بات احساس کی ہے!
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
مسائل کے بھنور میں چکراتا وطنِ عزیز تیزی سے معاشی دلدل کی طرف لڑھکتا جارہا ہے مگر بدترین معاشی صورتحال کے باوجودکوئی عالمی اِدارہ قرض کی صورت میں بیساکھی فراہم کرنے کو تیار نہیں ،جس کی بڑی وجہ ملک میں قرض واپس کرنے کی صلاحیت میں کمی آناہے۔ چند ایک دوست ممالک نے اگر قرضے ری شیڈول کیے بھی ہیں تو سود بڑھادیاگیا ہے۔ صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہنگامی طورپر حل تلاش کیا جائے اور ذمہ داران انتشار و افراتفری بڑھانے پر توجہ دینے کی بجائے مل کر ملک میں سیاسی استحکام لانے کی کوشش کریں۔
پاکستان ،افغانستان اور چین پر مشتمل گزشتہ ماہ مئی کے دوسرے ہفتے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سہ فریقی کانفرنس میں شریک چینی وزیرِ خارجہ چن گانگ نے بھی اسی جانب توجہ مبذول کرائی کہ اگر معیشت کو بہتر بنانا ہے توملک سے سیاسی عدمِ استحکام ختم کریں لیکن لگتاہے کہ حکومت نے مہمان کی صائب تجویز بھی سنی ان سنی کردی ہے، اب اِس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے تعطل کا شکار قرض پروگرام تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود جان بوجھ کر بحال نہیں کیا جارہا اورایسی کڑی سے کڑی شرائط عائد کی جارہی ہیں جنھیں کسی آزادوخود مختار ملک کے لیے تسلیم کرنا ممکن نہیں مگر خراب معاشی حالات کی وجہ سے پاکستان یہ کڑوے گھونٹ بھی پی رہا ہے۔ اِس کے باوجود آئی ایم ایف اعتماد کرنے پر آمادہ نہیںجس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت نے باہمی اختلافِ رائے کو زاتی دشمنی بنا لیا ہے اور عالمی اِداروں کو خدشہ ہے کہ آج کی حکومت جو وعدے کر ے ممکن ہے اُن پر عملدرآمد سے آج کی اپوزیشن جب حکومت میں آئے تو پاسداری سے انکارکردے نازک حالات کا تقاضا ہے کہ قومی مسائل پرحکومت ،اپوزیشن اور اِدارے اتفاقِ رائے پیدا کریں شاہد خاقان عباسی نے اسی الارمنگ صورتحال کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ آج ہم اِس نہج پر پہنچ گئے ہیں جہاں الیکشن بھی مسائل کا حل نہیں اور بات مذاکرات کی نہیں معاملات طے کرنے کی ہے۔ نیزکوئی ایک جماعت اکیلی تمام مسائل حل نہیں کر سکتی بلکہ نظام بدلے بغیرمعیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی اِس کے لیے سٹیک ہولڈرزکو ملک کے لیے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔
ملک پراِس وقت چودہ جماعتی اتحادپی ڈی ایم کی حکومت ہے جو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپوزیشن پر قہر وغضب ڈھارہی ہے نو مئی کے واقعات انتہائی قابلِ نفرت ومذمت ہیں جن کی کوئی بھی مکتبہ فکر تائید نہیں کر سکتا کیونکہ دفاع وطن کی ذمہ داری دفاعی اِداروں کی ہے۔ جنھیں کمزور کرنا ملک کا دفاع کمزور کرنے کے مترادف ہے لیکن اِ س واقعہ کی آڑ میں عسکری اِدارے کو تحریک ِ انصاف کے مدِ مقابل لا کھڑا کرنا بھی قابلِ نفرت ومذمت ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ واقعات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں اور پھر ٹھوس شواہد کی بناپر نہ صرف ذمہ داران کا تعین کیاجائے بلکہ ملوث افراد کو کیفرِِ کردار تک پہنچایا جائے۔ ایساہونے سے کسی کے پاس انتقامی کارروائی کا واویلا کرنے کا جواز بھی نہیں رہے گا۔ اب تک دستیاب اعدادو شمار کے مطابق تمام مسائل کا حل ایک عدد پریس کانفرنس تصورکرلی گئی ہے جو بھی تحریکِ انصاف سے الگ ہوتا ہے، اُسے الزامات سے بریت کی کلین چٹ مل جاتی ہے اور جو ایسا کرنے سے گریز کرتا ہے، اُس کے خلاف اچانک ثبوت ملنے لگتے ہیں جس سے اِس تاثر کوتقویت مل رہی ہے کہ نو مئی واقعات کی آڑ میں افراد نہیں بلکہ تحریکِ انصاف نشانہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عمران خان کی طرف سے حکومت کو مذاکرات کی پیش کش بغیر سوچے سمجھے پایہ حقارت سے ہرگزنہ ٹھکرائی جاتی۔ بلکہ درپیش مسائل کے حل میں تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ۔اِس میں شائبہ نہیں کہ تمام سیاسی رہنمائوں سے زیادہ تارکینِ وطن میں عمران خان کو مقبولیت حاصل ہے مگر جب سے موجودہ حکمران اتحاد برسرِ اقتدار آیا ہے، ترسیلاتِ زرمیں حیران کُن کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ حکومت پر بداعتمادی کی عکاس ہے۔ ایسے حالات میں جب آئی ایم ایف سے سوا ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنادشوارہے نیز دوست ممالک بھی قرض ری شیڈول کرتے ہوئے شرح سودبڑھا رہے ہیں تارکینِ وطن سے زیادہ بہتر مدد مل سکتی ہے۔ اِس کے لیے اپوزیشن رہنما کو راضی کرنا چنداں مشکل نہیں،مگر بات احساس کی ہے اگر ملک وقوم کا احساس ہی نہیں صرف اقتدار سے غرض ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے جو ملک میں ہورہا ہے۔
ملکی معیشت ڈالر سے جڑی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی شرح سے ملک میںمعاشی بے یقینی کی فضا ہے ۔دنیا کی تمام ریاستیں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے سہولتیں دیتی ہیں ،تاکہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے کسی خوف یا جھجک کا شکارنہ ہوں۔ مگر پاکستان میں خوف وہراس کی ایسی فضا ہے جس کی موجودگی میں بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہی نہیں۔اب توسیاسی حالات ایسے ہیں کہ غیرملکی سرمایہ کار تو ایک طرف پاکستان کے امیر لوگ بھی صنعتی و کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں کہ جانے کب کوئی آکر دبوچ لے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری تیس فیصد جبکہ ملکی سرمایہ کاری میں نصف حد تک کمی آچکی ہے ،جبکہ برآمدی حوالے سے ملک کو سو ارب ڈالرکمی کاسامنا ہے جس سے نہ صرف ڈالر کی قیمت میں ٹھہرائو نہیں آرہا بلکہ مہنگائی بھی عروج پرجاپہنچی ہے ۔اشیائے خورونوش کی قیمتیں اِس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ عام آدمی توایک طرف متوسط طبقہ بھی ازحد پریشان ہے ۔عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ گرکر69ڈالر تک آچکے ہیں لیکن شہریوں کو صرف آٹھ روپے کا ریلیف دیا گیاہے ،حالانکہ تیل کی قیمت جب 119 ڈالر تھی تب پاکستان میں 150روپے لیٹر پیٹرول دستیاب تھا ۔آج نصف حد تک کمی کے باوجود262روپے فی لیٹر فراہم کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں جب حکمران خود کو عوام دوست قراردیتے ہیں تو ایسے دعوئوں کو عام آدمی شک کی نگاہ سے دیکھتاہے یہی شک انتخابات میں شکست کا موجب بنتا ہے۔
حکومتی رٹ روزبروز کم ہوتی جارہی ہے، اگر کبھی پیٹرول نرخ کم کیے جاتے ہیں تو انتظامیہ میں اتنی سکت نہیں کہ کرایہ وغیرہ میں کمی کراسکے۔ ویسے بھی احساس ہی نہ ہوتو فرائض کی ادائیگی کے لیے خوار ہونا کسی کو اچھا نہیں لگتا۔بجلی،گیس ،پیٹرول اوراشیائے خورونوش کی قیمتوں کے حوالے سے آمدن کا جائزہ لیں تو صورتحال حکومتی بے حسی کی جانب اشارہ کرتی محسوس ہوتی ہے، کیونکہ عام آدمی کی قوتِ خرید میں تو کمی واضح ہے تنخواہ دار طبقہ ،کسان،مزدورسبھی مہنگائی پریشان اور خوفزدہ ہیں لیکن حکمران بہتری لانے کے دعوئوں تک محدود ہیں مگرعملی طورپر اپوزیشن کو کچلنے کے لیے تمام وسائل وقف ہیں۔ تاکہ انتخابی میدان میں کوئی مدمقابل نہ رہے۔ اِس دوران پکڑ دھکڑ سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے میں تو وہ بڑی حد تک کامیاب ہیں لیکن کیا عام آدمی کی خوشحالی کے کسی منصوبے پر بھی کام ہورہا ہے؟ اِس سوال کا جواب سوائے نفی کے کوئی اور ممکن ہی نہیں۔ ظاہر ہے جب حکمرانوں کو احساس ہی نہ ہو تو عام آدمی کی اجیرن زندگی کیونکر بہتر ہو سکتی ہے؟مگر یادرکھیں دفاعی اِداروں کو اپوزیشن کے مدمقابل لانے اورسیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے سے ممکن ہے۔ کسی حد تک اپوزیشن کو سیاسی طورپر نقصان ہو مگر یقینی جیت کا دعویٰ پھربھی غلط ہوگا ۔ذہن نشین کرلیں عوامی مشکلات کا احساس کرنے اور حل تلاش کرنے سے ہی عوامی پزیرائی ملتی ہے ۔
٭٭٭