الیکشن کمیشن ارکان کی تعیناتی ،وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر سے جواب طلب
شیئر کریں
اسلام آبادہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے 2 نئے ممبران کی تعیناتی کے خلاف درخواست پر وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر سمیت تمام فریقین سے جواب طلب کرلیا۔جمعرات کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے 2 نئے ممبران کی تعیناتی کے خلاف مسلم لیگ(ن)کے رہنمائوں رکن قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی اور ڈاکٹر نثار احمد چیمہ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ کس طرح پارلیمانی کمیٹی ان ناموں پر متفق نہیں تھی۔ پارلیمانی کمیٹی متفق نہ ہوسکے تو آئین کیا کہتا ہے ، کیا جن ناموں کونامزد کیا گیا وہ کمیٹی کے سامنے رکھے گئے ، پارلیمنٹ کو اپنے طور پر ایسے معاملات حل کرنے چاہئیں، اسپیکر قومی اسمبلی اس حوالے سے معاملات دیکھ سکتے ہیں۔درخواست گزار وں کے وکیل محسن شاہ نواز رانجھا نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کے 3 اجلاسوں میں ممبران الیکشن کمیشن کی تعیناتی پراتفاق نہیں ہوسکا، پارلیمانی کمیٹی کے اختلافات کے بعد آئین اس معاملے پرخاموش ہے ، حکومت سپریم کورٹ کو اٹارنی جنرل کے ذریعے درخواست دائر کرسکتی ہے ، صدر پاکستان کا اختیار نہیں کہ وہ ممبران کی تعیناتی اس طرح کرے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے 2 نئے ممبران کی تعیناتی کے خلاف درخواست سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن، وزارت قانون، سیکرٹری ٹو وزیراعظم ، سیکرٹری ٹو صدر اور نئے ارکان الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے ۔ اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما مرتضیٰ جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ دونوں اراکین کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کو نظر انداز کر دیا گیا اور آئین کی خلاف ورزی کی گئی کیونکہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت ضرورت ہے لیکن حکومت نے اسے نظر انداز کر کے من پسند افراد کی نامزدگی کر دی جو آئین کی خلاف ورزی ہے ۔عدالت نے سینئر وکلا حامد خان،خالد انور اور مخدوم علی خان عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے ہدایت کی کہ اسے پہلے سے زیرسماعت درخواست کے ساتھ مقرر کیا جائے ۔سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی آئین کے خلاف ہے ، پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کے علم میں لائے بغیر ممبران کی تعیناتی کی گئی، صدر پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کے پابند ہیں، ان کے پاس نوٹی فکیشن کرنے کا کوئی آئینی اختیار نہیں،حکومت قومی اسمبلی کے معاملات کو بھی آئین کی روح کے منافی لے کر چل رہی ہے ،حکومت پروڈکشن آرڈر پر بھی آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے ، 8 پارلیمانی کمیٹیوں کا تاحال کوئی اجلاس نہیں ہو سکا، ہم معاملات عدالتوں میں لانا نہیں چاہتے تھے لیکن مجبوراً رجوع کر رہے ہیں۔