میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قاتل کون؟

قاتل کون؟

ویب ڈیسک
منگل, ۳ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

بینظیر بھٹو کا قتل ایک عجیب معمہ ہے، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ یہ طے ہے کہ اصل قاتل اب تک پردے میں ہے، نہ ہی عدالتی ریکارڈ پر موجود کہانی پورا سچ ہے اور نہ ہی مختلف انکوائری کمیشنز کی رپورٹس سچ کی تہہ تک رہنمائی کرپائی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے اس حوالے سے جاری کئے گئے تہلکہ خیز حالیہ ویڈیو بیان نے بہت سے سوالات کھڑے ضرور کئے مگر افسوس نہ ہی گندم کے دانے موٹے ہونا شروع ہوئے اور نہ ہی کپاس کے ریشے لمبے ہوئے۔
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے گزشتہ ماہ کے آخری روز اڈیالہ جیل میں بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سنایا، اس فیصلے کی رُو سے گرفتار شدہ پانچوں ملزمان کو بے گناہ قرار دے کر باعزت بری کردیا گیا جبکہ دو پولیس افسران خرم شہزاد اور سعود عزیز کو 17-17 سال قید کی سزا سنائی گئی، خرم شہزاد 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے ایس ایس پی اور سعود عزیز سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) تھے، اسی فیصلے میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف سزا کا اعلان فی الحال تعطل میں رکھا گیا۔ واضح رہے کہ فوجداری مقدمات میں کسی ملزم کو اس کی غیر موجودگی میں سزا نہیں سنائی جاتی۔
اس فیصلے پر بلاول علی زرداری عرف بھٹو، ان کی بہن بختاور اور آصفہ نے اپنی علیحدہ علیحدہ ٹوئٹس میں مایوسی اور عدم اطمینان کا اظہار کیا، مجموعی طورپر ان کا کہنا تھا کہ اصل قاتل اب بھی قانون کی گرفت سے آزاد ہے لامحالہ ان کا اشارہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی طرف تھا، بچوں کی حد تک تو بات علیحدہ تھی مگر پھر بچوں کے پدر موصوف بھی بولے، انہوں نے قاتل کے طورپر ببانگ دھل پرویز مشرف کا نام لیا، یہی وہ بات تھی جس پر پرویز مشرف سیخ پا ہوگئے، انہوں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی اور اپنے فیس بک صفحے پر اپ لوڈ کردی، تمام قومی ذرائع ابلاغ نے اس ویڈیو کی حساسیّت کے پیش نظر اسے خبروں میں نمایاں جگہ دی۔
جنرل پرویز مشرف نے چند نازک پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہوئے صاف الزام میں نام لیکر الزام عائد کیا کہ نہ صرف بینظیر بھٹو بلکہ میر مرتضیٰ بھٹو کو بھی آصف علی زرداری نے قتل کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بالخصوص محترمہ بینظیر بھٹو کے بچوں سے مخاطب ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اس مقدمے کے حوالے سے چند نہایت اہم سوالات اٹھائے لیکن پیپلز پارٹی کے قائدین نے روایتی سیاسی انداز سے ان سوالات کو نظر انداز کردیا۔
بینظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ بلاشبہ دانستہ طورپر اور منظم انداز سے خراب کیا گیا، اس حوالے سے دستیاب حقائق کو دائیں آنکھ بند کرکے دیکھا جائے تو سارے کھرُے پرویز مشرف کے گھر تک جاتے ہیں اور اگر بائیں آنکھ بند کرکے دائیں کھلی چھوڑی جائے تو یقین ہوجاتا ہے کہ آصف علی زرداری کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
بینظیر بھٹو کے قتل میں استغاثہ کی تیار کردہ کہانی کے مطابق اس قتل کی منصوبہ بندی تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اﷲ محسود نے کی وجہ بظاہر محض اتنی ہی تھی کہ اسے عورت کی حکمرانی پسند نہ تھی۔ استغاثہ کے مطابق بینظیر بھٹو پر گولی چلانے والا سید اکرام نامی شخص تھا جبکہ خودکش دھماکہ سعید نامی شخص نے کیا تھا۔ ان دونوں کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا، ان کے معاونین میں حسنین گل اور رفاقت شامل تھے جن کا تعلق راولپنڈی سے ہی تھا جبکہ اسماعیل خان اور نصر اﷲ گروہ کے دیگر افراد کے بیت اﷲ محسود سے رابطوں کا ذریعہ تھے یہ کل 9 رکنی گروہ تھا یہ گروہ لیاقت باغ پہنچ کر عوام میں شامل ہوگیا تھا جب بینظیر بھٹو کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں تو سعید گاڑی کے بہت قریب پہنچ چکا تھا اس نے اپنا پستول نکال کر تین گولیاں چلائیں جن میں سے ایک محترمہ کو اُس وقت لگی جب وہ اپنا چہرہ دائیں طرف گھمارہی تھیں، گولی ان کے کان سے تھوڑا اوپر کھوپڑی کی ہڈی کو توڑتی ہوئی اور دماغ کی جھلّی کو نقصان پہنچاتی ہوئی نکل گئی اس سے اُن کی فوری موت واقع ہوگئی۔ اس کے فوراً بعد ہی سعید نے خود کو دھماکے سے اڑالیا، اس دھماکے میں 28 افراد جاں بحق ہوئے۔
استغاثہ کے مطابق جیسے ہی بینظیر کی موت کا باقاعدہ اعلان ہوا نصر اﷲ نے فون پر بیت اﷲ سے بات کی اور اُسے کامیابی کی اطلاع دی ان کی یہ گفتگو حساس اداروں نے ٹیپ کرلی۔ حملے کے بعد باقی بچنے والے 9 میں سے یہ 8 افراد راولپنڈی میں رفاقت اور حسنین گل کے ٹھکانے پر جمع ہوئے اس کے بعد وہاں سے اعتزاز شاہ ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے، رشید ترابی شب قدر اور شیر زمان ونصراﷲ دونوں جنوبی وزیرستان کے لئے روانہ ہوگئے۔ عدالت کی جانب سے رہا کئے جانے والے اس گروہ کے یہ مبینہ اراکین یہ پانچ افراد نومبر 2008ء سے زیر حراست تھے۔
اب یہ تو ہے عدالت کے ریکارڈ پر موجود کہانی مگر تفتیش کاروں کی فائلوں پر اور بھی بہت کچھ ہے جس کا استعمال بظاہر کچھ بھی نہیں ہے، مثلاً بیت اﷲ محسود اور اس گروہ کے رابطہ کار دو افراد جو اس 9 رکنی گروہ کے رکن تھے نصر اﷲ اور اسماعیل ان کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ اگلے ہی روز 28 دسمبر 2007ء کو جنوبی وزیرستان جاتے ہوئے راستے میں قتل ہوگئے، تفتیش کاروں کا یہ بھی شواہد ملے کہ ان دو افراد کے بینظیر بھٹو کے سیکورٹی آفیسر خالد شہنشاہ سے گزشتہ ایک سال سے رابطے تھے اور خالد شہنشاہ جنوری 2007ء سے کئی بار جنوبی وزیرستان تواتر کے ساتھ جاتا رہا تھا، بعدازاں ایف آئی اے کی خصوصی تفتیشی ٹیم نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ بیت اﷲ محسود نے خالد شہنشاہ کو اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ’’خرید‘‘ لیا تھا اور وہ لیاقت باغ کے آخری جلسے میں یہی اشارے کررہا تھا کہ بی بی نے بُلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی ہے لہذا انہیں گردن سے اوپر نشانہ بنایا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس تفتیشی ٹیم نے یہ مفروضہ قائم کیا اس میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر ان کے بااعتماد پولیس افسر رائو انوار خصوصی طورپر شامل کئے گئے تھے جبکہ ان کا ایف آئی اے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بعض واقفان حال تو یہ بھی کہتے ہیں کہ خالد شہنشاہ کو کراچی میں بدنام زمانہ گینگسٹر عبدالرحمن ڈکیت نے قتل کیا، عبدالرحمن ڈکیت کو ایس ایس پی چوہدری اسلم نے مشکوک پولیس مقابلے میں مار ڈالا، چوہدری اسلم خود بھی خودکش حملے میں ملک عدم کوچ کرگئے۔ اﷲ اﷲ خیر صلاّ ۔رہ گئے بلال شیخ جنہوں نے عبدالرحمن ڈکیت کی مبینہ خفیہ گرفتاری میں کردار ادا کیا تھا سو وہ بھی رمضان میں گھر جاتے ہوئے پھل خریدنے کے لئے رکے، جوں ہی گاڑی کا دروازہ کھولا، ایک زور دار دھماکہ ہوا اور ان کے پرخچے اڑگئے، موصوف بلاول ہائوس سے آرہے تھے۔ گویا پے درپے قتل تاکہ نام ونشان بھی نہ بچے، قارئین نتائج خود اخذ کرسکتے ہیں۔ آصف زرداری پر شبہ کرنے کے لئے اتنا کچھ کافی ہے شاعر کی زبان میں کہا جائے تو دامن پر چھینٹے بھی ہیں اور خنجر پر داغ بھی۔
بینظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم ہونے یا نہ ہونے، ان کا بلیک بیری آصف علی زرداری تک پہنچ جانے، بینظیر بھٹو کو آنے والی آخری فون کال سمیت ان کی وصیت وغیرہ تک کہنے کے لئے بہت کچھ ہے، پرویز مشرف کا ایک سوال نہایت اہم ہے کہ بینظیر کے قتل سے فائدہ کس کو ہوا؟ لیکن پرویز مشرف خود بھی شک کے دائرے سے باہر نہیں، آج تک ان سے یہی پوچھا جاتا ہے کہ آخر جائے وقوعہ کو ڈیڑھ گھنٹے کے اندر ہی کیوں دھلوادیا گیا، یہ کس کے حکم پر ہوا اور اس کا مقصد کیا تھا؟ فرماتے ہیں میرا تو نقصان ہوا بہرحال پرویز مشرف اگر خود براہ راست ملوث نہ بھی تھے تو کم از کم ان کے بااثر ماتحتوں میں سے کچھ لوگ ضرور اپنے باس کو بی بی کے قتل میں پھنسوانے کے خواہشمند تھے ورنہ حالات کچھ اور ہوتے۔
بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ کم وبیش 10 سال بعد سنایا گیا ہے، اس عرصے میں کل 141 گواہان میں سے 67 کے بیانات ریکارڈ کئے گئے، کل 300 مرتبہ مقدمے کی سماعت ہوئی، 6 جج تبدیل ہوئے اور 7 مرتبہ مقدمے کے مختلف چالان پیش کئے گئے اب ایف آئی اے نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے، اپیل میں کہا گیا ہے کہ ان پانچوں ملزمان کو سزا دی جائے، ساتھ ہی یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ دونوں پولیس افسران کو کم سزا دی گئی انہیں زیادہ سزا دی جائے جبکہ جنرل پرویز مشرف کو ان کی غیر موجودگی میں ہی سزا سنانے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔ اپیل کا کچھ بھی نتیجہ نکلے یہ طے ہے کہ سچ وہ نہیں جو سامنے ہے، سچ اب بھی سات پردوں میں چھپا ہے مگر ثبوت آج بھی موجود ہیں اگر بکھرے ثبوتوں کو جمع کرکے صحیح طرح ملایا جائے تو تصویر مکمل ہوسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ چلی کے سفارتکار ہیرالڈو مونوز (Heraldo Munoz) نے بینظیر بھٹو قتل کی تفتیش کے حوالے سے زرداری حکومت کی مقرر کردہ ’’ٹرمز آف ریفرنس‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب پاکستان میں نہ کوئی حکومت اس قابل ہوگی اور نہ ہی اس کی خواہش رکھے گی کہ بینظیر کے قتل کے حوالے سے نتائج کے جال میں پیچیدہ سچ پورا آپھنسے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں