سیاسی پناہ کی متلاشی افغان اشرافیہ
شیئر کریں
افتخارگیلانی
ایک دہائی قبل مغربی ملک کے ایک نشریاتی ادارے کی طرف سے صحافیوں کے لیے ایک تربیتی کورس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ پہلے ہی دن دیکھا کہ وسیع و عریض بلڈنگ کے استقبالیہ کائونٹر سے متصل ایک عارضی اسٹوڈیو میں ٹی وی کیمروں کے سامنے ایک پاکستانی خاتون انٹرویو دے رہی ہے۔ معلوم ہو اکہ اس خاتون نے سیاسی پناہ حاصل کی ہے، کیونکہ اس کے ساتھ بقول اس کے پاکستان میں بہت ظلم ہو رہا تھا۔ اس خاتون کا استدلال تھا کہ پاکستان میں اسکو اسکے پسند کا کھانا یعنی پورک (خنزیرکا گوشت) کھانے نہیں دیا جا رہا تھا۔ اس لیے اسکو مغربی ملک میں پناہ لینی پڑی۔ ناروے، سویڈن، ڈنمارک اور دیگر ممالک کی ٹی وی و صحافیوں کی ٹیمیں آکر اسکا انٹرویو کرکے دانتوں میں انگلیاں دباتے تھے ، کہ اس قدر ظالم حکومت و معاشرہ، جو کسی کو اسکی پسند کا کھانا بھی کھانے نہیں دیتا ہے۔ او و مائی گارڈ۔ چند روز بعد ہمارے تربیتی پروگرام میں نشریاتی ادارہ کے ایشیا ڈویڑن کے سربراہ لیکچر دینے کے لیے آئے تو چائے کے وقفہ کے دوران میں نے ان سے کہا کہ میں بھی پناہ کی درخواست دینا چاہتا ہوں، کیونکہ بھارت میں بیف یعنی گائے کے گوشت پر پابندی عائد ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ بھارت تو ایک جمہوری ملک ہے اور اسکا پاکستان کے ساتھ کیا موازنہ، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ میں نے کہا کہ کشمیر جو میری جنم بھومی ہے ، میںگائے کو ذبح کرنے پر ہی نہیں بلکہ اسکا گوشت رکھنے پر ہی عمر قید کی سزا ہے اور دہلی جو میری کرم بھومی ہے، جہاں میں کام کر رہا ہوں، پانچ سال کی قید کی سزا ہے۔ 1824میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کشمیر کے گورنر دیوان کرپا رام نے بیف رکھنے پر موت کی سزا تجویز کی تھی اور اس کو عملی جامہ پہنا کر اس دور میںکئی درجن کشمیریوں کو بیف رکھنے کے پاداش میں موت کی نیند سلا یا گیا۔ بعد میں ڈوگرہ حکمرانوں نے رحم دلی کا مظاہر ہ کرکے اس کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ شمالی مشرقی صوبوں اورجنوبی صوبہ کیرالا کو چھوڑ کر باقی پورے بھارت میں بیف پر پابندی عائد ہے اور سخت سزائیں قوانین میں شامل ہیں۔ وہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، مگر جب ہمارے ساتھ آئے ایک مسیحی صحافی نے تصدیق کی، تو ان کو یقین کرنا ہی پڑا۔
اس پوری گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ شام تک استقبالیہ کے پاس عارضی اسٹوڈیو مسمار کیا گیا تھا اور خاتون کے انٹرویو ز کے سلسلہ کو بند کر دیا گیا۔ جب میں دہلی کی تہاڑ جیل میں سرکاری مہمان تھا، تو ایک دن کئی درجن نوجوان سکھ وارڈ میں لائے گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ لوگ روس میں غیر قانونی طور پر مزدوری کا کام کر رہے تھے اورروسی حکومت نے ان کو پکڑ کر بھارت ڈیپورٹ کر کے جہاز میں بٹھایا دیا تھا۔جہاز کا ٹرانزٹ چونکہ ائیرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں تھا، اس لیے ماسکو سے پرواز کرنے کے بعد کسی ساتھی نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ ڈبلن میں سیاسی پناہ کی درخواست دینگے۔ بس کیا تھا کہ جہاز میں ہی جمہوریہ کپورتھلہ کی جلا وطن حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ صدر، وزیر اعظم، وزراء اور کئی کم پایہ کے افراد اراکین پارلیمان مقررہوئے۔ ڈبلن میں جب امیگریشن کائونٹر پر جاکر انہوں نے اعلان کیا کہ جمہوریہ کپورتھلہ کی جلا وطن حکومت سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے آئی ہے، تو وہاں تہلکہ مچ گیا۔ ان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ گیسٹ ہاوس لیجایا گیا او ر مزید کارروائی اور تفتیش کے لیے کیس فارن آفس کے حوالے کردیا گیا۔ 23دن بعد بھارتی حکومت اور ائیر لینڈ کے اپنے سفارت خانہ کا جواب موصول ہوا کہ یہ افراد بھارت میں مطلوبہ ہیں ،نہ انکے خلاف کوئی کیس درج ہے۔ آخر ڈبلن حکومت نے ان کو دوبارہ جہاز پر سوار کرکے بھارت بھیج دیا، جہاں دہلی کے بین الاقوامی ایر پورٹ پر دہلی پولیس ان کے گارڈ آف آنر کے لیے تیار کھڑی تھی۔ پہلے ان کی خوب ٹھکائی کی گئی، بعد میں ان کو عدالت میں پیش کرکے جیل بھیج دیا گیا۔
اسی طرح پاکستان کے سندھ صوبہ سے تعلق رکھنے والے ایک میاں بیوی نے پریس کلب آف انڈیا میں ایک بار پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے نیپال میں ان کو پکڑ کر ان کے جسم میں کوئی چپ نصب کی ہے، جس کی وجہ سے ان کو اکثر گھوں گھوں کی آوازیں آتی ہیں۔ وہ بھارت میں سیاسی پناہ کے خواستگار تھے۔ پریس کانفرنس کو کور کرنے کے بعد جب میں آفس پہنچ کر اسٹوری لسٹ کروا رہا تھا، میرے سینیئر رفیق کار شاستری راما چندرن نے کہا کہ ان کے ڈاکٹر سے بھی رابطہ کیا جائے، تاکہ اس چپ کے بارے میں کچھ معلومات مل جائیں۔ میں نے اس جوڑے سے دوبارہ رابطہ کرکے ان سے ڈاکٹر کا فون نمبر لے لیا۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹراپالو اسپتال میں نیورفزیشن ہیں۔ رابطہ ہونے پر اور اس جوڑے سے متعلق اور چپ کے بارے میں جونہی ان سے استفسار کیا ، تو وہ خوب برس پڑے اور سبھی صحافیوں کو گالیوں سے نوازا کہ دماغی مریض سے ہمدردی جتانے کے بجائے اسکی پریس کانفرنس کرواکے اسکا بھارت اور پاکستان کے درمیان تماشہ بنوا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ، جو بھی صحافی اس پریس کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں، ان کو خود کا دماغی علاج کروانے کی ضرورت ہے۔ مختصراً کہ یہ دونوں میاں بیوی بعد میں صحت یاب ہوگئے اور واپس پاکستان چلے گئے، جہاں وہ اب خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔