میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رمضان بازار یا لوٹ مار بازار

رمضان بازار یا لوٹ مار بازار

ویب ڈیسک
پیر, ۳ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

ہر حکمران کی یہ دلی تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کا نام اور فوٹو چمکتا دمکتا رہے اور لوگوں کے سامنے بار بار آتا رہے ان اوچھی حرکتوں سے ڈکٹیٹر جمہوری ہوں یا مارشلائی، یہی سمجھتے ہیں کہ ایک دنیا ہے کہ ان کی شیدائی بن چکی ہے اور وہ عوام میں انتہائی پاپولر شخصیت ہیں اور نام نہاد حزب ِ اختلاف کے یا دوسرے تنقید کرنے والے راہنمائوں کو تو عوام جانتی بوجھتی تک نہیں۔اس طرح اکثریتی ووٹ ہمیشہ انھیں ہی حاصل ہوں گے ۔ یوں آمرانہ ذہنیت کے رہنما اندر ہی اندر خوش ہوتے اور راتوں کو مزید مقتدر رہنے کے خوابوں کی دنیا میں بسے رہتے ہیں۔رمضان المبارک کے متبرک ماہ کے دوران میں سستے رمضان بازار ہر تحصیل کی سطح پر پنجاب حکومت نے لگوائے۔ تحصیل ایڈمنسٹریشن و بلدیہ کا پورا عملہ اور متعلقہ تھانوں کی تقریباً آدھی نفری وہاں تعینات رہی ۔وہاں کام کرنے والے حکومت کے چہیتے دُکانداروں کوا سٹال لگانے کے لیے سہولتیں مہیا کی گئیں۔پورے صوبہ میں اربوں روپوں کی سبسڈی دینے کا اعلان کرکے اشیاء کی فروختگی کا اہتمام کیا گیا مگر شہباز شریف کی سستی روٹی ا سکیم اور یلو کیب کی طرح سارے سبسڈی کے مال کا تقریباً 2/3حصہ الم غلم اور خورد برد کر لیا گیا۔
کرپٹ بیورو کریٹ ایسے سستے بازاروں کے اہتمام کرکے اس میں سے اپنا حصہ نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں کہ انہوں نے ہمہ قسم کے حکومتی ادوار بھگتائے ہوئے ہیں۔ضلعی و تحصیل انتظامیہ کے افسران کی آنکھ مچولی اور نام نہاد چیکنگ دورہ کے دوران دُکانوں کو خوب سجانااور گندی گلی سڑی سبزیاں اور فروٹ کو ایک طرف رکھ کر دُکانوں پر اعلیٰ اشیاء کو ڈسپلے کرنا بخوبی آتا ہے۔پھر جو بڑے آئٹم تھے مثلاً آٹا چینی دالیں چاول مصالحہ جات مشروبات وغیرہ وہ تو سبھی تقریباً70فیصد پرائیویٹ دُکانداروں کو بیچ ڈالے گئے اور جو منافع یا رعایت عوام الناس کو دی جانی مقرر تھی وہ خود ہی اپنی جیبوں میں ڈال لی گئی کہ آخر وہ سخت دھوپ میں اپنی خصوصی ملازمتوں کے کام کے علاوہ ایکسٹرا ڈیوٹیاں دے رہے تھے۔ اُنہوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور غریب عوام کے ہاتھ گلے سڑے فروٹ اور سبزیاں ہی آئیں اور کئی سبزیاں فروٹ توبازاروں میں بکنے والی اشیاء سے بھی زائد قیمت پر وہاں دستیاب کی گئی تھیں کہ جب زیادہ مال وہاں خود بیورو کریسی کے نمائندوںاور تحصیل دار گرداور پٹواریوں اور بلدیہ کے ملازمین نے ہی خرید کر سجانا تھا تو اس میں روایت دنیا کے مطابق ا ن کا اپنا حصہ یا منافع نکالنا "بہت ضروری تھا” کہ عام طور پر جب کوئی چیز سرکاری دفاتر کے لیے خریدی جاتی ہے تو اس کے ٹینڈر سمجھ کر سرکاری سلسلے میں ہی لاکھوں کروڑوں کا گھپلا کر لیا جاتا ہے اور ہر شے بازار سے کئی گنا زائد قیمت پر خرید کی جاتی ہے۔ کاغذوں کی ہیرا پھیریوں کے یہ کلرک ،اکائونٹنٹ اور کیشئیر وغیرہ خوب ماہر ہوتے ہیں۔سڑکیں بناتے ہوئے پتھر سیاہ سیال مادہ ( لُک وغیرہ) کھا پی جاتے ہیںتوپھر یہ تو ٹھہری ہی کھانے پینے کی اشیاء۔ گوشت ،مشروبات، دالیں،چاول چینی آٹا وغیرہ بہت سستا بیچنے کے پرو گرام کا اعلان کیا گیا تھا مگر نصف سے زائد تو دُکانداروں کے ہاں برائے فروخت موجود تھا کیا کسی جن بھوت نے وہاں پہنچا دیا تھا؟چینی وغیرہ بیچنے کا اہتمام فی کس 2کلو کا لفافہ تھا اور باقاعدہ شناختی کارڈکے اندراج پر ہی چینی مہیا کی جانی تھی مگر کیا ایسااہتمام کیا گیا؟کیا ایسے اندراجات چیک کیے گئے؟راقم نے ایک سنٹر کا خود ملاحظہ کیا۔قیمتوں کی بابت معلومات حاصل کی گئیں آٹا اور چینی چاول خریدنے کے لیے اپنے بندے چھوڑے مگر سب کچھ ویسا ہی پایا جیسا کہ امید قوی تھی ۔
سرکاری خزانے کو شیر مادر سمجھ کر سر کاری اہلکار پی رہے تھے بس وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ ان کے شہزاد گان ،متعلقہ وزیر ضلعی تحصیلی افسران متعلقہ ایم این اے، ایم پی اے،بلدیہ کے چیئرمین ،وائس چیئرمین کے قد آدم تصاویر کی شہر میں بہار تھی۔ بالخصوص نام نہاد سستے بازار کے اردگرد بلاشبہ ایک سینٹرپر پانچ سات لاکھ کے بینر اشتہارات تو کم ازکم چسپاں کرنا ضروری خیال کیے گئے کہ مال مفت دل بے رحم ۔جو سبسڈی دی جانی تھی جس کے لیے سرکاری خزانہ سے اس مد میں رقوم نکلوائی گئی تھی، وہ اس طرح پبلسٹی ،اخبارات و ٹی وی میں اشتہارات میں ضائع کردی گئیں ۔”گنجی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی” ۔خوب فوٹو سیشن رہے کسی بھی افسر کے دورہ پر ویڈیو کا اہتمام ضروری سمجھا گیا تاکہ اوپر ” نام نہا د خادم اعلیٰ ” کو اطلاع مل جائے کہ خوب دورے ہورہے ہیںاور ” سب اچھا ” جارہا ہے ۔ایکسپرٹ اور کرپٹ بیورو کریٹ ہمیشہ ہی حکمرانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ایسے بازاروں اور میلے ٹھیلوں کا اہتمام کرتے رہے ہیں تاکہ ایسے کاموں میں فرضی جمع تفریق کرکے لاکھوں روپوں کی دیہاڑیاں لگ سکیں ۔بیوقوف حکمران ہمیشہ سے ہی کان کے کچے ہوتے ہیں وہ اپنی تصویروں اور بینروں کا اہتمام کروانے کے لیے یہ دھول بھی چاٹ جاتے ہیں کہ ان کی مفت میں سرکاری خزانے سے ہی ” بلے بلے ” ہوتی رہتی ہے ۔پھر ذرا غور کیجیے کہ جن افسروں کے حکمران خود بدعنوانیوں میں ملوث ہوں وہ کیسے ایمانداری سے اپنے کام نمٹا سکتے ہیں "۔
کنند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز ۔کبوتر باکبوتر باز با باز۔آخر سرے محل، وکی لیکس ،سوئس اکائونٹس کے مالک ،پاناما لیکس میں کھربوں روپوں کے والی وارثان ،یوسف گیلانی و راجہ رینٹل اور عمرانی نیازی لیکس کیا بھولے بادشاہ تھے ؟کہ اربوں کھربوں کما کر لکڑ ہضم پتھر ہضم کی طرح ڈکار گئے۔ ان کا کچھ نہ بگاڑا جا سکا تو معمولی بیورو کریٹ اور نچلے ملازمین کی چند لاکھوں کی ہیرا پھیری کرنے پر کوئی کیسے ان کا بال بھی بیکا کرسکتا ہے ۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں