میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نئی حلقہ بندیوں پر سیاسی جماعتوں کااتفاق

نئی حلقہ بندیوں پر سیاسی جماعتوں کااتفاق

ویب ڈیسک
جمعه, ۳ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان کی پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤںکے درمیان مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں اگلے سال کے مجوزہ عام انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیاں کرانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔اس طرح اب یہ یقینی ہوگیاہے کہ 2018 میں عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہوں گے اس حوالے سے ہونے والے اجلاس میںبعض سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنما قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کرنے پر متفق نہیں تھے،جس پر قومی اسمبلی کی موجودہ نشستیں 272 رکھنے پر ہی اتفاق کرلیاگیا۔نئی حلقہ بندیوں کے مطابق آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی 9 نشستیں کم کر د ی جائیں گی۔ ان میں سے5 نشستیں صوبہ خیبر پختونخوا، 3 نشستیں صوبہ بلوچستان جبکہ ایک نشست وفاقی دارالحکومت کو مل جائے گی جبکہ صوبہ سندھ کی نشستوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔صوبہ پنجاب سے جو 9 نشستیں کم کی گئی ہیں ان میں 7 جنرل جبکہ دو مخصوص نشستیں شامل ہیں۔
اس وقت قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ جنرل نشستیں صوبہ پنجاب کی ہیں جن کی تعداد 147 ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے یہ تعداد کم ہو کر 140 رہ جائے گی جبکہ مخصوص نشستیں کم ہو کر 33 رہ جائیں گی۔صوبہ خیبر پختونخوا کی جنرل نشستوں کی تعداد 34 ہے ان میں چار نشستوں کا اضافہ ہو گا جبکہ ایک مخصوص نشست بھی بڑھا دی جائے گی۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں اس وقت جنرل نشستوں کی تعداد 14 ہے جس میں دو نشستوں کا اضافہ ہوگا اور اس کے علاوہ ایک مخصوص نشست بھی بڑھائی جائے گی۔سندھ میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 61 ہے جس کو برقرار رکھا گیا ہے۔وفاقی دارالحکومت میں عام انتخابات دو نشستوں پر ہوتے ہیں جبکہ اگلے سال اس میں بھی ایک نشست کا اضافہ کیا جائے گا اور یہ تعداد 3 ہو جائے گی۔وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 11 ہے اور اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس قومی اسمبلی کے ا سپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن کے علاوہ سیکریٹری شماریات اور نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کے حکام نے شرکت کی۔اْنھوں نے کہا کہ اس ضمن میں ایک آئینی ترمیم دو نومبر کو شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی جائے گی جہاں سے منظوری کے بعد اسے سینیٹ میں بھجوایا جائے گا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد جب یہ ترمیم آئین کا حصہ بن جائے گی تو پھر اس پر کارروائی کے لیے اسے الیکشن کمیشن اور متعقلہ حکام کو بھجوایا جائے گا جو نئی حلقہ بندیوں پر کام کریں گے۔ اس اتفاق رائے کے باوجودحزب مخالف کی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤںنے واضح کیاہے کہ اْنھوں نے تحفظات کے ساتھ اس پر اتفاق کیا ہے اور اگر ان کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو وہ اس کے خلاف عدالتوں میں جانے کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔اسلام آباس میں اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت پارلیمانی رہنمائوںکے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ، نوید قمر، صاحبزادہ طارق اللہ، غلام بلور اور دیگر رہنماوں کے علاوہ چیئرمین نادرا، سیکریٹری الیکشن کمیشن اور محکمہ شماریات کے حکام بھی شریک ہوئے۔ مردم شماری کے حتمی نتائج کا اعلان اگلے سال اپریل میں متوقع ہیں جس کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس نئی حلقہ بندیوں کے لیے مناسب وقت نہیں ہوگا، کیونکہ اگلے عام انتخابات سر پر ہوں گے۔دوسری جانب الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی متعدد مرتبہ خبردار کیا جاچکا ہے کہ حلقہ بندیوں کے لیے اسمبلی کو فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ اگلے انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیاں ممکن نہیں ہوں گی۔اس اعتبار سے پارلیمانی رہنماؤںکے اجلاس میں حلقہ بندیوں پر اتفاق رائے بڑی اہمیت رکھتی ہے اور اس کے نتیجے میں اب الیکشن کمیشن کے پاس اگلے عام انتخابات میں تاخیر کاکوئی جواز نہیں رہے گا ۔اس طرح یہ کہاجاسکتا ہے کہ پارلیمانی رہنمائوں نے انتہائی بالغ نظری کامظاہرہ کرتے ہوئے اگلے عام انتخابات بروقت کرانے کی راہ میں حائل بظاہر ایک بڑی رکاوٹ دور کردی ہے۔ انتخابی حلقہ بندیوں پر پارلیمانی رہنمائوں کے اتفاق رائے سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اگر تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنما فروعی اختلافات بالائے طاق رکھ کر اہم معاملات پر اتفاق رائے کی اسی روش پر گامزن رہیں جس کااظہار انھوں نے انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں کیاہے اور بعض فروعی اختلافات کے باوجود ایک بڑے فیصلے پر اتفاق رائے کیاہے تو ملک کو درپیش کم وبیش تمام بڑے مسائل افہام وتفہیم کے ماحول میں حل کئے جاسکتے ہیں ، اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی بڑا تنازعہ باقی نہیں رہے گا۔
اس وقت پاکستان کوجس صورت حال کاسامنا ہے اس کاتقاضہ یہی ہے کہ ملکی معاملات چلانے کے لیے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیاجائے،پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور خاص طورپر حکمراں پاکستان مسلم لیگ کو سینیٹ کے چیئرمین کے اس انتباہ کومدنظر رکھنا چاہئے جس میں انھوں نے کہاتھا کہ اگر 2018میں انتخابات نہیں ہوئے تو وفاق پر سیاہ بادل منڈلائیں گے۔جبکہ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی بھی پشاور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت لانے کے حوالے سے پکنے والی کھچڑی کا ذکر کرتے ہوئے یہ واضح کرچکے ہیں کہ ان کی پارٹی ٹیکنو کریٹ پر مشتمل کوئی حکومت قبول نہیں کرے گی ۔
دراصل پاناما لیکس کے ایشوکے منظر عام پر آتے ہی موجودہ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کے چہرے سے وہ نقاب اترگئی جس کے ذریعے وہ اس ملک کے عوام گزشتہ 30سال سے بیوقوف بناتے رہے تھے ، پاناما لیکس ہی نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف قومی خزانے کی لوٹ مار کی تحقیقات کی بنیاد بنا اوراسی کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے انھیں صادق اور امین نہ ہونے کی بنیاد پر نااہل قرار دیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد قومی منظر پر عجیب و غریب صورتحال نے جنم لیا ہے،اور نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ ان کی حکومت میں شامل وزرا اور مشیروں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے نواز شریف کو سیاست سے کنارہ کش کرکے کاروبار حکومت چلانے کے بجائے محاذ آرائی کی راہ اختیار کی جس نے بہت سے فتنوں کو جنم دیا ہے۔ ایسے ایسے ایشو کھڑے ہونے لگے ہیں کہ پارلیمانی نظام ڈگمگانے لگا ہے۔ اس ماحول میں بھانت بھانت کی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں۔ اْن میں سے ایک یہ ہے کہ 2018میں انتخابات نہیں ہوں گے۔ یہ شوشہ چھوڑنے والوں کو شاید علم نہیں کہ اگر مسلم لیگ ن کی آئینی میعاد پوری ہونے کے بعد انتخابات نہ ہوئے تو ملکی سالمیت اور وفاق خطرے میں پڑ جائے گا۔ پھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابات بروقت نہ ہونے کی صورت میں، ٹیکنو کریٹس پر مشتمل قومی حکومت بنا دی جائے۔ حالانکہ آئین میں ٹیکنو کریٹس کی، یا قومی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایسی حکومتیں خواہ فرشتوں پر کیوں نہ مشتمل ہوں، وفاق کی یکجائی کی ضمانت نہیں دے سکتیں، صرف اور صرف پارلیمانی جمہوریت ہی یہ فریضہ انجام دے سکتی ہے۔ ماضی میں ہم ایسے تجربات کر کے دیکھ چکے ہیں۔ایسے شوشے چھوڑنے والوں کی حب الوطنی پر شک ہوتا ہے۔ بعض لوگ یہ دعوے کرنے لگے کہ ملک میں جتنی بھی ترقی ہوئی آمریت کے دور میں ہوئی اور ایسا کہنے والے کچھ زیادہ غلط بھی نہیں ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ جو لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بنیادی وعدے کی بنیاد پر برسراقتدار آئے تھے گزشتہ 4سال سے زیادہ عرصے میں قوم کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات نہیں دلاسکے ،اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف دور میں بجلی کے جو منصوبے تیار ہوئے ہیں اور جنھیں نواز شریف اور ان کے حواری اپنی بری کامیابی قراردے رہے ہیں، ان کی اکثریت درآمدی تیل اور گیس پر انحصار کرتے ہیں اس کے علاوہ ان کمپنیوں سے نواز حکومت نے جو معاہدے کئے ہیں وہ ایک طرح سے اس ملک اور عوام کو گروی رکھنے کے مترادف ہیں کیونکہ ان معاہدوں کی رو سے حکومت پاکستان ان پراجیکٹس کی تیار کردہ تمام بجلی ایک مقررہ نرخ پر خریدنے کی پابند ہے ظاہر ہے کہ اب اگر تھر کول منصوبے اور ملک میں متوقع طورپر بننے والے دیامر بھاشا ڈیم سے بننے والی سستی بجلی کے فوائد سے پاکستان کے عوام اور صنعت کار محروم رہیں گے ،اورانھیں سالہاسال تک ان کمپنیوں کا قرض چکانے پر مجبور رہنا پڑے گا۔موجودہ صورتحال میں اگرنواز شریف اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر سپریم کورٹ کے فیصلے خوشدلی کے ساتھ قبول کرلیں اور تمام قومی رہنما اور سیاسی لیڈر ہوش مندی سے کام لیں، اور حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے اداروں کو ایک دوسرے سے لڑانے سے گریز کریں اور آئین اور جمہوریت سے اپنی کمٹمنٹ پر مضبوطی سے قائم رہیں تو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسی صورت میں اتفاق رائے سے مسائل کاحل نکالنا بہت زیادہ مشکل نہیں ہوگا اور جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے درپے قوتوں کومنہ کی کھانا پڑے گی، بصورت دیگر سب سے زیادہ نقصان نواز شریف فیملی اور حکمراں مسلم لیگ کے بزعم خود حکمرانوں ہی کو پہنچے گا ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں