مودی سرکار کا اقلیتوں سے ناروا سلوک
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ایک پینل نے سفارش کی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک بدستور خراب ہوتا جا رہا ہے۔اسی لیے پینل نے مذہبی آزادی پر بھارت کو بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیشن کے اراکین کا تقرر صدر اور کانگریس پارٹی کے رہنما کرتے ہیں۔ محکمہ خارجہ نے چین، ایران، میانمار، پاکستان، روس اور سعودی عرب میں مذہبی آزادی سے متعلق جائزہ لینے کے لیے جو پینل مرتب کیا اس آزاد پینل نے محکمہ خارجہ کے اقدام کی توثیق کی ہے۔ پینل کی جانب سے سفارش کے بعد محکمہ خارجہ نے بھارت، نائجیریا اور ویتنام کو بھی فہرست میں شامل کیا۔ یہ لگاتار چوتھی بار ہے کہ امریکی پینل نے بھارت میں بدترین مذہبی آزادی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور پابندی کا مطالبہ کیا۔ پینل کی سالانہ رپورٹ میں بھارتی ریاستوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر تشدد اور ان کی املاک کی تباہی کی جانب اشارہ کیا گیا اور مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان کے تبصروں اور سوشل میڈیا پوسٹس کے لنکس دیے گئے۔ پینل نے کہا کہ امتیازی قوانین کے مسلسل نفاذ کی وجہ سے متشدد ہجوم اور ہندو شدت پسندوں کی جانب سے دھمکی اور تشدد بڑے پیمانے پر پروان چڑھا ہے اور ان انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ ملتی ہے۔
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ پر نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور گارجین سمیت تمام صف اول کے میڈیا نے امریکی کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ امریکی ادارے کی رپورٹ میں ایسے 328 مختلف واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں بھارت میں جبراً مذہب کی تبدیلی کی کوششیں کی گئی ہیں۔بھارت میں کروڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مثبت سوچ کے حامل اور سیکولر بھارت کے حامی ہیں اور اب وہ افراد اپنی آوازیں بھارت سرکار کے رویے کے خلاف اٹھا رہے ہیں۔ کچھ عرصے قبل دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام ساری دنیا نے دیکھا مگر انہوں نے مصلحتاً خاموشی اختیار کی جبکہ خلیجی ممالک نے بھارت کے رویے کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ بھارت سے متعلق بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی میڈیا کی رائے تیزی سے بدل رہی ہے۔
بھارت کی حکمران جماعت کی ترجیحات بالکل واضح ہیں۔ وہ انتہا پسند ہندو ووٹ لے کر برسر اقتدار آئی ہے۔ اس حلقہ اثر کو برقرار رکھنے کیلئے بی جے پی کو کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کے خلاف مخالفت کی فضا برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست چونکہ نفرت اور مذہبی انتہا پسندی سے عبارت ہے، اس لیے وہ اسے انتخابی ہتھکنڈے کے طور پر اختیار کرتی ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک نہ صرف وہاں کی اقلیتوں اور پڑوسی ممالک بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی شدید تشویش کا باعث ہے۔ انتہائی تشویش ہے کہ آر ایس ایس سے متاثرہ بی جے پی حکومت کی امتیازی اور مسلم مخالف پالیسیاں اور عمل بدستور برقرار ہیں یہاں تک کہ کووڈ 19 کے وبائی امراض کے پھیلاؤ کے باوجود مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے منظم مہم ابھی بھی جاری ہے جس سے ان پر مزید تشدد کا اندیشہ ہے۔
بھارت میں ہندو انتہا پسندی نے بربادی پھیلا رکھی ہے۔ نہ مسلمان محفوظ نہ عیسائی محفوظ نہ سکھ محفوظ اور نہ نچلی ذات کا ہندو محفوظ۔ ہر عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ دنیا بھر کے آزاد ماہرین اور میڈیا کی رپوٹیں اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ اپنے آپ کو دنیا بھر میں سیکولر ریاست کے طور پرپیش کرنے والے بھارت میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی میں بھارت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ جہاں گائے کے گوشت کو لے کر اب تک کئی افراد کو بیدردی اور درندگی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔
جیلوں میں آبادی کے تناسب سے زیادہ مسلمانوں کی موجودگی اور پھر دس برس کے بعد عدم ثبوت کی بنیاد پر عدالت سے برات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ یہ سب کچھ ایک خاص مشن کے تحت کیا جارہا ہے۔ اعلیٰ حکومتی اداروں، پولیس فورسز اور تفتیشی ایجنسیوں میں ایسے مخصوص ذہنیت رکھنے والے افسران موجود ہیں۔ جن کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کا استحصال ہے۔بھارت سیکولر آئین کے مطابق کسی شخص کو اسی وقت سزا دی جاسکتی ہے کہ لگایا گیا الزام بھی ثابت ہوجائے چنانچہ مقدمہ چلائے اور صفائی پیش کئے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی لیکن حالیہ برسوں میں جس طرح تمام دستوری تقاضوں کو پامال کر کے اور ان کی دھجیاں اڑا کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں ہندوتوا ذہنیت، آئینی اور تفتیشی اداروں میں جس طرح سرایت کرگئی ہے اس نے اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیتی طبقے پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مذکورہ حالات کیا بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار بیان نہیں کرتے؟ کیا بھارتی مسلمانوں کا ٹھکانہ جیل کی چار دیواری ہی ہے جہاں وہ محفوظ بھی نہیں۔ سیکولر حکومتیں انتخابات کے دوران وعدے تو بے شمار کرتی ہیں کہ مسلمانوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے گا لیکن اقتدار میں آجانے کے بعد انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔
٭٭٭