یومِ تکبیرکااصل پیغام
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
سی پیک پراجیکٹ کوآج دس سال ہوگئے ہیں لیکن ہماری سیاسی کوتاہیوں اوراقتدارکی ہوس نے اسے ابھی تک پروگرام کے مطابق مکمل نہیں کیااوراس موضوع پرکئی مرتبہ دلائل کے ساتھ لکھ بھی چکاہوں کہ اس پراجیکٹ کے فوائداورثمرات کو کس طرح پاکستانی عوام کی جانب موڑاجاسکتاہے اور پاکستان جوابھی تک اپنی معاشی پریشانیوں کی وجہ سے اپنی خودمختاری کو بچانے کیلئے شب وروزجوجانی اورمالی قربانیاں دے رہاہے ،اس میں ہمارے اپنوں کاکس قدرہاتھ ہے اوراس منصوبے کوختم کرنے کیلئے اغیارکی سازشوں کاسلسلہ مسلسل جاری اورساری ہے جس کی بنائپرملکی خوشحالی کاراستہ روکنے کیلئے چین نے اکیسویں صدی کے میری ٹائم سلک روڈکاتصور2013ئمیں پیش کیاتھا،جس کے ذریعے بحرالکاہل،جنوب مشرقی ایشیا، بحرہند اورمشرقی افریقا کو جوڑنے کیلئے انفرااسٹرکچرکی تعمیرکااعلان کیاگیا۔
میری ٹائم سلک روڈسمندری راستہ ہے ،جس سے اقتصادی راہداری کی تکمیل ہوگی،اس منصوبے کے تحت پورے وسط ایشیامیں انفرا اسٹرکچر کی تعمیرپر توجہ مرکوزکی گئی ہے ۔ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کاایک مقصدپورے ایشیامیں چین کے تجارتی اوراس کی حفاظت کیلئے عسکری اثرورسوخ کوبڑھانابھی ہے ۔ایشیاکے ترقی پذیرممالک میں انفرااسٹرکچرپرسرمایہ کاری کی شدیدکمی ہے ۔اس لیے خطے کے زیادہ ترممالک نے جہاں چین کی سرمایہ کاری کاخیر مقدم کیاہے وہاں اسے امریکاکے دباؤکابھی سامناہے ۔
چین کی پیشکش کے حوالے سے معاشی استحکام اورسیاسی و جغرافیائی ارادوں پرسوالات بڑھتے جارہے ہیں،اس منصوبے کا مقصد بنیادی طورپربحرہندکے ممالک کوباہم جوڑناہے ۔اس منصوبے میں خاص طورپربندگاہوں کی تعمیرکو اہمیت دی گئی ہے ، جس کی وجہ سے سوال اٹھ رہاہے کہ یہ منصوبہ صرف معاشی اورسرمایہ کاری کیلئے ہے یاپھراس کے عسکری مقاصدبھی ہیں۔ اس حوالے سے بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری وصول کرنے والے ممالک کی قومی اورخارجہ پالیسی پرچین کے ممکنہ اثرات کے خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔اس ساری صورتحال کی روشنی میں سی ایس آئی ایس نے 7ماہرین پرمشتمل کمیشن قائم کیا،جومیری ٹائم سلک روڈمنصوبے کے تحت بحرہندمیں چین کے ترقیاتی منصوبوں کے معاشی اورجیواسٹرٹیجک اثرات کاجائزہ لے گا۔ان ماہرین کی تحقیق اس رپورٹ میں پیش کی گئی ہے ۔اس مضمون میں انفرا اسٹرکچر کے 4منصوبوں کاتجزیہ کیا گیاہے جس میں3 میری ٹائم سلک روڈکے چینی منصوبے ہیں اورایک اس کے جواب میں بھارتی منصوبہ ہے ۔
چینی منصوبوں میں میانمارکاانڈیاکوگھیرنے کی چین کی مسلسل کوششوں کے ایک حصے کے طورپر،اس نے میانمارکے مغربی ساحل پرکیوکفوبندرگاہ کی تعمیرکوتیزکردیاہے ۔بحری مرکزکوممکنہ طورپرجب بھی ضرورت ہوفوجی معاملات کیلئے دوبارہ استعمال کیاجاسکتاہے ۔سری لنکا”ہامبانتوتا”پاکستان کا”گوادر”شامل ہیں جبکہ بھارت نے ایرانی”چاہ بہار”بندرگاہ کی تعمیرکے منصوبے پرجوکام شروع کیاتھا،فی الحال انتہائی سست روی کاشکارہوچکاہے ۔
جب سے سی پیک اورون بیلٹ ون روڈکے پراجیکٹس عملی شکل اختیارکرتے چلے جارہے ہیں،ان کے خلاف مخصوص پروپیگنڈہ بھی تیزہوتاجا رہا ہے تاکہ یہاں کی آبادی کوان منصوبوں کے خلاف مزاحمت کیلئے کھڑاکیاجائے ۔اس کام کے حوالے سے گریگ پولنگ نے راخائن میں خلیج بنگال کے کنارے موجودکیوکفوبندرگاہ پرچینی سرمایہ کاری کے معاشی اورتزویراتی مقاصد پرروشنی ڈالی ہے ۔چین نے اپنے منصوبے کی تکمیل کیلئے گہرے پانی کی بندرگاہکیوکفواوراس سے ملحقہ انڈسٹریل ایریااوراقتصادی زون کی تعمیرکاٹھیکہ حاصل کرتے ہی اسے تیزی کے ساتھ مکمل کرنے پراپنی پوری توجہ مرکوزکررکھی ہے ۔جنوب مغربی چین کے صوبے ”یوآن”کے دارالحکومت کوقدرتی گیس اورتیل کی فراہمی کی لائنیں بھیکیوفکوسے گزرتی ہیں۔یہ منصوبہ تیل اورگیس کی درآمدات کیلئے آبنائے مالاکہ پرچین کاانحصارکم کرنے کیلئے اس کی تزویراتی کوششوں کی عکاسی کرتاہے ۔اس طرحکیوفکومیں گہرے پانی کی بندر گاہ کی تعمیرسے چین کواپنے اندرونی صوبوں کی تعمیروترقی میں مددملے گی۔گریگ پولنگ نے خطے میں موجودان خدشات کابھی حوالہ دیاہے کہ مستقبل میں چین اس گہرے پانی کی بندرگاہ کو معاشی استعمال کے ساتھ ساتھ اس کافوجی استعمال بھی کرسکتا ہے جبکہ سب بڑاخطرہ یہ ہے کہ چین نے میانمار کو قرض دے کراس کی معیشت کومکمل طورپرقابوکرلیاہے ۔
جوناتھن ہیل مین نے سری لنکا کی بندرگاہ ہامبانتوتاپرچین کے ترقیاتی منصوبے کاجائزہ لیاہے ۔انہوں نے خدشہ ظاہرکیاکہ کولمبو کی بندرگاہ کی موجودہ صلاحیت اورتوسیع منصوبے کوپیش نظر ر کھتے ہوئے ہامبانتوتاکی بندرگاہ پرچینی بحریہ ممکنہ بحری اڈہ تعمیرکرسکتی ہے ۔جوناتھن کاکہناہے کہ جس طرح سری لنکانے 99سالہ لیزپریہ بندرگاہ چین کے حوالے کی ہے اس سے خدشہ پیداہوتاہے کہ چین سری لنکاکوبھی قرض کے جا ل میں پھنسارہاہے ۔ جوناتھن کاکہناہے کہ ہامبانتوتاکاکیس یہ سبق دیتاہے کہ جن ممالک میں اس طرح کے منصوبوں پرکام ہورہاہے انہیں اپنے انفراسٹرکچرکی تعمیرکیلئے طویل المیعاد معاہدوں پردستخط کرنے چاہیے تاکہ وہ قرضوں کے جال میں نہ پھنس جائیں اوراس کے ساتھ ہی بین الاقوامی برادری کوبنیادی منصوبوں کیلئے چین کی مالی امداد کامتبادل فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔بھارتی تجزیہ نگارگرمیت کنول نے بھی اس منفی پروپیگنڈہ میں حصہ لیتاہوئے یہ ہرزہ سرائی کی ہے کہ گوادربندرگاہ کی تعمیر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا اہم ترین حصہ ہے سی پیک پاکستان اورچین کے درمیان مضبوط تعلقات کی علامت بن چکاہے ۔گرمیت کے مطابق دونوں ممالک ہی سی پیک کے حوالے سے خدشات کاشکار ہیں۔چین کواپنے مزدوروں کی سلامتی کے حوالے سے خدشات ہیں توپاکستان کوپریشانی ہے کہ سی پیک کے نتیجے میں قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا،جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوسکتاہے ۔گرمیت نے بحرہند کے گیٹ وے گوادرتک چینی بحریہ کی ممکنہ رسائی کے سیکیورٹی اثرات کا بھی جائزہ لیاہے ۔امریکااوربھارت کی منافقت اورخوف کایہ عالم ہے کہ انہوں نے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اسٹرٹیجک اثرات سے نمٹنے کیلئے بھارت،جاپان،آسٹریلیااورامریکاکے درمیان ایک معاہدہ بھی طے پاچکاہے جواس بات کی نشاندہی ہے کہ امریکااپنے ان تمام اتحادیوں کی مددسے چین کوگھیرنے کامنصوبہ بناچکاہے جبکہ چین بھی اس کے مقابلے میں خاموش نہیں ہے ۔
ادھرہرش پینٹ کے مطابق چین انفراسٹرکچرسرمایہ کاری کے ذریعے ”گریٹ گیم”کھیلنے والاتنہاملک نہیں،بلکہ بھارت بھی اس دوڑمیں شامل ہے ۔ بھارت کاایران کی چاہ بہاربندرگاہ کی تعمیرمیں مددکرنادہلی کے عزائم کی عکاسی کرتاہے کہ بھارت خطے کو جوڑنے کیلئے خاص کرافغانستان تک رسائی کیلئے انفراسٹرکچرکوبہترکرنے کیلئے اب بھی ہاتھ پاؤں ماررہاہے ۔چاہ بہار بندرگاہ چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والی گوادربندرگاہ کے قریب واقع ہے ۔چاہ بہاربندرگاہ کی بھی خطے میں اہم اسٹرٹیجک حیثیت ہے ،جس کے ذریعے چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرات کوکنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی شامل ہے لیکن ہرش نے بھارتی حکمت عملی میں پیچیدگی کی چندبرس قبل نشاندہی بھی کی تھی،جس کی وجہ ایران کی جانب سے چاہ بہار بندگاہ کی تعمیرمیں پاکستان اورچین کا کردارقبول کرناعین ممکن ہے اوروہی ہواکہ چین نے بروقت اپنی بہترخارجہ اورکامیاب معاشی پالیسیوں کی بناء پرامریکااوراس کے اتحادیوں کے منصوبوں کاتدارک کرلیاہے ۔ان چارمنصوبوں کے تجزیہ کے علاوہ دومضامین اوربھی ہیں،جن میں چین کے میری ٹائم سلک روڈ کے معاشی اوردفاعی اثرات پرتبصرہ کیاہے ۔ میتھیو اور جوناتھن نے بحرہندکی تجارتی اہمیت کواجاگرکیاہے ،مثال کے طورپردنیاکی10مصروف ترین تجارتی بندرگاہیں بحرہندمیں واقع ہیں۔
دنیابھرمیں تیل کی آدھی تجارت بحرہندکے ذریعے ہی ہوتی ہے ۔چین کی سرمایہ کاری معاشی مقاصد رکھتی ہے یااسٹرٹیجک؟چینی منصوبے کے نتیجے میں معاشی استحکام کااندازہ لگانے کیلئے میتھیواورجوناتھن نے تین مختلف معیار اور اصول متعارف کرائے ہیں،شپنگ لائنزکوقریب لانا،موجودہ بندرگاہوں میں فاصلے کم کرنااورملک کے اندرونی علاقوں کوبندرگاہ سے جوڑنے کیلئے سڑکوں کی تعمیر۔ میتھیو اور جوناتھن کے مطابق چینی منصوبے کوان تین معیارپر رکھ کرجانچنے سے پتالگاکہ اس منصوبے کومعاشی مقاصدسے جوڑناغلط ہے ۔زیک کوپرکے مطابق بحرہندمیں چینی فوجیوں کی موجودگی میں اضافہ حیرت انگیزنہیں ہے ،چین بھی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے روایتی راستے پر گامزن ہے ۔چین بیرون ملک اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اپنے فوجی آپریشنزمیں توسیع کررہاہے ۔بحرہندکے راستوں پرچینی تجارت کاانحصاربہت زیادہ ہے ، یہ تجارتی راستے چین کیلئے بہت اہم ہیں،خاص کرتوانائی کی فراہمی کیلئے ،اس لیے چینی حکومت کی جانب سے بحرہندمیں اپنے مفادات کاتحفظ کرناایک قدرتی امرہے ۔
زیک کے خیال میں بحرہندمیں چینی فوج کی موجودگی کے سیکیورٹی اثرات ملے جلے ہوں گے ۔ان کوششوں سے خطے میں چین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوجائے گا۔زمانہ امن میں قزاقوں کے خلاف آپریشنز اورخطے کی دیگر افواج سے تعاون پرچین کے بحری جہازوں کوبحرہندکی بندرگاہوں تک رسائی مل سکتی ہے ،جہاں سے وہ تیل اوردیگرسپلائی کاسامان حاصل کرسکتے ہیں ۔زمانہ جنگ میں بحرہندمیں موجودچین کے بحری جہازاوراڈے دشمن کیلئے آسان ہدف ثابت ہوں گے ۔اس سب کے باوجود مستقبل میں بحرہند میں چین کے سیاسی،معاشی اورعسکری اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا،جس کی وجہ سے بحرہندکے حوالے سے حکمت عملی بنانے والوں میں تشویش رہے گی۔ بحرالکاہل سے مشرق وسطیٰ جانے والے اہم راستے ،خلیج ہرمزاورآبنائے مالاکہ کے چیک پوائنٹس کے حوالے سے امریکااورآسٹریلیامیں تشویش پائی جاتی ہے ۔خطے میں چین کے بڑھتے اثرات سے جاپان بھی تشویش میں مبتلا ہے ۔بھارت بھی بحرہندمیں چین کی جانب سے بنائی جانے والی”موتیوں کی مالا”(کی مانندبندرگاہیں)سے پریشان ہے ۔ہمالیہ میں جاری چین اوربھارت کی طویل مسابقت کے پس
منظرمیں ان بندرگاہوں کی وجہ سے خطے میں چین کونئے اختیارات حاصل ہوجائیں گے ۔گریگ کے مطابق میری ٹائم سلک روڈ کی وجہ سے پیداہونے والی غیریقینی صورتحال کاامریکا، جاپان،بھارت اورآسٹریلیااپنے قائم ہونے والے اتحادکے ذریعے جواب دے سکتے ہیں۔جسکی برکراوراینڈریونے چارملکی سیکورٹی ڈائیلاگ(کواڈ)کے تاریخی کردارکاجائزہ لیاہے ۔یہ چار ملکی گروپ آسٹریلیا،جاپان، بھارت اورامریکا نے 2004 ئمیں بحرہندمیں سونامی کے بعدانسانی مددکیلئے قائم کیاتھا۔چین کے ممکنہ ردعمل کے خدشے کی وجہ سے چاروں ممالک باقاعدہ طورپرگروپ کو فعال نہیں کرسکے تھے ،مگراب چاروں ممالک نے کواڈکو2018ء سے دوبارہ فعال کردیاہے جوتجزیہ نگاروں کے مطابق خطے میں چین کی بڑھتی معاشی اورعسکری سرگرمیوں کاجواب ہے ۔تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ بظاہرچاروں جمہوری ممالک کے درمیان بحرہندکوسب کیلئے کھلارکھنے کیلئے تعاون کرنے کی حکمت عملی پراتفاق پایاجاتاہے لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اورعسکری طاقت کوروکنے کاپلان ہے ۔کواڈمیں جہاں چین کی حکمت عملی میں مثبت تبدیلی کروانے کی پوری صلاحیت ہے لیکن بہت محتاط اندازمیں اقدامات کرنے کے باوجودچین کو اس کاپوراادراک ہے اور چین کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ بیانات میں الجھنے کی بجائے ٹھوس اقدامات پربھرپورتوجہ اوربعدازاں جواب دینے کی عملی صلاحیت کامظاہرہ کرنے میں سستی کامظاہرہ نہیں کرتا۔
یہ رپورٹ سی ایس آئی ایس کے ماہرین نے بحرہندکی جیوپولیٹیکل صورتحال کے حوالے سے تیارکی ہے ۔ماہرین کے مطابق میری ٹائم سلک روڈمنصوبہ نہ تومکمل طورپرمعاشی منصوبہ ہے اورنہ مکمل طورپرعسکری منصوبہ ہے ۔چین کی حکمت عملی تیاری کے مراحل سے گزرکرتکمیل کی طرف رواں دواں ہے ۔اس رپورٹ سے امریکاودیگرممالک کویقیناًمیری ٹائم سلک روڈکے حوالے سے اپنی حکمت عملی تیار کرنے میں مدد ملی ہے ۔بظاہرتواس رپورٹ کے بعدتوقع کی جارہی تھی کہ بیجنگ کواپنی معاشی حکمت عملی کومزید واضح کرنے کیلئے زورڈالاجاسکے لیکن سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ چین ان تمام خطرات کے سدباب کیلئے اپنے دفاعی کارڈاپنے سینے سے لگائے بیٹھاہے اوریہ طے ہے کہ امریکااوراس کے اتحادیوں کی موجودہ پالیسیاں ہی ان کوڈبونے کیلئے کافی ہیں جس کی وجہ سے ان کے مغربی اتحادیوں نے اب تک ایران کوتنہاکرنے کی امریکی پالیسی سے خودکوالگ رکھاہواہے اوراب توبراہِ راست یورپ اورچین کے مابین بڑھتے تعلقات نے گیم کارخ تبدیل کردیاہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ خودپاکستان نے اس منصوبے کے ساتھ کیاسلوک کیا؟ایک اہم رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں یہ انکشاف کیاگیاہے کہ منصوبوں کی تکمیل میں طویل تاخیراور بقایا جات کی تعمیرکے درمیان،چین کے صوبہ سنکیانگ سے بلوچستان کے گوادرتک چلنے والابہت مشہورچائناپاکستان اکنامک کوریڈورکوتیزی سے غیرفعال کرنے کیلئے پہلے کام میں سستی اور بعد ازاں کوروناکے غلاف میں لپیٹ کراسے روک دیاگیا،جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں بڑھتی مایوسی نے کئی شکوک وشبہات پیداکردیئے ہیں۔شنید یہ ہے کہ اب بیجنگ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کیلئے گروی رکھے ہوئے فنڈز جاری کرنے سے گریزاں ہے ۔دریں اثناء چینی کمپنیوں نے بقایا جات کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہوئے سی پیک منصوبوں میں بجلی کی پیداواربھی روک دی ہے ۔سی پی ای سی کے قرضوں پرسودکی بلند شرح، پراجیکٹ کی بڑھتی ہوئی لاگت،کمزورپراجیکٹس،اورسی پی ای سی کے انفراسٹرکچرپرحملے بڑے مسائل ہیں جو ایک سفیدہاتھی کاخواب بن گیاہے ۔اس سے پاکستان میں مایوسی بڑھ رہی ہے اوروفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی وترقی احسن اقبال نے حال ہی میں اہم منصوبوں کی سست رفتاری پرعدم اطمینان کااظہارکیاہے ۔
یہ منصوبہ،چین اورپاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کوبڑھانے کیلئے آج پہلے سے زیادہ اہم ہے لیکن دشمنوں کی طرف سے دہشتگردی کے خطرات سے متاثرہ علاقوں میں چیلنجزک اسامناہے ۔ بلوچستان کے علاوہ سی پیک کی تعمیراتی جگہوں کو نشانہ بنایاجارہاہے جیساکہ حال ہی میں بشام میں چینی باشندوں کولیجانے والی بس پرخودکش حملہ ایک مرتبہ پھرسیکورٹی کے خطرات کی عکاسی کرتاہے ۔ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے ،جوتاریخی عسکریت پسندی کیلئے مشہورہیں،سیکورٹی کے منظرنامے میں پیچیدگی پیداکررہے ہیں۔ مزید برآں،جغرافیائی سیاسی کشیدگی اورکوریڈورکی حساس سرحدی علاقوں سے قربت مزیدمضبوط حفاظتی اقدامات میں اضافہ کرکے اور اضافی سیکورٹی فورسزکی تعیناتی اورنگرانی کے نظام کونافذ کرنے کیلئے دونوں حکومتوں نے مشترکہ پلان بھی تیارکیاہے جس پرعملدرآمد شروع ہوچکاہے ۔چین کوباقاعدہ بشام حملے میں ملوث سرحدپارٹی ٹی پی کی طرف سے اس حملے میں پلان کرنے والوں،ان حملوں میں ملوث ان تمام افرادکے باقاعدہ ثبوت مہیاکئے گئے ہیں،جن کوچین نے باقاعدہ تسلیم کرتے ہوئے مشترکہ لائحہ عمل کے طورپراب افغانستان کی موجودہ حکومت سے اس کو کنٹرول کرنے کامطالبہ کیاجائے گا۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پراجیکٹ پرمجرمانہ تاخیرکی فوری تحقیقات کرکے ان قومی مجرموں کی نشاندہی کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ان کوسخت ترین سزاسناکردشمنوں کوواضح پیغام دیاجائے کہ ملکی سلامتی کیلئے ساری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح تیارہے ۔دراصل یہ ہے یومِ تکبیرکااصل پیغامجس کوہم ابھی تک فراموش کئے بیٹھے ہیں۔