میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسکول اور وہ دن

اسکول اور وہ دن

منتظم
هفته, ۳ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

mubin-akhter

سچی کہانی فرضی نام کے ساتھ
ڈاکٹر سید مبین اختر
جب بھی میں اسکول کے وہ دن یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر اس وقت مدد نہ لیتا تو شاید آج زندہ ہی نہ ہوتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مجھے ہاسٹل میںداخلہ دلایا گیا۔ داخلہ دلانے کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے گاو¿ں میں میٹرک تک کی تعلیم میسر تھی اور اگر کسی کو آگے پڑھنا ہوتاتو اسے شہر جانا پڑتا تھا۔ میرے ساتھ بھی کچھ یہ ہی ہوا۔ شہر میں میرا کوئی عزیز رشتہ دار نہیں رہتا تھا جس کے پاس میں رہ سکتا تو مجبوراً والدین نے اپنے وسائل دیکھتے ہوئے مجھے ہاسٹل میں داخل کروادیا۔ ہاسٹل کے کمرے میں داخل ہواتو ایک نیا چہرہ میرا منتظر تھا۔ یہ میراکمرے کا ساتھی تھا، وسیم جو ایک بہت اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ، اور جس طرح اس نے مجھے خوش آمدید کہا،مجھے بہت اپنائیت محسوس ہوئی ۔ابھی ہماری بات چیت کو چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ہمیں پیغام ملا کہ کھانے کے کمرے میں تمام طلبہ کو بلایا جارہا ہے۔ رات کا وقت تھا، تھکن بھی بہت ہورہی تھی، مگر بلاواآیاتھا تو جانا پڑا۔ میں اور وسیم بھی اپنے کمرے سے نکل کر اس طرف چل دئیے،جہاں سب کو بلایا گیا تھا ۔ وہاں پہنچے تو الگ ہی منظر تھا۔ تمام نئے طلبہ ایک طرف کھڑے تھے اور کچھ لڑکے تھے جو کرسیوں پر بیٹھے تھے، ہمیں بھی اندر کھینچ لیا گیا۔ کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ یہ لڑکے ہمارے سینئر تھے اور ہمیں کھنچائی(ragging) کے لیے بلایا گیا تھا ۔ پہلے تو سب کا تعارف ہوا پھر ہم سب کے مزاحیہ نام رکھے گئے، مگر ان سب میں میرا نام سب سے مشہور ہوا جو کہ” پینڈو“ تھا۔
اس دن کے بعد سے ہاسٹل کا ہر دن میرے لیے اذیت ناک تھا۔ کبھی کوئی میرے کپڑے چھپا دیتا تھا تو کبھی کتابیں ، کاپیاں غائب کر لیتا تھا۔ جس جگہ سے گزرتا تو وہاں پینڈو کی صدائیں گونجنے لگتی تھیں۔ اس صورتحال سے میں بہت پریشان ہوگیا۔ اساتذہ سے اس مسئلے پر بات کرنے کا سوچتا تو ان کا کمرہ¿ جماعت میں سختی برتنا یاد آجاتا تو میں ان سے بھی یہ بات نہیں کر پایا۔ اسی طرح دن گزرتے رہے، میں بہت اکیلاپن محسوس کر نے لگا، میرا ساتھی وسیم میرے ساتھ نہ تھا کیونکہ اس کے والد نے اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلیے ملک سے باہر بھیج دیا تھا۔ وسیم کے جانے کے بعد میں بہت تنہا ہوکر رہ گیا تھا، زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتا تھا۔ کئی دفعہ سوچا کہ اپنے والدین سے اس مسئلے پر بات کروں مگر یہی سوچتا کہ کہیں ان کا دل نہ ٹوٹ جائے کیونکہ میں ہی ان کی امید کا ستارہ تھا۔ دن رات یہی باتیں سوچتا رہتا تھا۔ نہ کھانا کھانے کا دل کرتا تھا نہ ہی نیند آتی تھی۔ اکیلیے بیٹھ کر گھنٹوں روتا رہتا تھا۔ہر وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دیواروں سے بھی پینڈو، پینڈو کی آوازیں آرہی ہیں۔ پڑھائی میں بھی کچھ خاص دل نہیں لگ رہا تھا۔ زندگی سے مایوسی سی محسوس ہونے لگی تھی۔ ایک دن تو اتنی پریشانی میں مبتلا ہوگیا کہ دل چاہنے لگاکہ خود کو مار لوں ۔ایک ڈیڑھ ہفتہ اسی کشمکش میں رہا مگر آخرکار میں ہار گیا اور اُس رات اپنے آپ کو رسّی کے ذریعے پنکھے سے لٹکانے کا انتظام کر لیا ۔مجھے لگتا تھا کہ بس زندگی کا خاتمہ ہی مجھے تمام ترپریشانیوں سے نجات دلا سکتا ہے ۔اس وقت گھر والوں کا خیال بھی آیا مگر پھر سوچا کہ چار دن رو کر وہ بھی مجھے بھول جائیں گے ۔ ابھی پنکھے سے صحیح طرح سے لٹکنے بھی نہ پایا تھا کہ بے ہوش ہوگیا۔ جب آنکھ کھلی تو خود کو ہسپتال میں پایا اور اپنے سامنے اپنے گھر والوں اور وسیم کو پایا۔ وہ وسیم ہی تھا جس نے بروقت مجھے بچا لیاتھا۔ وہ پاکستان آیا ہواتھا اور مجھ سے ملنے آیا تھا۔ سب کے بیچ ہوتے ہوئے بھی مجھے زندگی کا احساس نہیں ہورہا تھا ۔میری اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ مجھے کراچی نفسیاتی ہسپتال لے کر جایا جائے تاکہ میرا علاج ہوسکے ۔گھر والے نہیں مان رہے تھے مگر وسیم اور ڈاکٹر کے اصرار پر مجھے ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں ماہر نفسیات نے مجھ سے تمام تفصیلات حاصل کیں اور میرا تمام مسئلہ غور سے سننے کے بعد مجھے داخل کر نے کا مشورہ دیا ۔ ماہر نفسیات نے والدین کو سمجھایا کہ داخل کر کے مریض کو جلد صحت یابی کی طرف لے جایا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی سمجھایا کہ خصوصاً خودکشی کے مریض کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے کراچی نفسیاتی ہسپتال میں داخل کروادیا گیا ۔مجھے جب وارڈ منتقل کیا گیا تو مجھے واقعی احساس نہیں ہو اکہ میں کسی نفسیاتی ہسپتال میں ہوں کیونکہ جوڈراموں ، فلموں میں دیکھا تھا، منظر اسکے بالکل برعکس تھا۔
مجھے دو ہفتوں کے لیے داخل کیا گیا تھا۔ مجھے ان چودہ دنوں میں بالکل اجنبیت کا احساس نہیںہوا۔ مجھے ادویات کے ساتھ ساتھ دوسری تفریحی سرگرمیوںمیں بھی مصروف رکھا جاتا تھا ، مثلاً کھیل کود، رسالے پڑھنا اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن واحادیث بھی سنائی جاتیں۔اتنی محنت ایک نفسیاتی مریض پر واقعی عملہ خراج تحسین کے قابل ہے۔ ہسپتال سے رخصت کے بعد بھی کچھ عرصہ ہسپتال جاتا رہا اور آج میں ایک بھر پور زندگی گزاررہا ہوں ۔واقعی اگر مجھے ہسپتال بروقت نہ لے جایا جاتا تو شاید آج میں زندگی ہار چکا ہوتا۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں اور ہاسٹل جیسی جگہوں پر نظر رکھیں تا کہ ہم مندرجہ بالا نقصان سے بچ سکیں۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ خاص طور پر جائزہ لیں کہ کیا ان کے ارد گرد میں اس طرح کے طالب علم موجود ہیں جنہیں ان کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور بے جاسختی سے پرہیز کریں تاکہ طلبہ وطالبات اپنے مسائل کیلیے بغیر کسی جھجک کے ان سے رابطہ کرسکیں۔ کھنچائی(ragging) جیسے معاملات کو اور اس سے ملے جلے کاموں کی روک تھام کیلیے ورک شاپس کا انعقاد کیا جائے تاکہ ہم اس غلط کھیل کو اپنے معاشرے میں بڑھنے سے روک سکیں۔
اپنے مسائل اور ذہنی امراض کے لیے مندرجہ ذیل پتہ پر خط لکھیں:کراچی نفسیاتی ہسپتال ،ناظم آباد نمبر3 ،کراچی
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں