں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران اپنی اصلاح کرےں، اپنا طرز عمل، طرز بےان، طرز حکمرانی اس قدر اچھا بنائےں کہ عوام ان کی تقلےد کرتے ہوئے خود اپنی اصلاح کر نے والے بنیں۔
٭٭