سیپاافسرا ن ماہانہ لاکھوں روپے بٹورنے میں مصروف
شیئر کریں
سندھ میں ماحولیاتی کنسلٹنسی کمپنیوں کی سرٹیفیکیشن کے کوئی قوائد نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے، غیر مستند ماحولیاتی کنسلٹنسی فرموں اور افراد کی بھرمار ہوگئی،کمپنیاں نہایت کم داموں پر نجی تجارتی کمپنیوں کو ماحولیاتی خدمات فراہم کرکے سیپا سے ہر قسم کی ماحولیاتی منظوری بھاری رشوت کے عوض ہاتھوں ہاتھ دلوادیتے ہیں، ماحولیاتی منظوری پر رشوت لینے سے سیپا افسران ہرماہ لاکھوں روپے بٹورنے لگے۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت ادارے سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا)میں ہر قسم کے ذیلی شعبہ جات کے قواعد و ضوابط جاری کئے جاچکے ہیں تاہم ماحولیاتی کنسلٹنسی فرموں کی سرٹیفکیشن کے قواعد جانتے بوجھتے ہوئے6 سال سے روکے ہوئے ہیں تاکہ برائے نام ماحولیاتی تجربہ اور تعلیمی قابلیت رکھنے والی کمپنیوں کو دباؤ میں رکھتے ہوئے اُن سے خطیر رقم رشوت لے کر اُن کے کلائنٹس کو ماحولیاتی منظوریاں دی جاسکیں ۔ محکمہ ماحولیات کے ایک افسر نے بتایا کہ مستند اور پاکستان انجینئرنگ کاؤنسل میں رجسٹر انجینئروں کی بنائی ہوئی ماحولیاتی کسنلٹنسی فرمز ایک حد سے زائد رشوت نہیں دیتی ہیں کیونکہ اصلی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کرکے مارکیٹ میں اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتی ہیں، سیپا کے ایک کینیڈین شہری افسر کامران خان ڈپٹی ڈائریکٹر لیبارٹری کسی بھی قسم کی ماحولیاتی منظوری کے اجراء کے لیے مستند اور ضروری تعلیمی اہلیت رکھنے والی کمپنیوں کو نظر انداز کرکے ایسی کنسلٹنسی فرموں کی درخواستیں منظور کراتا ہے جو اُسے بھاری رقم بطور رشوت دے سکیں۔ افسر نے بتایا کہ زیادہ تر جعلی ماحولیاتی کنسلٹنسی کمپنیاں سیپا کے افسران اور انسپکٹروں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے نام پر بنا رکھی ہیں جس کا فائدہ انہیں یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے سیپا کے لیٹر ہیڈ پر سینکڑوں تجارتی و صنعتی اداروں کو نوٹسز دیتے ہیں جس کے بعد مذکورہ کمپنیوں سے کہا جاتا ہے کہ مزید کارروائی سے بچنے کے لیے وہ3سے 5 لاکھ روپوں کے عوض ان کی کنسلٹنسی کمپنی سے ای ایم پی یعنی ماحولیاتی منیجمنٹ پلان بنواکر جمع کرائیںبصورت دیگر ان کا کیس ماحولیاتی ٹریبونل بھیج دیا جائے گا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جب بھی حکام بالا سیپا سے ماحولیاتی کنسلٹنسی فرموں کی فہرست طلب کرتے ہیں تو انہیں محض معیاری کمپنیوں کی فہرست پیش کی جاتی ہے جبکہ گھروں میں بنائی ہوئی جعلی کمپنیوں کی پردہ پوشی کردی جاتی ہے۔جبکہ سیپا میں کام کرنے والی بیشتر ماحولیاتی فرموں کو بنانے اور چلانے والے ماحولیاتی انجینئر کے بجائے ماحولیاتی سائنسز یابزنس ایڈمنسٹریشن، کیمسٹری حتیٰ کے سوشل سائنسز میں ماسٹرز ہیں جن میں سے بیشتر کی سرپرستی ڈپٹی ڈائریکٹر لیبارٹری کامران خان کررہا ہے اور اصلی ماحولیاتی کنسلٹنسی فرموں کو یا تو کھڈے لائن کردیا گیا ہے یا اُنہیں نہ ہونے کے برابر کام کرنے دیا جارہاہے۔