عیدالفطر کا اہلِ پاکستان سے خطاب
شیئر کریں
میں ایک دن ہوں ، مگر ایک تاریخ ۔ میں ایک تہذیب کا یوں تو یومِ جشن ہوں ، مگر آسمانی مذہب کی عظیم اقدار کا اعلان بھی ہوں۔
میں عیدالفطر ہوں،مسلمانوں کا دن۔ مگر مجھ سے وابستہ خوشیاں کوئی سادہ خوشیاں نہیں۔ میں عید کا وہ دن نہیں جو ہابیل او رقابیل کے درمیان جنگ کے بعد ہونے والی صلح کے طور پر طلوع ہوا تھا۔ میں اہلِ مصر کے دیوتاؤں کی پیدائش کی یاد میں منائے جانے والے اُس دن کی طرح بھی نہیں جسے بطور عید ”نوروز” کے نام سے یاد رکھا گیا۔ میں کرسمس ڈے کی مانند بھی نہیں۔ میں قدیم یونان کی کہنہ روایات میں فصل کاٹنے والے دن منائے جانے والے عید کی طرح بھی نہیں۔ میں مختلف ہوں،میں عید الفطر ہوں، خوشیوں کا مرکز، اللہ کی رضا کا اعلان۔ تم نے مجھے شور سے منانے کا دن بنادیا، مگر میری خاموشیوں میں موجود الہٰی پیغام کو نہیں سنا۔ تم نے غور نہیں کیا کہ ہزاروں خوشیوں اور بے کنار مسرتوں کے ساتھ میری آمد نماز دوگانہ ادا کرکے کیوں محسوس کرائی جاتی ہے؟ مجھے عطیہ کرنے والا رب تم سے اس روز پہلے سجدۂ شکر کیوں ادا کراتا ہے؟ذرا غور کیجیے! مجھے جنگ بدر کی فتح مبین کے بعد سے ہر سال یکم شوال کو منایا جاتا ہے۔ یہی وہ دن ہے جب مجھے انعام کرنے والے رب نے تمہارے لیے آسمان پر بہشت بنائی۔ اسی دن حضرتِ جبریل کو اللہ کا پیغام پہنچانے کا شرف ملا۔ کیا یہ دن کوئی معمولی تھا، جو تم معمول کی خرافات میں بِتا دیتے ہو۔ اس دن اللہ کے فرشتے راستوں میں تمہارے لیے منادی کرتے ہیں کہ آؤ اپنا انعام پا لو، اپنی عبادتوں کا اجر لو۔کیوں آخر ایک ماہ کی پابندیوں کے بعد بہشت کی تخلیق والے دن تمہارا رب تم سے مخاطب ہوتا ہے؟
میں عیدالفطر ہوں، ذرا ٹہرو! یاد کرو،میری آمد سے پہلے کا ماہ اللہ تمہیں پابندیوں کے جتن میں کیوں رکھتا ہے؟پھر اس کے آخری عشرے میں میری آمد سے پہلے اپنے انعامات کی بارش شروع کرتا ہے۔ اسی عشرے میں وہ کتاب مبین دیتا ہے، جو تمہیں ایک الہامی ہالے میں لیتی ہے۔ تمہیں ظلمات سے نور کی طرف لے جاتی ہے۔ تمہارے اعتقادات سے جہل کی پرتوں کو اُتارتی ہے۔ تم پر سیدھی راہ روشن کرتی ہے۔ پھر ان ہی ایام مقدس میں وہ رات انعام کی جاتی ہے، جس کی عبادتوں کا اجر بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے۔ مگر تم فراموش کر بیٹھے کہ اسی ماہ کے ان آخری ایام میں بنی اسرائیل کا چراغ گل کیا گیا تھا، اور مسلمانوں کی عظمت کا چراغ روشن کردیا گیا تھا۔ یہی سے اگلے زمانوں کا سفر بنی اسرائیل کے زوال اور تمہارے اقبال کی صورت شروع کرایا گیا تھا۔ان ہی ایام میں آسمانی قانون حرکت میں آیا تھااور نیابت ِ الہٰی کا ورثہ بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل کو تفویض کیا گیا تھا۔ یہاں دو مختلف قوموں کے درمیان انعام و سزا کے اُصول طے پاگئے تھے، عروج و زوال کے قانون متعین کردیے گئے تھے۔ آسمانی کتاب ہدایت میں واضح کردیا گیاتھا:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم ْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ(نور: ٥٥)
(تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور عمل بھی اچھے کیے ، اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ ان کو زمین کی خلافت
بخشے گا جس طرح سے ان سے پیشتر کی قوموں کو اس نے بخشی تھی)۔
میں عید الفطر ہوں!تم بھول بیٹھے میرا ورود اسی بابرکت ماہ کے اختتام سے ہوتا ہے، جس میں بنی اسرائیل کی عظمت اپنے اختتام کو پہنچی تھی اور مسلمانوں کو نئے قانون کے تحت رفعت آشنا کیا گیا تھا۔ چنانچہ اپنے آغازِ اقبال کی خوشی میں نئے ماہ کے پہلے دن مجھے ”عید” کے طور پر تم سے بغلگیر کیا گیا۔ تاکہ اللہ کے انعامات کے ظہور اور قرآن پاک کے نزول کی تمہید کے ساتھ اللہ کا قانون عروج وزوال بھی تم پر واضح ہو جائے۔ اور تم اچھی طرح جان لو کہ تمہاری خوشی اور غمی ایک بنیادی ذمہ داری ہے۔ تمہاری خوشی محض قہقہے نہیں اور تمہارے غم محض آنکھ سے ٹپکنے والے دو آنسو نہیں ۔تم قانون نیابت ِ الہٰی میں ایک ذمہ داری کے طور پر شریک ہواور تمہاری خوشی و غمی اسی سے جڑی ہے۔اگر یہ نہیں تو میںمحض ایک دن ہوں، لیل ونہار کی گردشوں میں تقویم میں آنے اور گزرجانے والے باقی دنوں کی طرح۔ جسے تم تاریخوں میں صرف شمار کرتے ہو اور بس۔ پھر تمہارے رنگا رنگ ملبوس، خوشبو، مسرت، قہقہے، عیدی اور شیرینی محض دنوں کے اُلٹ پھیر میں ایک مشق کی طرح ہیں اور کچھ نہیں۔
میںعیدا لفطر ہوں، مسلمانوں مجھے مناؤ، خوب خوب مناؤ۔ مگر میری خوشیوں کا مطلب تو پہلے سمجھ لو۔ میں جشنِ ملی کا ایک موقع ہوں۔ مگر تم ستاون اسلامی ممالک کا ایک منتشر کاٹھ کباڑ ہو۔ میں ذکر ِرحمت الہٰی کی یادگار کے طور پر ظاہر ہوتی ہوں اور تمہارے ایک مقبول سجدے کی تلاش میں رہتی ہوںمگر تم عبادتوں کی ریا کاری کی کھوکھلی مشقوں میں مصروف ہو۔ میں نیابت ِ الہٰی کے قانون کی حرکت ہوں،مگر تم حشرات الارض کی طرح رینگتے کیڑے بن گئے ہو۔ تم کبھی دنیا کی دوسری قوموں سے عبرت پکڑتے تھے، اب تم دوسری قوموں کے لیے ایک سامانِ عبرت بن گئے ہو، تم کبھی اللہ کے آگے جھکتے تھے، اب تم بھکاریوں کی طرح دردر کاسہ گدائی لیے گھومتے ہو۔تمہارا کوئی انتخاب نہیں۔ تمہارا اختیار بھیک کے سکوں کے عوض سلب ہو چکا۔کبھی تم ذوقِ عبدیت میں سرشار رہتے تھے،اب تم غلامی کی عادت میں جکڑے جاچکے۔ تم نے چمکتی گاڑیوں، اونچے محلات ، بڑی زمینوں اورمادی خواہشات میں دل اٹکائے۔ خود کو ہوائے نفس میں مبتلا کیا تو اللہ کا قانون حرکت میں آیا۔ تم سے زمین کی وراثت چھین لی اور خلافت کا خلعت نوچ لیا۔ اب جاؤ جس زمین پر تمہارا اختیار نہیں، اس پر محلات بناؤ ، جس زندگی پر تمہارا قابو نہیں، اس کو اُن ہی محلات میں کھپاؤ۔ اپنی حالت پر خود ہی کھوکھلی ہنسی اڑاؤ۔ اپنا مذاق خود بناؤ۔ قوموں کی برادری میں ارزل و اسفل کہلاؤ۔ اونچے گھروں کی جھوٹی شان میں خود کو گُھلاؤ۔ پھر دردر سر کو جھکاؤ، بھیک مانگو، کاسۂ گدائی پھیلاؤ۔ مجھے مناؤ۔ قہقے لگاؤ اور اس جھوٹے جشن وطرب میں اپنے اعمال کی سیاہ کاریوں کو چھپاؤ۔
میں عیدالفطر ہوں ،تم بھول گئے، کبھی میں ایسے بھی تمہارے درمیان آتی تھی جب میرے آنے کی نوید چاند سے تمہیں ملتی تو اگلے دن کا سورج ایسے چمکتا کہ تمہارے اعمال کی روشنی دنیا کو پہلے ہی منور کیے رکھتی۔ تم قوموں کی برادری کے اُفق پر پہلے ہی چمک دمک رہے ہوتے۔ تب تمہاری خوشیاں روحانی اور قلبی اطمینان پیدا کرتیں۔ فرشتے پر پھیلائے تمہاری نماز دوگانہ پر سایہ فگن رہتے۔ تمہاری دعاؤں پر خود آمین کہتے۔ اللہ فرشتوں کے درمیان تمہارا ذکر فرماتا۔ حبیب خدا، خاتم الانبیاء ۖ کی مسرت دیدنی ہوتی۔ اللہ کو اُن پر پیار آتا۔ مگر اب تم کیا سے کیا ہوگئے؟ تمہارے زوال پر پستیوں کو بھی ذلت محسوس ہوتی ہے۔ تمہاری گمراہیوں پر شیطان بھی شرمندہ ہوتا ہے۔ تم سے ڈرنے والے تمہیں ڈراتے ہیں۔ تم سے پانے والے تمہیں بھیک دیتے ہیں۔ تم جنہیں اپنے مجسم وجود کی بابرکت روشنیاں دیتے تھے، وہ اب تمہارے اندر کے اندھیروں پر ہنستے ہیں۔
میں عیدالفطر ہوں۔ مجھے تم خوشیوں کے مرکز کے طور پر یاد رکھتے ہوں، مگر میں خود بھی خود سے خوش نہیں۔ تمہاری حالت نے میری خوشیوں کو کھالیا۔تم نیابت ِ الہٰی کے ورثے کو سنبھالتے تو کیا، اس کاکماحقہ ادراک بھی نہ کرسکے۔ تم الہٰی قانون عروج وزوال کی حرکت کو سمجھ ہی نہ سکے۔ اگر تم اپنی زندگی کے اختیار سے محروم ہو، اگر تم اپنے اوپر بھی حکومت کرنے پر قادر نہیں۔ اگر تمہارے حکمران تمہارے اپنے نہیں۔ اگر تم اپنی تقدیر کے بنیادی فیصلے کرنے میں بھی آزاد نہیں رہے۔ اگر تم اپنی بھوک کے خاتمے کی جدوجہد کے بھی قابل نہیں۔ اگر تم بھیک پر قانع ہو، خوف میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو تو پھر تم مجھ سے بغلگیر ہونے کے بھی مستحق نہیں۔ میں تمہاری نہیں اور تم میرے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔