سید علی گیلانی شہید کی تیسری برسی
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بزرگ رہنما ، قائد تحریک آزادی کشمیر سید علی گیلانی شہید کی تیسری برسی لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف تجدید عہد کے ساتھ منائی گئی جس میں عظیم قائد کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال رہی جبکہ آزاد کشمیر وپاکستان میں خصوصی تقریبات، جلسے ، جلوس اور سیمینارز منعقدہوئے۔
تحریک آزادی میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے سید علی گیلانی کو اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان پاکستان سے نوازا۔ حریت رہنما سید علی گیلانی طویل علالت کے بعد یکم ستمبر 2021 کو انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 92 سال تھی۔ مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ نے سید علی گیلانی کو کئی سال سے گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔ پوری مقبوضہ وادی میں ان کا غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا گیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی حریت قیادت نے سید علی گیلانی کی قیادت میں متحدہ ہو کر انتہائی مثبت اور تعمیری قدم اٹھایا اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سید علی گیلانی کا موقف ہی پوری کشمیری قوم کا موقف کی بنیاد پر کامیاب ہوتی ہیں جن تحریکوں کے پیچھے کوئی نظریہ نہیں ہوتا وہ تحریکیں کامیاب نہیں ہوتیں۔اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کے دوران گیلانی صاحب نے اپنے خاندان کے ساتھ بے پناہ مشکلات جھیلیں گیلانی صاحب کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ایک دہائی سے زائد عرصے تک گھر میں نظر بند رکھا گیا لیکن وہ ایک چٹان کی طرح اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے۔گیلانی صاحب اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن جو میراث انہوں نے چھوڑی ہے وہ کشمیر کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتی رہے گی۔ یہ بدقسمتی ہے کہ قابض بھارتی حکام نے عوام کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔گیلانی صاحب کی میت کو زبردستی چھیننا اور اس کے بعد خفیہ تدفین کرنا فسطائیت کا کھلا مظاہرہ تھا جس نے آج پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ کشمیری گزشتہ 77برس سے بھارتی ظلم وستم کا شکار ہیں ، ہم نے بے انتہا قربانیاں دی ہیں اور اپنا سب کچھ لٹا دیا ہے لہذا ہماری عظیم قربانیوں کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے حقیرمفادات کی خاطرہرگزظالم کاساتھ نہ دیں۔ میر واعظ عمر فاروق نے سرینگر میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے افسوس ظاہر کیا کہ ہماری صفوں میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو ظالموں کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔ یہ ابن الوقت لوگ ظالم کے آلہ کار بن گئے ہیں اور اپنی ہی قوم کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے نظر بند وائس چیئرمین غلام احمد گلزار نے کہا ہے کہ کشمیری قائد سید علی گیلانی مزاحمت کی علامت اور تحریک آزادی کشمیر کے لئے مشعل راہ ہیں۔کشمیری عوام اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ شہیدرہنما سید علی گیلانی اور تحریک آزادی کے دیگر شہدا کے مشن کو ہر قیمت پر پورا کیا جائے گا۔ شہدا ء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہے۔صدرِ آصف علی زرداری نے سید علی شاہ گیلانی کی تیسری برسی کے موقع پر پیغام میں کہا ہے کہ ہم عظیم کشمیری رہنما، سید علی شاہ گیلانی کی تیسری برسی منا رہے ہیں۔ ہم غیر قانونی طور پر بھارتی زیرِ تسلط جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے حقوق کے لیے ان کی جراتمندانہ جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ علی شاہ گیلانی ایک عظیم رہنما’ قیدو بند سمیت ان کی ذاتی مشکلات ان کے عزم کو کمزور نہ کر سکیں۔ آج ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ سید علی شاہ گیلانی اور بے شمار دیگر افراد کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کے حصول کے لیے اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔
سید علی گیلانی29 ستمبر 1929ء کو زوری منز تحصیل بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے۔ 1950ء میں آپ کے والدین نے زوری منز سے ڈورو سوپور ہجرت کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پرائمری سکول بوٹنگو سوپور میں حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول سوپور میں داخلہ لیا۔ آپ نے اورینٹل کالج لاہور سے ادیب عالم اورکشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اورینٹل کالج لاہور سے جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات اور علامہ اقبال کی شاعری سے بے حد متاثر ہو کر لوٹے۔ 1949میں بحیثیت استاد آپ کا تقرر ہوا اور آپ نے بحیثیت سرکاری استاد 12سال تک وادی کے مختلف سکولوں میں اپنی خدمات انجام دیں۔ 1953ء میں آپ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر آپ جماعت اسلامی کے ہمہ وقتی کارکن بنائے گئے۔ آپ پہلی بار 28اگست 1962ء کو گرفتار ہوئے اور 13مہینے کے بعد جیل سے رہا کیے گئے۔ مجموعی طور پر آپ نے زندگی کا 14سال سے زائد عرصہ بھارتی سامراج کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں ریاست اور ریاست کے باہر مختلف جیلوں میں گزارامگر اپنے بنیادی اور اصولی موقف پر چٹان کی طرح جمے رہے۔
سید علی گیلانی 15سال تک مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے ممبربھی رہے۔ آپ ریاستی اسمبلی کے لیے تین بار 72ئ، 77ء اور 1987ء میں اسمبلی حلقہ سوپور سے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر منتخب ہو گئے۔ 30اگست 1989ء کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ آپ تحریک حریت کے چیئرمین اور ساتھ ہی حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ آپ رابطہ عالم اسلامی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ تیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ جن میں رودادِ قفس، قصہ درد، صدائے درد، مقتل سے واپسی، دیدوشنید اور فکر اقبال پر شاہکار کتاب، روح دین کا شناسا اول و دوم، پیام آخریں، نوائے حریت، بھارت کے استعماری حربے، عیدین، مقتل سے واپسی، سفر محمود میں ذکرِ مظلوم، ملت مظلوم، تو باقی نہیں، What should be done، پسِ چہ باید کرد، ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیرکی تصویر کا، ہجرت اور شہادت، تحریک حریت کے تین اہداف، معراج کا پیغام، نوجوانانِ ملت کے نام، دستور تحریکِ حریت اور ولر کنارے اول دوم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔