غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
غزہ کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ جنگ اب تیسرے ہفتہ میں داخل ہوچکی ہے ۔انتہائی تباہ کن فضائی حملوں کے بعد اب زمینی کارروائی کی تیاری ہے ۔بظاہر اسرائیل کا نشانہ حماس ہے ، لیکن گزشتہ دوہفتوں کے دوران غزہ پر جو آگ برسائی گئی ہے ، اس کی زد میں صرف عام شہری آئے ہیں، جن کی تعداد چارہزار سے تجاوزکرچکی ہے ۔ ان میں ایک ہزار سے زیادہ بچے ہیں۔غزہ میں برسرکار ایک خاتون ڈاکٹر نے عالمی رہنماؤں سے بلکتے ہوئے یہ سوال پوچھا ہے کہ معصوم بچوں کا قصور کیاہے ؟ ان کے جنازوں کو کہاں رکھیں؟غزہ کے اسپتالوں میں جنازے رکھنے کی جگہ نہیں ہے ۔ غزہ میں عام شہریوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے ۔ جو لوگ جان بچانے کے لیے اسپتالوں، عبادت گاہوں اور دوسری محفوظ جگہوں پر پناہ لے رہے ہیں، وہاں بھی اسرائیلی بم ان کا پیچھا کررہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو ایک900سالہ قدیم چرچ اور ایک مسجد پر بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک ہوگئے ۔
حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل نے جو وحشیانہ کارروائیاں انجام دی ہیں، ان میں قدم قدم پر ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے ، جو عالمی قوانین کی رو سے جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔گزشتہ منگل کو غزہ کے الاہلی عرب اسپتال پر کی گئی بمباری اس کی سب سے بدترین مثال ہے ۔ ظالم صیہونی حکومت نیجب بم برسائے تو اسپتال زخمیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ 2008کے بعد یہ اسرائیل کی طرف سے کی گئی سب سے جارحانہ کارروائی ہے ۔حملے کے بعدجو تصاویر منظرعام پر آئیں ان میں اسپتال شعلے اگل رہا تھا۔ شیشوں کی کرچیں اور انسانی اعضاء ہرطرف بکھرے ہوئے تھے ۔ اس وحشیانہ کارروائی میں کم ازکم پانچ سو افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے ۔ اس تباہی وتاراجی کے بعد اسپتال انتظامیہ نے جب پریس کانفرنس کرکے میڈیا کو تفصیلات بتائیں تو ڈاکٹروں کے قدموں میں بھی لاشیں بچھی ہوئی تھیں اور ان کے پاس قدم رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ اسپتال پرکی گئی درندگی اور وحشت کی وجہ سے جب اسرائیل پوری دنیا میں مطعون ہوا تو اس نے یہ جھوٹ بولنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی کہ اسپتال دراصل حماس کے حملے میں تباہ ہوا ہے ۔ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ جنگ میں سب سے بڑا خون سچائی کا ہوتا ہے ۔مغربی ملکوں کی اکثریت اسرائیل کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی میں مصروف ہے ۔ امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے اسرائیل کی سلامتی اور مضبوطی ان کی بقاء کے لیے بہت ضروری ہے ۔اسی لیے امریکی امداد غزہ کی بجائے اسرائیل پہنچ رہی ہے ۔
غزہ کے الاہلی اسپتال کی تاراجی کا منظر ان مناظر میں سب سے دردناک منظر ہے جو گزشتہ دوہفتوں کی بمباری کے دوران اسرائیل نے غزہ میں تخلیق کئے ہیں۔دنیا میں جنگوں کا سلسلہ نیا نہیں ہے ۔ اب تک ہزاروں جنگیں لڑی گئی ہیں، لیکن جنگوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔ جنگوں کے دوران نہتوں، بے قصوروں، بچوں اور خواتین کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ چہ جائیکہ زخمیوں اور لاچار وں پر بم برسائے جائیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جنگ دنیا کی ایک ایسی غاصب اورظالم طاقت کے ساتھ ہے جس نے گزشتہ 75 برسوں کے دوران فلسطینیوں کے خلاف ہر وہ ظلم روا رکھا ہے ، جس کی اجازت دنیا کا کوئی دستور نہیں دیتا۔حیرت اس مغربی دنیا پر ہے جو اسرائیل کے بڑے سے بڑے ظلم تریاق سمجھ کر پی جاتی ہے ۔ غزہ کے اسپتال پر ہوئی وحشیانہ بمباری کے بعد امریکہ، برطانیہ، کناڈا اور فرانس نے افسوس تو ظاہر کیا ہے ، لیکن کسی نے اسرائیلی بربریت اور درندگی کی مذمت نہیں کی۔حماس کے حملوں کی مذمت میں ڈکشنریاں خالی کردینے والے یہ نام نہاد’مہذب’ ممالک اسرائیلی جارحیت پر چپی سادھے ہوئے ہیں۔امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے سربراہان مملکت اسرائیل کا حوصلہ بڑھانے کے لیے تل ابیب پہنچے اور نتن ہاہو سے بغل گیر ہوکر انھیں ہر ممکن امداد کا یقین دلایا۔شاید اسی کو بے شرمی اور بے حسی بھی کہتے ہیں۔ ظاہر ہے دنیا پر سب سے بڑا جہنم تخلیق کرنے کے لیے اسرائیل کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔کیونکہ ان ہی کی پشت پناہی کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے تمام حقوق سلب کئے ہیں۔
اسرائیل نے گزشتہ 75 برسوں کے دوران فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے ان پر ہر قسم کے وحشیانہ مظالم ڈھائے ہیں۔ان کی نسل کشی کی گئی ہے اور انھیں غزہ کی ایک چھوٹی سی پٹی میں محصور کرکے ان کے تمام انسانی حقوق سلب کرلیے ہیں۔ اس وقت غزہ میں بارہ لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ اسرائیل کے فضائی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہاں قبرستانوں کی زمین تنگ ہوگئی ہے ۔ اسرائیلی حملوں میں اب تک چودہ اسپتال ملیا میٹ کئے جاچکے ہیں۔مصر میں تعینات فلسطینی سفیر کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس مرنے والوں کی لاشوں کو دفنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔انھوں نے غزہ پٹی کو خوراک، طبی سازوسامان کی فراہمی اور امداد کے داخلے کو یقینی بنانے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راہداریوں کو فوری طورپر کھولنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین کا کہنا ہے کہ غزہ میں بیس لاکھ سے زیادہ شہریوں کو پانی کے بحران کا سامنا ہے ۔ یہ صورتحال زندگیوں کے لیے خطرہ بن گئی ہے ۔جنگ کے پندرہویں روز بھی غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور اسرائیلی طیارے غزہ پر ہزاروں ٹن بارود گراچکے ہیں۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جارڈن اور مصر جیسے مسلم ملکوں نے فلسطینیوں کو پناہ دینے سے انکار کردیا ہے اور ان کے لیے اپنی سرحدیں سیل کردی ہیں۔یہ صورتحال سب سے زیادہ تکلیف دہ اور شرمناک ہے ، جبکہ اسکاٹ لینڈ جیسے ملک نے اہل غزہ کے لیے اپنے دروازے کھول دئیے ہیں۔
مغربی دنیا انسانیت کی تاراجی کے دردناک مناظر کو نہ صرف یہ کہ ایک تماشے کی طرح دیکھ رہی ہے ، بلکہ وہ اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہو کر اسے شاباشی بھی دے رہی ہے ۔ خود کو سب سے زیادہ مہذب ملک کہنے والا امریکہ اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش ہے ۔ خطرناک ترین ہتھیارو ں سے لیس اس کا سب سے بڑا بحری بیڑا غزہ کے ساحل پر لنگر انداز ہوچکا ہے ۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے دفاع میں کسی بھی حدتک جاسکتا ہے ۔امریکی وزیرخارجہ تل ابیب کے دورے میں نتن یاہو سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہمیں یہاں صرف امریکی وزیرخارجہ کے طورپر نہیں بلکہ ایک یہودی کی حیثیت سیبھی آیاہوں۔یہ میرا ذاتی مسئلہ بھی ہے ۔کون نہیں جانتا کہ پچھلے 75 برسوں میں امریکہ نے اسرائیل کو پال پوس کر بڑا کیا ہے ۔ غاصب اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کرنے کے لیے اب
تک جو بھی غیرقانونی کارروائیاں انجام دی ہیں، ان میں امریکہ اس کا سب سے بڑا معاون اور مدد گار رہا ہے ۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور ظلم وبربریت کے خلاف اب تک 250سے زائد قراردادیں پاس کی ہیں،لیکن ان میں سے ایک قرارداد پر بھی اب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے ۔اوسلو معاہدہ تو خود امریکی صدربل کلنٹن کی موجودگی میں تیس برس پہلے عمل میں آیا تھا جس پر اسرائیلی وزیراعظم اور پی ایل اوسربراہ نے دستخط کئے تھے ۔اس معاہدے کے تحت اسرائیل کو فلسطین کی22فیصد زمین واپس کرنی تھی تاکہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہوسکے ۔لیکن ایسا کرنے کی بجائے اسرائیل پورے فلسطین کو ہڑپنا چاہتا ہے ۔اسرائیل نے غزہ میں ظلم وبربریت کی تمام حدیں پار کرلی ہیں۔جرمنی، روس اور اسپین نے غزہ کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے ۔ عرب ممالک ابھی میٹنگیں کرنے میں مصروف ہیں۔ان کی تن آسانی نے ہی یہ دن دکھائے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔