میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
20 نکاتی ضابطہ اخلاق ، کفر کے فیصلے کا اختیار عدالتی دائرہ اختیار میں شامل

20 نکاتی ضابطہ اخلاق ، کفر کے فیصلے کا اختیار عدالتی دائرہ اختیار میں شامل

ویب ڈیسک
بدھ, ۳ جولائی ۲۰۲۴

شیئر کریں

اسلامی نظریاتی کونسل اور مختلف مسالک کے جید علماء نے 20 نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کر تے ہوئے کہاہے کہ کوئی شخص مسلح افواج، حکومتی اور دیگر سرکاری اداروں کو کافر قرار نہیں دے گا،کوئی شخص خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، انبیا کرام، صحابہ کرام ، امہات المومنین اور اہلبیت عظام کی توہین نہیں کریگا،کوئی فرد یا گروہ توہین رسالت کے مقدمات کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا، کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا، کسی کے کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ کرنے کا اختیار عدالت کا دائرہ اختیار ہے، ریاست لسانی، علاقائی، مذہبی، فرقہ وارانہ تعصبات والی تحریکوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق تمام شہریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی بالادستی کو تسلیم کریں، ریاست پاکستان کی عزت و تکریم بجا لائیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر حال میں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔اعلامیہ کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام شہری بنیادی حقوق کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں جیسا کہ دستور پاکستان میں مندرج ہیں، بشمول قانون کی نظر میں مساوات، سماجی اور سیاسی حقوق، اظہار خیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی۔اعلامیہ کے مطابق دستور پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانینِ پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا۔ پاکستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے پرامن جدوجہد کریں۔اعلامیہ کے مطابق اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح کارروائی، تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی اور یہ شریعت کی روح کے خلاف ہیں اور کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ حکومتی، مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی کے اداروں کے افراد سمیت کسی بھی فرد کو کافر قرار دے۔اعلامیہ کے مطابق علماء ، مشائخ اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ افراد کو چاہیے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں خاص طورپر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج کی بھرپور حمایت کریں تاکہ معاشرے میں سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔اعلامیہ کے مطابق ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصّبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصّہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست ایسے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔اعلامیہ کے مطابق کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت، مسلح فرقہ وارانہ تنازعہ اور جبراً اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلّط نہ کرے کیونکہ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور فساد فی الارض ہے۔اعلامیہ کے مطابق کوئی نجی یا سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے، تربیت نہ دے اور نفرت انگیزی، انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ نہ دے۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور اداروں کے خلاف قانون کے مطابق ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائے گی۔اعلامیہ کے مطابق انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے والوں، خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا عقیدے سے ہوں، کے خلاف سخت انتظامی اور تعزیری اقدامات کیے جائیں گے۔اعلامیہ کے مطابق اسلام کے تمام مکاتب فکر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک اور عقائد کی تبلیغ کریں، مگر کسی کو کسی شخص، ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔اعلامیہ میں کہاگیاکہ کوئی شخص خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم، جملہ انبیاء کرام امہات المؤمنین، اہلِ بیت اطہار، خلفاء راشدین اور صحابہ کرامؓکی توہین نہیں کرے گا،کوئی فرد یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا نہ ہی توہینِ رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ بنے گا۔اعلامیہ میں کہاگیاکہ کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا اور صرف مذہبی سکالر ہی شرعی اصولوں کی وضاحت مذہبی نظریے کی اساس پر کرے گا۔ البتہ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے (مسلمان کی تعریف وہی معتبر ہوگی جو دستور پاکستان میں ہے)۔اعلامیہ کے مطابق کوئی شخص کسی قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں دے گا، دہشت گردوں کی ذہنی و جسمانی تربیت نہیں کرے گا، ان کو بھرتی نہیں کرے گا اور کہیں بھی دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوگا۔اعلامیہ میں کہاگیاکہ سرکاری، نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں اختلافِ رائے کے آداب کو شامل کیا جائے گا کیونکہ فقہی اور نظریاتی اختلافات پر تحقیق کرنے کے لیے سب سے موزوں جگہ صرف تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔اعلامیہ کے مطابق تمام مسلم شہری اور سرکاری حکام اپنے فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کی روشنی میں کریں گے۔اعلامیہ کے مطابق بزرگ شہریوں، خواتین، بچوں، خنثیٰ اور دیگر تمام کم مستفیض افراد کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات ہر سطح پر دی جائیں گی۔اعلامیہ میں کہاگیاکہ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کریں۔اعلامیہ میں کہاگیاکہ اسلام خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواتین سے ان کے ووٹ، تعلیم اور روزگار کا حق چھینے اور ان کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچائے،ہر فرد غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ سے باز رہے کیونکہ یہ اسلام کی رو سے ممنوع ہیں۔اعلامیہ کے مطابق کوئی شخص مساجد، منبر و محراب، مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پرمبنی تقاریر نہیں کرے گا اور فرقہ وارانہ موضوعات کے حوالے سے اخبارات، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر متنازعہ گفتگو نہیں کرے گا۔اعلامیہ میں کہاگیاکہ آزادی اظہار اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے، اس لیے میڈیا پر ایسا کوئی پروگرام نہ چلایا جائے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا سبب بنے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں