میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قرضوں کے جال سے نکلنے کی تدبیر تو کریں!

قرضوں کے جال سے نکلنے کی تدبیر تو کریں!

جرات ڈیسک
جمعه, ۳ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی ضرورت کا اظہار کرتے ہوئے قرضوں کے جال کو موت کا پھندا قرار دیا ہے۔ ایک ایسے وزیراعظم کے منہ سے قرضوں کے بارے میں اس طرح کا تبصرہ یقینا غیر متوقع کیونکہ غیر ملکی قرضے حاصل کرنے میں مسلم لیگ ن ہمیشہ پیش پیش نظر آئی ہے اور قرضوں کی منظورپر ایسے جشن مناتی رہی جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کرلیا ہو۔
اگر تمام حکمراں یہ عزم کرلیتے کہ بیرون ملک محلات کھڑے نہیں کرنا بلکہ ملک کو پیروں پر کھڑا کرنا ہے تو پھر قرضوں کی معیشت پر انحصار ہی نہ کرناپڑتا اور ترقیاتی مقاصد کیلئے لئے جانے والے قرضوں کی اگر پوری کی پوری رقم لوگوں کی تجوریوں میں منتقل کیے جانے کے بجائے حقیقی ترقیاتی مقاصد پر ہی خرچ کی جاتی اور اس رقم کو زیادہ کمیشن کے حصول کیلئے نمائشی منصوبوں پر خرچ کرنے کے بجائے عوام کو مسائل سے نجات دلانے والے منصوبوں پر خرچ کیاجاتا تو آج اس ملک کے عوام گریہ کناں نہ ہوتے۔آج ہی خبر چھپی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی آخری قسط منظور کئے جانے پرشہباز شریف نے خوشی کااظہار کیا ہے لیکن ایسی کوئی ہدایت جاری نہیں کی کہ قرض کی یہ رقم انتہائی ضروری منصوبوں پر خرچ کی جائے اور یہ رقم نئی گاڑیوں کی خریداری یا وزرا اور سرکاری افسران کو انعامات تقسیم کرنے میں ضائع نہ کی جائے۔ وزیراعظم سعودی عرب کے دورے پر بھی درحقیقت مدد مانگنے ہی گئے تھے اور انہوں نے اس پر سعودی حکومت کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔گویا ایک طرف ہم قومی قرضوں پر قرضہ چڑھائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں قرضوں کا جال موت کا پھندا ہے۔کیا اِس قسم کی پالیسیوں سے جو ہمارے ہاں کئی دہائیوں سے جاری ہیں قرضوں کے پھندے سے نجات مل سکتی ہے۔ابھی حال ہی میں یہ خبر چھپی تھی کہ حکومت نے مقامی بینکوں سے 5ہزار ارب سے زائد کا قرضہ لیا ہے،آمدنی بڑھ نہیں رہی،اخراجات کم نہیں ہو رہے، بچت کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا تو پھر قرضوں سے نجات کیسے ملے گی۔کوئی ہے جو اِس بارے میں قوم کو مطمئن کر سکے۔چند روز پہلے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا یہ بیان بھی عوام کی سمع خراشی کر چکا ہے کہ انہیں ٹیکس دینے ہوں گے،اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کیلئے ایسے بیانات کسی تازیانے سے کم نہیں ہوتے، یہ وہ تکنیک ہے جو سالہا سال سے جاری ہے اور ناکام ہو چکی ہے۔وزیراعظم نے یہ نوید تو سنائی ہے کہ بڑے پیمانے پر اصلاحات کر رہے ہیں،مگر یہ اصلاحات اگر روایتی ہوئیں تو ان کا نتیجہ پہلے کی طرح صفر ہی نکلے گا۔یہ مرے کو مارے شاہ مدار والی بات ہو گی۔ اصلاحات کرنی ہیں تو حکومت اپنے اداروں سے کرے۔ بڑے اور امیر ممالک میں بھی ریاستی مشینری پر اتنے شاہانہ اخراجات نہیں کئے جاتے جتنے پاکستان جیسے قرضوں کے پھندے کا شکار ملک میں کئے جاتے ہیں،جہاں 17ویں گریڈ کے ایک اسسٹنٹ کمشنر کو بھی 10کروڑ کی گاڑی دینے کا رواج ہو، وہاں قرضوں کا پھندا کیسے اُتر سکتا ہے۔ سوئی گیس کے ایم ڈی کی پیٹرول کی حد مہینے میں ساڑھے 460لیٹرہے،اسی طرح درجہ بدرجہ نیچے آتے جائیں تو لاکھوں روپے کا پیٹرول ایک ایک افسر پانی کی طرح بہا رہا ہے،ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں گاڑیاں صوبوں اور مرکز کی طرف سے سرکاری افسروں کو دی گئی ہیں،اُن کے پیٹرول، مرمت، ڈرائیوروں اور دیکھ بھال پر کروڑں روپے خرچ ہو جاتے ہیں،پھر اس شعبے میں کرپشن بھی بہت ہوتی ہے۔ جعلی بل اور واؤچرز بنا کر قومی خزانہ خالی کیا جاتا ہے۔ کیا حکومت اس شعبے میں بھی کوئی اصلاحات کرے گی؟ یا اُس نے محمد خان جونیجو کے عبرتناک انجام سے سبق سیکھ لیا ہے،جنہوں نے افسروں کو چھوٹی گاڑیوں پر نبھانے کی جرات کی تھی تو ضیاالحق نے انہیں گھر بھیج دیا تھا۔ایک اور شعبہ جس کی طرف سنجیدہ حلقے ہمیشہ توجہ دلاتے ہیں وہ اس ملک کے امیر طبقے پر براہِ راست ٹیکسوں کا نفاذ ہے۔ ایف بی آر کے کرپٹ افسروں کے گرد تو گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تاہم اُن لوگوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے جرات مندانہ اقدامات ہونا چاہئیں جو خوشحالی کی اعلیٰ حدوں کو چھو رہے ہیں،10-10 کروڑ کی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں،مگر اُن کے ٹیکس کا خانہ خالی ملتا ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو درحقیقت ایف بی آر کے کرپٹ افسروں کو پالتے ہیں اور وہ اپنا حصہ لے کر سامنے کی حقیقتوں سے بھی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔شہباز شریف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ، قرضوں کا جال ہمارے لئے موت کا پھندا بن چکا ہے،مگر اس جال کو توڑنے کیلئے صرف کاغذی پالیسیوں یا باتوں سے کام نہیں چلے گا۔بڑے فیصلے کرنے ہوں گے،جو موجودہ حالات میں کسی معجزے کے بغیر ممکن نہیں۔پاکستان اس وقت جس سیاسی اور معاشی ابتری اور معاشرتی بے چینی کا شکار ہے اس کی وجہ آئین کے مطابق، معاملات کا نہ چلنا یا چلایا جانا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ریاست کے ستون بشمول مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور پریس، آئینی تقاضوں کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا نہیں کر رہے، اپنی اپنی حدود سے تجاوز کرنے کی جسارتوں نے ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ آج ہم شدید بحران کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ 9300 ارب روپے کے ٹیکس جمع ہونے، 70 ارب ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ کی آمدنی اور 200 ارب ڈالر سے زائد قومی آمدنی ہونے کے باوجود ہم ایک مفلس اور بھیک مانگنے والی قوم بنے نظر آتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم ہمارے ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر آئین پاکستان کے مطابق کاروبارِ حکومت و ریاست نہیں چلا رہے۔ہمارے ہاں ادارہ جاتی جنگ جاری ہے۔ سیاستدان، فوج اور عدلیہ ہر ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ میڈیا بھی اس لڑائی میں ایک کھلاڑی کے طور پر شامل ہو چکا ہے ایسی ہی محاذ آرائی کے باعث ہم آج مکمل تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ چند ڈالر ملنے کی خوشی ایسے منا رہے ہوتے ہیں جیسے قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔ ایک ایک روپے کی محتاجی کے باوجود ہماری سرکار کے اللے تللے ویسے ہی جاری ہیں جیسے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ دستیاب وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کی ذمہ داری سرکاری محکموں کے ذمہ داروں پر عائد ہوتی ہے۔ بیورو کریسی سیاسی یا فوجی حکمرانوں کے آدرشوں کے مطابق،وسائل کو استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی ذمہ دار ہے لیکن ہماری سول بیورو کریسی کے بارے میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے یہاں تک کہ صدر مملکت آصف زرداری بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ نا لائق، کرپٹ اور بدنیت ہے۔ فطرتاً کام روکنے، ڈنگ ٹپانے اور معاملات میں غیر ضروری تاخیر کرنے اور الجھانے میں اسے یدطولیٰ حاصل ہے۔ ہماری بیورو کریسی نے نظام کو اپنے ہی ڈھنگ میں ایسے ڈھال لیا ہے کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون کیا ہے اور کام کرنے کی ذمہ داری کس کے سر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے چھوٹے منصوبے کبھی بھی طے شدہ وقت اور بجٹ میں مکمل نہیں ہوئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس بات کے ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے کارسرکار کی انجام دہی کیلئے جو طویل اور غیر ضروری طریق کار تشکیل دے رکھا ہے اس میں ابہام ہی اس قدر ہیں کہ بہتری و بھلائی کی کوئی صورت ممکن نہیں
ہے۔ عوامی خدمات کی فراہمی کے معاملات میں بالخصوص، ہماری بیورو کریسی عوام دشمنی کا ثبوت دیتی ہے۔ اربوں نہیں کھربوں روپے کے قومی وسائل بیورو کریسی کی نالائقیوں، کرپشن اور بدنیتی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور یہ عمل ہنوز جاری ہے اس نظام میں کسی قسم کی تبدیلی، مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہی، ایسے نالائق، کرپٹ اور بدنیت ماہرین اور سرکاری نوکروں کی نظام پر گرفت بڑی پختہ ہے۔ ریاستی ستونوں کی لڑائی میں ہماری بیورو کریسی نیوٹرل نظر آتی ہے لیکن وہ نظام کی اس کمزوری سے مکمل طور پر فائدہ اٹھاتی رہتی ہے۔ ریاستی وسائل پر بُرے طریقے سے ہاتھ صاف کرتی ہے۔ شدید گرمی ہو یا شدید حبس، یہ لوگ پتلون کوٹ پہن کر سرکاری اے سی فل کرکے اپنے دفاتر میں بیٹھتے ہیں۔ کار سرکار کی انجام دہی نہیں کرتے بلکہ اپنی پی آر بنانے اور بڑھانے کے لئے کام کرتے ہیں۔ پلاٹوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھتے ہیں تاکہ اس سے نفع کمایا جا سکے۔ مختلف مافیاز بشمول گندم، چینی، چاول و دیگر اجناس مافیاز کے ساتھ ربط ضبط بڑھا کر ان کے مفادات کو یقینی بنا کر اپنی یافت کے پروگراموں پر بڑی پختگی سے عمل پیرا رہتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو حالات بہتر بنانے کیلئے تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔معیشت کو سنبھالنے کیلئے برطانیہ نے امریکہ سے 17 ارب ڈالر کا قرض لیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ نارمل حالات میں اتنی بڑی قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہوگی۔اس صورت حال کے پیش نظر برطانیہ نے ملک میں معاشی ہنگامی حالات کااعلان کرتے ہوئے راشن، پیٹرولیم مصنوعات اور دوسری کئی اشیا پر حد بندی مقرر کر دی تھی، تاکہ قرض کی ادائیگی کی راہ نکالی جاسکے۔برطانوی وزیراعظم اور اس وقت کے وائسرائے ہند سمیت کسی کو بھی ایک سال میں 2جوڑے کپڑوں سے زائد کپڑے خریدنے کی اجازت نہ تھی۔ پیٹرولیم مصنوعات اور راشن کیلئے کارڈ دئیے گئے تھے جن میں حد مقرر تھی۔ اس طرح برطانیہ نے 1940ء میں لیا گیا قرض 1951سے پہلے واپس ادا کر دیا۔
اب ذرا پاکستان کے حالات کی طرف غور کیجیے۔ 80کی دہائی ہم نے کرائے کے مجاہدین دے کر امریکہ سے ڈالر حاصل کیے جن میں سے کچھ تو براہ راست سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں چلے گئے اور جو پاکستان میں آئے اس سے ہم نے کام کاج کرنا چھوڑ دیا یہ سوچے بغیر کہ یہ جہاد ہمیشہ نہیں رہے گا۔ پھر 90کی دہائی میں جن 2جماعتوں نے باری باری حکومتیں کیں ان کے درمیان اس چیز پر مقابلہ ہوتا رہا کہ کون زیادہ بین الاقوامی قرض لینے میں کامیاب ہوتا ہے۔ جب بھی کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے کوئی قسط مل جاتی تو اسے پاکستان میں اس طرح فاتحانہ مشتہر کیا جاتا جیسے ہم نے بنگلہ دیش واپس لے لیا ہو یا کشمیر پر سے بھارتی قبضہ چھڑا لیا ہے۔
ایک سادہ سا اصول سمجھتے ہیں کہ جب انسان اپنی پے درپے غلطیوں سے قرضوں کی دلدل میں پھنس جائے تو اسے سب سے پہلے اپنے خرچے کم کرنا پڑتے ہیں اور اپنے کچھ اثاثے بھی فروخت کرنا پڑ سکتے ہیں، لیکن کیا ہم نے کسی بھی سطح پر کوئی بچت کی کوشش کی ہے؟ہمارے حکمران، ہمارے بیورو کریٹس، ہمارے دانشور، ہمارے ٹی وی تجزیہ کار اور جدھر بھی دیکھیں سب سوٹڈ بوٹڈ نظر آتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں، جن کو ایندھن بظاہر مفت اور اصل میں عوام کے خون کی قیمت پر ملتا ہے۔ صرف کچھ سرکاری گاڑیوں کو جن میں وزرا اور گریڈ 17 اور اس سے زیادہ گریڈ کے افسران شامل ہیں کی گاڑیوں کے استعمال پر5 سال کیلئے پابندی عاید کردینے یا انھیں روک دینے سے ہی ہم اربوں روپے کی بچت کر سکتے ہیں اور ان گاڑیوں کے روک دینے سے کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔ ستر چھپانے کے لئے 2ہزار روپے کا کپڑوں کا جوڑا مل سکتا ہے، لیکن یہاں لوگ5 لاکھ روپے کے سوٹ پہنے پھرتے ہیں۔ جوتے بھی سوٹ کے مطابق ہی پہنے جاتے ہیں۔ بعض امیر لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر وہ 10 برس تک کپڑے نہ بھی خریدیں تو ان کا گزارہ بآسانی ہو سکتا ہے۔
ہم صرف درآمد ہونے والی غیر ضروری اشیا کو پانچ برس تک نہ خرید کریں تو ہم اربوں ڈالر کے تجارتی خسارے کو بہت کم کر کے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ پھر ایسا کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ ایک طرف ہم گداگر اور دوسری طرف ہماری پوشاکیں ایسی کہ دنیا دیکھ کر دنگ رہ جائے، کبھی کسی نے کینیڈا کے وزیر اعظم یا اس کی کابینہ کے کسی ممبر کو دیکھا ہو کہ انہوں نے کسی اسپیشل برانڈ کا کوئی بہت قیمتی سوٹ پہنا ہو؟کسی نے یورپ کے کسی ملک کی سڑکوں پر سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو دندناتے دیکھا ہے؟ کیا انہیں گاڑیوں کی ضرورت نہیں ہے؟ہمارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ایک طرف ہم شاہانہ زندگی پر اربوں خرچ کرتے ہیں تو دوسری طرف محنت نہیں کرتے، ملکی پیداوار بڑھانے پر توجہ نہیں دیتے بس سارا زور قرض حاصل کرنے پر لگاتے ہیں۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ اچھے کپڑے پہننے اور بڑی گاڑیوں سے عزت بڑھتی ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے،جب قوم دیوالیہ ہو تو پھرحکمرانوں کی بھی کوئی عزت نہیں کرتا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں